رانگ نمبر اور راشن۔۔علی اختر

“پی کے” میں عامر خان نے ایک ایلین کا کر دار کیا جو ہماری دنیا میں آکر پھنس جاتا ہے ۔ اب کیونکہ وہ دوسری دنیا کا رہنے والا ہوتا ہے تو ہماری دنیا کے طور طریقوں سے یکسر نا واقف ہوتا ہے ۔ بول چال، رسم و رواج ، لباس ، طور طریقوں سے یکسر نابلد ہونے کے باوجود بھی وہ چند ہی دن میں سمجھ جاتا ہے کے ایک کاغذہے جس پر ایک بوڑھے سے مسکین شکل والے با با جی کی تصویر بنی ہوتی ہے اسے کسی بھی دکاندار کو دینے پر کھانا یا ضرورت کا دیگر سامان وغیرہ خود بخود مل جاتا ہے ۔ یہ “پی کے” کا انڈین کرنسی نوٹ سے پہلا تعارف ہوتا ہے اور ہماری  دنیا میں گزارے جانے والے دنوں میں وہ اس کاغذ  کے ٹکڑے کا گاہے بہ گاہےبھرپور استعمال بھی کرتا دکھائی دیتا ہے ۔

اب فلم کیونکہ تین گھنٹے کی تھی سو اس تناظر میں” پی کے” کے مزید خیالات کی عکاسی نہ کی جا سکی ۔۔۔۔چلیے وہ ہم کیے دیتے ہیں ۔

کرنسی نوٹ کے استعمال سے آشنا ہوتے ہی پی  کے کے دماغ میں اس کو استعمال کرتے ہوئے   لین دین کے ذریعے اشیاء و خدمات کی فوری و آسان ترسیل سے متعلق خیالات آنا شروع ہوئے ۔ وہ جان گیا کہ  تمام امور بدستور رہتے ہوئے یہ کاغذ کا ٹکڑا ہر آن، ہر گھڑی کارگر رہتا ہے ۔ ہاں سیلاب، طوفان، زلزلے یا برفانی تودہ وغیرہ گر جانے کے باعث جب راستے ، سڑکیں بند ہوجائیں تو ایسی ہنگامی صورتحال میں کھانے پینے کی اشیاء ناپید ہوجاتی ہیں اور ان کی ہنگامی فراہمی کی ضرورت پڑتی ہے ۔ بصورت دیگر ایسے حالات میں جب کہ  دکانیں و گودام اناج و دیگر اشیاء سے بھری ہوئی  ہوں۔ آپ کرنسی نوٹ دے کر کچھ بھی حاصل کر سکتے ہیں ۔

دنیا میں کچھ دن گزار کر اسے احساس ہوتا ہے کہ  اس دنیا میں انسان کو دال ، چاول ، آٹے وغیرہ ہی کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ بخار سے لے کر قلب و جگر کی ادویات ، بجلی گیس کے بل ، مکان کے کرایہ ، صابن ، سرف رکشے کا کرایہ وغیرہ اور بہت سی دیگر اشیاء کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔ ان ساری اشیاء کی ضرورت، قیمت وغیرہ سب  یکساں نہیں بلکہ الگ الگ ہے ۔ ہاں تمام ضروریات کو پورا کرنے میں یہ کرنسی نوٹ ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خیر “پی کے” کی تو آمد و رخصت اس دنیا میں بہت قلیل مدت کے لیے تھی ،لیکن ہم اسی دنیا کے باسی ہیں۔ ہمیں یہ پتا ہے کہ  ملک  میں کوئی  ایسی آفت نہیں آئی  کے دکانوں پر راشن ملنا بند ہو گیا ہو ۔ ہم دنیا سے کٹ چکے ہوں یا کوئی  سیلاب یا وہ برفانی تودہ والا سین ہو تو بھائی  لوگ یہ اتنے خاندانوں کو ٹرک بھر کے راشن دے دیا ، اتنے لوگ پارسل بنا رہے ہیں والی اوچھی حرکتیں کر کے خود کو رانگ نمبر ثابت نہ کریں ۔ٹرک کا ڈیزل اور اپنی توانائی بھی خرچ نہ کریں۔ بلکہ گھر سے کم نکلیں کیونکہ سڑک پر تو ویسے بھی کرونا پھیلا ہوا ہے ۔ غریب کو صرف پیسے دیدیں وہ خود  کسی  سپر مارکیٹ پہنچ جائے گا ۔ شکریہ۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply