قبر کا خط محترم نواز شریف صاحب کے نام۔

قبر کا خط محترم نواز شریف صاحب کے نام۔
ظفراقبال مغل
اے راہ حق کے مرد کامل امید کرتی ہوں جب میری یہ تحریر آپکے ہاتھ میں ہو گی اس وقت آپ ایک صحتمند اور توانا زندگی گذار رہے ہوں گے ۔نجانے کیوں آج میں بہت اداسی کے عالم میں آپکو یاد کر رہی ہوں۔ میرا یاد کرنے کا مطلب ہر گز یہ نہ ہے کہ آپ کو ہرچند پریشانی میں مبتلا کروں اور نہ ہی آپکو خوفزدہ کرنا مطلوب و حاصل ہے۔
عزیزان من ! دنیا لافانی ولامتناہی خواہشات کاایک سمندر بےکراں ہے ۔جب آپ رات کو سوتے ہیں تو خوشبوؤں میں بسے اطلس و کمخواب کے بستر اور نرم نرم پروں کے تکیےاور راحت کے کئی اور سامان آپکو میسر آتے ہوں گے ۔ صبح کاذب طبع وطبیعت کے موافق غسل اور ناشتے کی میز خواہشات کے مطابق انواع واقسام کے کھانوں سے بھری ہوتی ہو گی۔ خادمین خدمت وچاکری کے جذبے سے ادھر سے ادھر بھاگ دوڑ رہے ہوتے ہوں گے ۔ سورج کی کرنیں سلام وآداب کی کورنشیں بجا لاتی ہوں گی ۔ بیوی بچے وارے نیارے جارہے ہوں گے ۔ مہمانوں کی لمبی لمبی لسٹیں ملاقات سے فیضیاب اور بعض حسرت دیدار دل میں ہی لے کے چلتے بن رہے ہوں گے ۔ لمبی لمبی نئی اور بڑی بڑی کاریں جیپیں آ جا رہی ہونگی ۔
سیکرٹری صاحبان کی اک دوڑ سی لگی ہوگی ۔ حکم واحکام کے پرچے کمپیوٹر سے دھڑا دھڑ نکل رہے ہوں گے ۔ کب دن چڑھا کب شام آئی اور کب اندھیرے نے اپنے بازو پھیلا کے رات کو اپنے سر پہ کھینچ لیا ہو گا ۔ کہیں ملکی بھاگ ڈور چلانے کی ہلچل ،کہیں دولت کے انباروں کو ٹھکانے لگانے کے نت نئے طریقوں کی باتیں ۔ کہیں فیملی کے مسائل ،کہیں لندن کی گہما گہمی سے حسن وحسین کے فون، کہیں مریم اور حمزہ کی چہ میگوئیاں ،کہیں شہباز کی پرواز گو کہ ارد گرد اک ہنگامہ سا برپا ہوگا ۔ وزیروں مشیروں سے ملاقاتیں امور سلطنت کی بازیگریاں تو رانا ثناءاللہ کی پھرتیاں، سب اک ترتیب زماں سے رقصاں و موجزن ہو رہی ہونگی ۔ عقل و خرد کے گھوڑے دوڑاتے دوڑاتے آپ یقیناً مجھے فراموش کر بیٹھے ہوں گے ۔ سوچا آج ہم بھی آپکی بزم میں کچھ دیر کے لئیے آ جائیں ۔ کچھ باتیں روبرو کر لیں ۔
تو صاحب آپ نے میرے بارے میں تو پڑھا سنا ہی ہوگا ۔ مگر چونکہ آپ امور سلطنت میں اس طرح مگن ہوتے ہیں کہ پھر کسی اور طرف نگاہ مست اٹھتی ہی نہ بنے ہے ۔تو خود سے آپ کی خلوت میں مخل ہونے کی جسارت کر بیٹھی ہوں۔
صاحب !میں ایک مٹی کی ڈھیری ہوں ۔ دیر بدیر آپ میرے مہمان بننے والے ہیں ۔ جب سفید چادرسے ڈھکا آپکا جسد خاکیرضائے الہیٰ سے تابوت میں لپیٹ کے آپکے گھر سے اٹھایا جائیگا ،تو گھر والوں کی چیخوں کا اک کہرام مچا ہوگا ۔کوئی آپکی میت کو گھر سے نکلنے نہ دینے کی دہائی دے رہا ہو گا ،کوئی آپکے ساتھ مرنے کی تمنا کر رہا ہوگا ۔ کوئی ہمیشہ کے لئے جدا ہونے کو یاد کر کے بلک رہا ہوگا ۔ کہیں سسکیاں اور کہیں آہ و فغاں کے میلے سجے ہونگے ۔ کوئی چلا رہا ہو گا کوئی غم کی زندہ لاش بن کے دیواروں سے چمٹ رہا ہوگا ۔آہ وفغاں کے اس ہنگام سے اپنے بیٹوں ،دوست احباب منصب داروں ملازموں وزیروں اور مشیروں کے کاندھے پہ سوار ہو کے جنازگاہ کی طرف رواں دواں ہوں گے ۔ میری طرف آنے والے ہر راستے پہ لوگوں کا اک ہجوم ہوگا ، اور حیران و پریشان آپکا جسد خاکی یہ سارا منظر دیکھ رہا ہوگا ۔
آپکا دل تو چاہے گا ، کوئی تو ہو جو ،رگوں میں اترتی اس اذیت سے آپ کی جان چھڑا دے ۔ مریم کو آواز تو دے رہے ہوں گے ۔ مگر وہ غم و یاس میں ڈوبی پگلی کب یہ سن پائے گی ۔ بیگم کلثوم کے گالوں کے موتی آپکو بےچین تو کریں گے مگر اب آپ ان کو پونچھ نہ سکیں گے ۔ جھوٹے درد میں ڈوبے بہت اپنے ظاہری غم و حزن کا ڈھونگ رچا رہے ہوں گے مگر ذہنوں اور دماغوں میں اقتدار کی منتقلی کے نت نئےمنصوبے بن رہے ہونگے ۔ یہ سب آپ سن اور محسوس کر رہے ہونگے ۔مگر یہ کیا کہ آج آپ ایک دم سے اتنے بے اختیار ہو گئے کہ کسی کے آنسو پونچھنا تو درکنار آپ تو اپنا ہاتھ بھی نہیں ہلا سکتے ہوں گے ۔
جب محل کو آخری نظر دیکھیں گے تو کلیجہ منہ کو آجائے گا ۔ وہ خوابگاہ کی چہ مہ گوئیاں، وہ ناشتے، وہ حلوے مانڈے ۔ وہ مالی بابا سے پیار سے ملنا ،وہ پودے وہ درخت جو آپ کے سامنے پلے بڑھے وہ ڈرائینگ روم اور اس کا فرنیچر جہاں کئی ملکوں کے فرماں رواں آپکے ساتھ بیٹھ کے چائے کی چسکیاں لیتے رہے ۔ وہ مہمان خانے، وہ قیمتی اشیا ء وہ گھڑیاں وہ مہنگےسوٹ اور ٹائیاں ،غرض ہر وہ چیز جو بڑے شوق سے بڑے چاؤ سے خریدی تھی۔ اب آپ کی نہیں ۔ حسرت ویاس کے ان تمام مناظر سےاپنی روح کی آنکھوں کوتر کرتے آپ جنازگاہ پہنچ جائیں گے ۔
ملک کے بڑے سے پیٹ والے ملا سے اپنی نماز جنازہ پڑھانے کے بعد کلمہء شہادت کی گونج میں آپ میرے مہمان بنیں گے ۔ اس وقت آپ آخری بار آسمان کو دیکھ رہے ہونگے۔ میرا خوف آپکا جسم تو ٹھنڈا کر چکا ہوگا ۔مگر اب زمین کی نمی،تنگ و تاریک قبر اور ہمیشہ کی سیاہ رات آپکا مقدر بن چکی ہوگی ۔
اس کے آگے کا احوال میں آپ کو نہیں بتاؤنگی ۔ کیونکہ ابھی آپ کے پاس وقت کا خنجر موجود ہے جو آپ میرے سینے میں پیوست کر کے مجھ سے کچھ دیر کے لئے دور ہو سکتے ہیں ۔ مگر جو بتا کے جا رہی ہوں وہ ایک اٹل حقیقت ہے ،اور ہو کے رہنی ہے ۔
ہاں آپ نےاپنی زندگی میں ایک نیک کام کیا ہوا ہے جس کے بدلے میں آپ کو ایک گر کی بات بتا کے جا رہی ہوں کہ "شاید کہ اتر جائےتیرے دل میں میری بات " وہ یہ کہ ایک تجربہ کر لیں ۔ اپنے گھر کے سب سے بڑے کمرے میں دنیا کی ہر آسائش اپنے پاس رکھ لیں ، اور صرف اندھیرا کر لیں ۔ ٹٹول ٹٹول کے ہر چیز کھا ئیں پئیں موج مستی کریں ۔ صرف پابندی یہ ہوگی کہ نہ اجالا ہوگا نہ آپ باہر جا سکیں گے اور نہ کوئی اندر آسکے گا ۔دیکھ لیجئے گا اور تصور کی آنکھ کو دوڑا لیں کہ تصویر کیا بنے گی ۔ کتنے دن تک اس کو جھیل پائیں گے بالکل اسی طرح اگر اللہ پاک کی ذات آپکو کوئی سزا نہ دے اور میرے پاس اس اندھیر نگری میں صرف آپکو زندہ ہی کر دے تو کیا ہو ۔
آپکے پاس کافی ٹائم ہے ۔ ایسے مال کی محبت کو دل سے نکال پھینکیں جو کبھی بھی ہمیشہ کے لئے آپکا نہیں ہونے والا ۔ اس جہان کے مالک نے آپکو ایک بڑی طاقتور سلطنت کا مالک ومختار بنا یا ہے ۔ اس کو جنت بنانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں ۔ مسلم امہ کے لئے کوئی بڑا سا کام کر کے فخر سے میری طرف کا سفر فرمائیں، میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں کہ آگے بڑھ کے آپکا اسقبال کرونگی، اور تا قیامت روشن اور پر نور رہوں گی، اور جنت کے باغ کی ایک کھڑکی بھی آپ پہ وا کر دونگی ۔
آپکی منتظر
آپکی قبر

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply