مظلوم کون؟

میں نے اپنے بزرگوں سے سن رکھا تھا کہ یہ عورتیں چڑیل ہوتی ہیں ان سے دور رہا کرو لیکن اکثر میں سوچ میں پڑ جاتا اور ماں کے گلے سے لپٹ جاتا اور پھر ماں ہی سے پوچھتا کہ ماں وہ عورتیں کہاں ہوتی ہیں؟ جو چڑیل ہوتی ہیں؟۔۔۔۔۔ ماں ہنستی اور ہنستے ہوئے کہتی بیٹا وہ تمھاری شادی کے بعد تمھیں نظر آئے گی۔یہ بات مجھے کبھی سمجھ نہ آئی لیکن شادی کے بعد مجھے چڑیل نظر آئی اور وہ بھی روزانہ۔سنا تھا عورت دنیا کی ہر چیز سے ڈرتی ہے مگر نہیں ڈرتی تو صرف اپنے ہٹے کٹے خاوند سے، اکثریت تو یہ بھی کہتی ہے کہ عورت بڑی مظلوم اور معصوم ہوتی ہے ۔اس میں دو رائے نہیں ہوسکتی کیونکہ رات کو بند کمرے میں جو کلاس ہوتی ہے وہ ایک صیغہ راز ہی ہے۔جس کا بھانڈہ مرد نے آج تک شرم کے مارے نہیں پھوڑا کہ اصل مظلوم کون ہے؟
یہ دنیا کی وہ واحد جوڑی ہوتی ہے جو شادی کے چھ مہینے بعد ہی لڑنا شروع کردیتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتے لیکن پوری زندگی ساتھ گزار دیتے ہیں۔یہ وہ واحد لڑائی ہوتی ہے جس میں مرد کا سر نہیں پھٹتا لیکن چہرے پر چہرے پر زخموں کے نشان ضرور آجاتے ہیں اب اگر آپ کے بچے ہیں پھر تو آپ باہر دوستوں کی تنقید سے بچ جائیں گے ورنہ اللہ ہی حافظ ہے۔یہ میاں بیوی کی وہ واحد لڑائی ہوتی ہے جس میں بچے جب چھوٹے ہوتے ہیں تو سہمے رہتے ہیں لیکن جب بڑے ہوجاتے ہیں تو پھر اسی لڑائی سے محظوظ ہوتے ہیں۔دنیا میں ایک ایسا جملہ بھی موجود ہے جو ہر مرد کو اپنی بیوی سے سننے کو ملتا ہے۔۔۔تم نے اب تک ہمارے لیئے کیا ہی کیا ہے؟اور وہ شوہر جو بیچارا ڈیوٹی سے گھر کو لوٹا ہی ہوتا ہے اور دو دن پہلے ہی پوری تنخواہ بیگم کے ہاتھ پر رکھی ہوتی ہے،سوچ میں پڑ جاتا ہے۔یہ پانچ بچے،یہ اتنا بڑا گھر ، اے سی،یہ فریج،واشنگ مشین،اور دنیا کی تمام نعتیں حتی ٰ کہ ہر سہولت گھر میں موجود لیکن پھر بھی یہ جملہ ۔۔۔ ۔اس پر بھی یہ بیچارا مرد کبھی مولوی کے پاس تعویذ کرانے نہیں گیا کیونکہ نہ تو اس کو جن پکڑتے ہیں اور نہ ہی کوئی دورے پڑتے ہیں۔
اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی عورت مظلوم ہی ٹہری کیونکہ عورت جو ہوئی۔صدیوں سے ظلم سہتے ہوئے آرہی ہے۔آج کل قصہ الٹ ہے لیکن اس راز سے پردہ کون اٹھائے ؟عورت تو تھی صنف نازک اور کمزور اسے مظلوم کہا جا سکتا تھا لیکن مرد اپنی مظلومیت کس کو دکھائے۔بیچارا مرد ایک بار پھرانا کی بھینٹ چڑھ گیا اور عورت فاتح ٹھہری۔بیگم کو ہمیشہ یہ شکایت رہی کہ ہم ان کی تعریف نہیں کرتے۔میں سوچ میں پڑ گیا یہ ڈھیر سارے بچے کس بات کی علامت ہیں؟ نہ جانے کیوں مجھے ہر وہ عورت اچھی لگتی ہے جو بیوی نہیں ہوتی۔۔۔عورتوں کو ہمیشہ اپنے مردوں سے شکایت رہتی ہے کہ مرد گپ شپ نہیں لگاتے یا رومینٹک انداز نہیں اپناتے۔اصل قصہ یہ ہے کہ مرد رومینٹک انداز جب اپنائے گا جب عورت کا رونا دھونا ختم ہوگا ۔اسے شکایتوں سے فرصت نہیں۔عورت خاموش ہوگی تو مرد کوئی خوبصورت روپ اپنائے گا ۔اس لیے خواتین سے مودبانہ التماس ہے کہ خدارا ہم بیچاروں پر رحم کریں ،اور چڑیل بن کر ڈرانا چھوڑ دیں ۔

Facebook Comments

Khatak
مجھے لوگوں کو اپنی تعلیم سے متاثر نہیں کرنا بلکہ اپنے اخلاق اور اپنے روشن افکار سے لوگوں کے دل میں گھر کرنا ہے ۔یہ ہے سب سے بڑی خدمت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply