شاکر شجاع آبادی

پڑھو رحمان دا کلمہ بنو شیطان دے چیلے

منافق توں تے بہتر ہے جو کافر ناں رکھا دیندے

جے سچ آکھنڑ بغاوت ہے، بغاوت ناں ہے شاکر دا

چڑھاؤ نیزے تے سر بھانویں، میرے خیمے جلا دیویں

دوست لکھاری فرنود عالم صاحب نے شاکر شجاع آبادی سے متعلق ایک پوسٹ اپنی فیس بک کی وال کی نظر کی تو تجسس ہوا کہ اس شاعر کی شاعری کو کھنگالا جائے۔ شاکر صاحب کی شاعری پڑھی اور جب ایک مشاعرے میں انہیں جلوہ افروز دیکھا تو دل ہی پھٹ گیا۔

اشاروں سے اشعار کو سمجھانے والے کے الفاظ تو کسی کی زبان کے محتاج ضرور ہیں مگر اسکے تخیل کی اڑانیں لامحدود ہیں۔ وہ جسکے ہر شعر پر مجمع داد دئیے بغیر نہی رہ سکتا۔ وہ جس نے علم و ادب کی وہ مثال قائم کی وہ رہتی دنیا تک ادب دوست لوگ بھلا نہ سکینگے۔

لیکن کیا اب واقعی ہی ہماری ماؤں کو اپنی گود اجاڑ نہی دینی چاہیے؟ کیا فائدہ ایسے نگینگے جنم دینے کا؟

جنکی روشنی اس دنیا کو توروشن کرے لیکن اپنے گھروں کے چوہلے نہ جلا سکے؟

میرے قلم سے یہ الفاظ اتنے دکھ سے برامد ہو رہے ہیں، میرا سر جھک گیا ہے، میں ایک بار پھر شرمندہ اور بے بس محسوس کر رہا ہوں۔کاش میری تحریر ایک معافی نامہ کے طور پر شاکر شجاع آبادی صاحب تک پہنچ جائے۔ کاش انہیں یہ پڑھ کر سنا دیا جائے، بتا دیا جائے کہ وہ ایک ایسی قوم کا حصہ ہیں، جنکے ٹاک شوز میں اور نیوز چینلز میں بے تکی خبروں پر تبصرےکے لئے بہت وقت ہے لیکن ایک شخص جس نے ساری زندگی کسمپرسی کی حالت میں ایک ملک کے بہترین کلچر کو فروغ دیا وہ شخص آج اس حالت میں علاج سے محروم ہے۔

سہیل وڑائچ صاحب کا پروگرام، میرے خیال میں واحد انٹرویو تھا جو شجاع آبادی صاحب پر ریکارڈ ہوا۔باقی سارا میڈیا خاموش ہے۔ یہ خاموشی کھا گئی ہمیں، اس نے ہمیں کھوکھلا کردیا، مار دیا ہمارے ضمیر کو، دفن کردیا اس نے ہماری غیرت کو، جنازہ اٹھ گیا ہماری انسانیت دوستی کا۔

پر مجھے ایک بات کہنے دیجئے، بتانے دیجئے شجاع آبادی کو کہ اگر اللہ کے ولی بے ضرر اور بے لوث ہوتے ہیں تو مجھے شجاع آبادی کو بتانے دیجئے کہ وہ اللہ کے ولی ہیں، اگر اللہ کے ولی صابر و شاکر ہوتے ہیں تو مجھے بتانے دیجئے، شجاع آبادی کو وہ اللہ کے ولی ہیں۔ اگر اللہ کے ولی کا دل مظلوموں کے ساتھ ظلم پر دکھتا ہے تو مجھے انہیں بتانے دیجئے کہ وہ اللہ کے ولی ہیں۔

پانچ پانچ دن کی فاقہ کشی کے بعد یہ مرد مجاہد دنیا کے مظلوموں پر ہونے والے ظلم کو دیکھ کر روتا ہے۔ اور اپنے اوپر آنے والے دکھوں کو عبادت کہتا ہے۔ اور اس پر اپنا شعر بھی پڑھتا ہے۔ دوسرے مصرعے کے آخر پر اسکی خوشی دیکھنے والی ہوتی ہے۔

ایتھاں جو بھوگ بھوگے ہن، اتھاں کوئی تاجزا مل سی

تھکیڑے سارے لہہ ویسن، نبی مل سی خدا مل سی

محبت، پیار اور مٹھاس بانٹنے والا یہ شخص آج زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ حکومت یا کسی بھی سیاست دان سے کسی اچھے کی توفیق رکھنا تو بیوقوفی ہے۔ میں اور آپ اس دکھ کی گھڑی میں اس خاندان کے ساتھ کھڑے ہو کر ایک زندہ قوم ہونے کا ثبوت دے سکتے ہیں۔ شائد ہم کچھ قرض اتار سکیں۔ شائد کچھ تکلیف کم کرسکیں۔

سہیل وڑائچ کے اان الفاظ کے ساتھ اپنے اور سبکے ضمیر پر آخری دستک دے رہا ہوں "آخر ہم شجاع آبادی جیسے بڑے لوگوں کے مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟ انہیں انکی زندگی میں انکا حق کیوں نہی دیتے؟ کیا شاکر آبادی جیسے بڑے لوگ اسی طرح دو کمروں کے مکان میں رہتے رہتے اس دنیا سے چلے جائینگے؟ کیا اب وقت نہی آ گیا کہ ہم ان لوگوں کو انکا حق دیں؟ اور اسکا آغاز ابھی سے کریں؟"

انکے بیٹوں کے نمبر درج زیل ہیں:

نوید شاکر شجاع آبادی
03053560127

Advertisements
julia rana solicitors

ولید شاکر شجاع آبادی
03056973651

Facebook Comments

محمد حسنین اشرف
ایک طالب علم کا تعارف کیا ہوسکتا ہے؟

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply