• صفحہ اول
  • /
  • مشق سخن
  • /
  • ٹیلی کام انجینئرکی مفلوک الحالی اور حکومتی کردار (آخری حصہ )

ٹیلی کام انجینئرکی مفلوک الحالی اور حکومتی کردار (آخری حصہ )

میڈیکل کے نام پر آپ کے ساتھ عمدہ مذاق کیا جائے گا میڈیکل میں صرف جب آپ ہاسپٹل ایڈمٹ ہوں گے تو آپ ایک مختص کی ہوئی رقم کا دعویٰ کر سکتے ہیں اور اس سے زیادہ بل آنے کی صورت میں آپ کو اپنی جیب سے ادا کرنا ہوگا۔ آپ او پی ڈی میں اگر ہزاروں روپے بھی خرچ کر دیں لیکن آپ ایڈمٹ نہیں ہوئے تو آپ کو ایک پائی بھی ادا نہیں کی جائے گی۔ والدین کو میڈیکل کی کوئی سہولت نہیں دی جائے گی۔ آپکی زوجہ بیماری یا زچگی کی صورت میں کمپنی سے کسی قسم کا کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتی ۔ کیا یہ میڈیکل پالیسی ہے؟ اگر کمپینیز نےیہ ظالمانہ پالیسی اپنائی ہوئی ہے تو حکومت وقت اس پر کوئی ایکشن کیوں نہیں لیتی؟ کوئی عدالت سوموٹو ایکشن کیوں نہیں لیتی؟
اگرآپ ٹیلی کام میں نوکری کرتے ہیں تو لیبر لاء کے تحفظ کے تحت صرف آٹھ گھنٹے روزانہ کام کر سکتے ہیں اور اگر کمپنی آپ سے اوور ٹائم کروانا چاہتی ہے تو آپ کو ڈیڑھ یا دوگنا زیادہ پیمنٹ کرکے آپکی خدمات لے سکتی ہے۔ 5 یا 6 بجے کےبعد آپ کی فیملی اور سوشل مصرفیات کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور کمپنی آپکو مجبور نہیں کر سکتی ۔ لیکن پاکستان مٰیں آپ سے آٹھ گھنٹے کی بجائے 10 یا 12 گھنٹے کام لیا جاتا ہے اور اس کیےبعد بھی آپ سکون کا سانس نہیں لے سکتے رات 12 بجے یا صبح 5 بجے کسی وقت بھی فون بج سکتا ہے اگر آپ فون نہیں ریسیو کرتے تو آپ باس کی نظر میں انتہائی سست اور ناکارہ ملازم ہیں جو کمپنی پر بوجھ ہیں اور کسی وقت بھی آپ کو نوکری سے برخاست کیا جا سکتا ہے۔
عجب انصاف کے تقاضے ہیں کام بھی لینا ہے اور آپکو کوئی فائدہ بھی نہیں دینا اور اگر آپ نے سوال کرنے کی جسارت کی تو نوکری سے نکالنے کی دھمکیوں کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اگر آپ نے ایک مہینہ میں 200 گھنٹے بھی اوور ٹائم لگایا ہے تب بھی آپ وہی 20 یا 40 گھنٹے کا معاوضہ لے سکتے ہیں۔ جب آپ فارم فل کرتے ہیں تو اس میں واضح لکھا ہوتا ہے کہ یہ 40 گھنٹے کا فارم فل کرنا کمپنی کو سخت ناگوار ہے۔ بعض پروجیکٹس پر صورتحال مزید گھمبیر ہے یعنی آپ اوور ٹائم تو ڈیڑھ سو گھنٹہ لگائیں گے لیکن صرف دس گھنٹے کی اضافی رقم کے حقدار ٹھہریں گے۔
ملازمین کواس طرح ٹارچر کرنا کہا ں کا قانون ہے۔ بات یہاں تک ہی رہتی تو شاید برداشت کر لی جاتی۔ آپ کو ہر ہفتہ اور اتوار بھی ان کمپنیز کے نام کرنا ہوتا ہے۔ آپ چھٹی والے دن 12 گھنٹے بھی کام کریں آپ صرف 6 گھنٹے کا فارم فل کر سکتے ہیں اور خبردار اگر ٹوٹل گھنٹے 40 سے زیادہ ہوئے آپ کو کچھ نہیں ملنا ان 40 سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ اور کچھ پروجیکٹس پر صورتحال مزید پیچیدہ ہے کہ آپ ہفتہ اتوار کیا عید والے دن بھی کام کریں گے تو اضافی ایک پیسہ بھی نہیں ملنا۔قدم قدم پر ایسے اصول بنائے جاتے ہیں کہ کسی طرح ملازمین کا خون چوسا جائے
آپ ایک سروے کروا لیں ایسی کمپنیزمیں اپر مینجمنٹ میں زیادہ تر ایسے لوگ ہوں گے جو زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہوں گے لیکن وہ بے رحمانہ طریقے سے اپنے ماتحت لوگوں کا خون چوسنا خوب جانتے ہوں گے۔ جوصرف یس سر کہہ سکے جو کمپنی کی پالیسی پر دل و جان سے فدا ہو ،وہ اگر بی ۔اے پاس بھی ہو گا تو ایک انجینیر یا ماسڑڈگری انجینئر پر اسکو فوقیت دی جائے گی۔ یعنی اگر آپ نے بھی ٹیلی کام میں ترقی کرنی ہو تو کسی ڈگری کی ضرورت نہیں بلکہ اپنے اندر ہلاکو خان اور چنگیز خان کی خصلتیں بیدار کریں آپ کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر ہوں گے اور 16 یا 18 سال یونیورسٹی میں دھکے کھانے کے بعد 10، 12 سالہ تجربہ حاصل کرنے کے باوجود بھی وہ آپ کا ہی ماتحت ہو گا۔
اچھے اداروں کا یہ خاصا رہا ہے کہ ہمیشہ تعلیمی قابلیت پر سلیکشن یا پروموشن ہوتی ہے لیکن اس معاملہ میں بھی ٹیلی کام سیکٹر میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ میٹر ک پاس ، ایف اے پاس یا ڈپلومہ ہولڈرز انجینئر اور مینجر کی پوزیشنوں پر براجمان ہیں۔ کیا وطن عزیز میں ایسا کوئی ادارہ نہیں جو ان ٹیلی کام کمپنیز پر کڑی نظر رکھے اور انکو پابند کرے کہ انجینئر کی پوزیشن کے لئے پروفیشنل ڈگری ہولڈر ہی ہائر کیا جائے ۔ (ختم شد)

Facebook Comments

محمد کمیل اسدی
پروفیشن کے لحاظ سے انجنیئر اور ٹیلی کام فیلڈ سے وابستہ ہوں . کچھ لکھنے لکھانے کا شغف تھا اور امید ھے مکالمہ کے پلیٹ فارم پر یہ کوشش جاری رہے گی۔ انشا ء اللہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply