اوریا مقبول جان کے کالم پہ ردِ عمل

اوریا مقبول صاحب کا ایک کالم شائع ہوا جس پہ کچھ اعتراض اٹھائے گئے, خاص کر ایک پیرا گراف جس میں شرک وغیرہ کی بات کی گئی۔ متعرضین کی دانست میں اوریا صاحب نے لبرلز سیکولرز کو مشرک ، لادین قرار دیا ہے۔ انہوں نے اوریا صاحب کو استہزائی انداز میں کم عقل، متعصب، رجعت پسندسوچ کا حامل نام نہاد دانشور قرار دیا۔
در اصل اوریا صاحب کا مکمل کالم پڑھنے سے اس پیراگراف کی زیادہ بہتر توجیہہ ہو سکتی ہے۔ اوریا صاحب نے خیال ظاہر کیا ہے کہ دنیا دو بلاکس میں تقسیم ہونے جا رہی ہے۔ ایک کی نمائندگی سرمایہ دارانہ نظام جو خود کو سیکولر ، لبرل ازم میں پوشیدہ رکھتا ہےجو مذہب کو ثانوی حیثیت دیتا ہے اور فرد کا ذاتی معاملہ قرار دیتا اس بلاک میں امریکہ اور اسکے اتحادی شامل ہیں۔ دوسرا بلاک وہ جو اس نظام کے متبادل وجود میں آ رہا ہے جسکی نمائندگی روس کر رہا ہے اسمیں چائنا وغیرہ شامل ہیں۔ اوریا صاحب کی نظر میں دوسرا بلاک مذہبی قوانين و روایات کو مقدم جانتا ہے اور مذہب کو حکومت ہو کہ معاشرت کلیدی حیثیت دیتا ہے اسطرح اس گروپ کی تشکیل مذہبی بنیادوں پہ استوار ہو رہی ہے۔ انہوں نے روس میں عیسائیت کے فروغ کا ذکر کیا اور روس کے متعلق فرمایا کہ وہاں کمیونزم کے دم توڑنے کے بعد مذہبی ریاست کے بیانئے کو اپنا رہا ہے جسکی دلیل انہوں پیوٹن اور کے جے بی کے سربراہ کے بیانات کو بنایا ۔

مزید اس پسِ منظر میں انہوں نے قران وحدیث سے رہنمائی کی بات کی کہ مسلمانوں کے لئیے لادین سرمایہ دارانہ نظام کے بجائے مذہب کی علمبردار قوتیں فطری اتحادی ہونی چاہئیں۔ میں ذاتی طور پہ اوریا صاحب کی اس رائے سے متفق نہیں کہ روس اور اتحادی مذہب کی نمائندگی کرتے ہیں یہ انکا خیال ہے جو درست بھی ہو سکتا ہے اور نہیں بھی۔ میری ناقص رائے میں اسے نظریاتی گروہ بندی کے بجائے دنیا میں مثبت تبدیلی کا پیش خیمہ کہنا چاہئیے جس سے کسی ایک سپرپاور کی اجارہ داری ختم ہو گی۔ ان دو بلاکس میں سے کسی میں شرکت کے لئیے مذہبی جواز کی قطعی ضرورت نہیں
پاکستان اپنے قومی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے اتحادی بننا چاہیے۔

اب اس پیرا گراف کا جائزہ لیتے ہیں جسکی وجہ سے اوریا صاحب کو تختہ مشق بنایا گیا… کہ لبرلز شرک کے مرتکب ہیں کہ نہیں۔ اس کالم کے پسِ منظر میں وسیع تر جائزہ لیا جائے تو یہ اتنا غلط بھی نہیں ہے۔ میں اہلِ علم احباب کے سامنے چند سوال رکھتا ہوں جس سے اس پیرا گراف کو سمجھنے میں آسانی ہو گی..

1. کیا اللہ رب العزت کے علاوہ کوئی اور طاقت واحدہ و لاشریک ہے اور نظامِ کائنات چلانے قوانین و احکام و ضوابط متعین کرنے کا اختیار رکھتی ہے؟
2. اگر کوئی شخص مندرجہ بالا اختیار کسی شخص کسی ادارے، کسی گروہ کو تفویض کرنے کو درست سمجھتا ہے تو ایسا شخص معروف معنوں میں مذہبی یا کس درجے کا مسلمان ہوگا۔ آسان الفاظ میں جو شخص اللہ کی حاکمیتِ اعلیٰ یا دوسرے معنوں میں شریعت کے متعین کردہ اصول و قوانین کو نہیں مانتا یا انہیں فرسودہ یا انکے نافذالعمل ہونے میں متردد ہے یا مخالف ہے اسکی مسلمانانہ حیثیت کے راسخ ہونے پہ سوالیہ نشان ہے کہ نہیں؟
3. پاکستان میں مسلمان اکثریت میں ہیں اور جمہوری طرزِحکمرانی میں اکثریت کو نظامِ زندگی متعین کرنے کا اختیار دیتی ہے۔
اسطرح پاکستان میں پارلیمنٹ نے قوت و اختیارات کا سر چشمہ اللہ واحدہ و لاشریک کو قرار دے کر فرد کو اللہ کی نیابت کا اختیار دیا گیا ہے کہ قوانينِ شریعہ کی روشنی میں اختیارات کو استعمال کرے۔ کیا ایسے ملک میں جو اسلام کے نام پہ وجود میں آیا ہو اور اکثریت مذہب کی پیروکار ہو، بہتر طریقہ نہیں کہ جمہوریت کو مذہب کے تابع کر کے فرد کے حقوق کی حفاظت کی جائے.. ؟ اگر جمہوری اصولوں کو بھی مدِ نظر رکھا جائے تو عوام کے نمائیندوں نے اسلامی جمہوریت کے نظام کو اپنایا تو اکثریت کی رائے کا احترام سکیولر لبرلز کو کرنا چاہیے۔ وہ اقلیتی رائے کو اکثریت پہ مسلط کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ یہ بذاتِ خود جمہوریت یا سیکولرزم کے اصولوں کی خلاف ورزی نہیں؟

میں فتویٰ لگانے یا حتمی رائے دینے کا اہل نہیں مگر ان اصحاب کی سوچ پہ حیران ہوں جو اسلام کے متوازی کسی اور نظام سیکولرازم، لبرل ازم یا سرمایہ دارانہ نظام کو برحق جانتے ہیں اور اگر انہیں مشرک یا کمزور ایمان والا گردانا جائے تو سیخ پا ہوتے ہیں اور مسلمانییت اور ایمانیت پہ اصرار کرتے ہیں یہ عجیب دورخی ہے کہ “رِند کے رِند رہیں اور ہاتھ سے جنت بھی نہیں جانے دیتے”۔
اسلامی اصولوں پہ مبنی نظامِ حکومت پہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ایسے معاشرے میں جہاں کئی فرقے مسالک موجود ہیں تو اسلام بطور نظام کے کیسے نافذ ہو کسی ایک مکتبہ فکر کی حکومت پہ سوالیہ نشان ہوگا۔ یہ کہ فرد کی موجودگی میں اللہ کا حاکمِ اعلیٰ کا ہونا کیسے ممکن ہے؟ فلسفیانہ موشگافیوں میں الفاظ کے گورکھ دھندے میں الجھے بغیرد یکھا جائے تو پاکستان میں ایک متفقہ آئین تشکیل دیتے وقت تمام مکاتبِ فکر کی نمائینگی موجود تھی اور اس میں انہی مکاتبِ فکر کے نمائندوں نے مسلمان کی تعریف کر دی ہے اور اس تعریف پہ شیعہ، سنی، بریلوی، دیوبندی، وہابی کسی کو اعتراض نہیں تو لبرلز سیکولرزم کے علمبرداروں کا اعتراض بے جا ہے۔ ملک میں مسالک کی تفریق کو اسلامی نظام کے نفاذ میں رکاوٹ قرار دینے کو افسانہ ہی کہونگا جسے اسلامی نظام کے مخالف ہوا دیتے ہیں تاکہ اسلامی نظام کی عملیت کو مشکوک کر سکیں۔ انکی دلیل میں وزن یوں بھی نہیں کی ان مسالک کی تفریق کے باوجود اسلامی اصولوں پہ مبنی آئین نافذ ہے اور کامیابی سے چل رہا ہے…جو لوگ اللہ کی حاکمیتِ اعلیٰ کو افسانوی بات قرار دیتے ہیں کہ یہ لفاظی اطیمنان ہے اور کچھ نہیں ۔ انکے سامنے شاید یہ حقائق نہیں یا جان بوجھ کے انہوں نے ان سے چشم پوشی کی ہوئی ہے کہ اس ملک میں کوئی لادین یا غیر مسلم حکمران نہیں بن سکتا، کوئی قانون شریعت سے متصادم نہیں بن سکتا۔ پاکستانی آئین کی اصل روح کے مطابق نفاذ میں کچھ کمی موجود ہے جو دور ہو سکتی ہے۔ کچھ دوست سود کے متعلق بات کرتے ہیں تو اس پہ شریعت کورٹ کا فیصلہ موجود ہے جس پہ حکومتِ وقت نے سٹے لیا تھا….
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی عوام اسلام سے برگشتہ ہے تو آج ہی آزادنہ، منصفانہ۔ شفاف ریفرنڈم کرا لیجئیے کہ عوام اسلامی نظام چاہتی ہے کہ کوئی اور مادر پدر آزاد، سیکولر، لبرل ازم انکو جواب مل جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

بات دراصل یہ ہے کہ نااہل اور مفاد پرست حکمرانوں کے طرزِ عمل سے کہ انہوں نے اسلام کو اپنے مقاصد و حکمرانی کی ہوس کے لئیے استعمال کیا، اسلام کا چہرہ دھندلا گیا ہے، جسے اسلام کی ناکامی سے تعبیر نہیں کرنا چاہیے۔

Facebook Comments

گل ساج
محمد ساجد قلمی نام "گل ساج" مظفر گڑھ جنوبی پنجاب ۔۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply