پولیس کیسے عوامی توقعات پہ پورا اتر سکے گی؟

طاہر یاسین طاہر
وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے سماج دشمن عناصر،جرائم پیشہ افراد اور اشتہاریوں کے خلاف کریک ڈاون کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس کو عوام کی توقعات پہ پورا اترنا ہو گا۔وزیر اعلیٰ نے ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں جو سیکیورٹی سے متعلق جائزہ اجلاس تھا ،اس کی صدارت کرتے ہوئے مزید کہا کہ عوام کے جان و مال کا تحفظ ہر حال میں یقینی بنایا جائےاور اس حوالے سے ہر ضروری اقدام اٹھایا جائے۔
یہ امر واقعی ہے کہ پولیس کا رویہ عوام دوست اور مہذب ہونا چاہیے مگر جو ہو رہا ہے وہ اس کے نہ صرف بالکل الٹ ہے بلکہ نہایت بھیا نک بھی ہے۔ہمیں یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ پولیس میں سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال عام سی بات ہے۔ ہر علاقے کے ایم این اے،ایم پی اے کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے حلقےمیں پولیس افسر اس کی مرضی کا لگایا جائے۔یہ بات سماجی حرکیات کے طالب علم جانتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی نسبت ایم کیو ایم اور نون لیگ اپنے ووٹرز اور مخالفین کو دبانے کے لیے پولیس کو استعمال کرتے ہیں۔
یہ حکم نامہ بڑا خوش کن ہے کہ پولیس سماج دشمن اور جرائم پیشہ عناصر و اشتہاریوں کے خلاف کریک ڈاون کرے۔
تسلیم کہ پولیس کارروائی کرتی بھی ہے اور سنگین وارداتوں میں ملوث مجرمان کو گرفتار بھی کرتی ہے،لیکن جس چیز کا رونا ہے وہ پولیس پر سیاسی دباو ہے۔یہ سیاسی دباو ہی کا اثر تھا کہ پنجاب میں چھوٹو گینگ اس قدر طاقتور ہوا کہ اس کے خلاف فوجی آپریشن کرنا پڑا۔ماڈل تھانے بنانے سے یا کسی بڑی واردات کے بعد اس علاقے کے ایس ایچ او،یا ڈی ایس پی یا کسی اور افسر کو معطل کرنے سے نظام بہتر نہیں ہو سکے گا، بلکہ اس حوالے سے پولیس میں بتدریج اصلاحات کا نظام متعارف کرایا جانا ضروری ہے۔اس میں سماجی علوم کے ماہرین سے پندرہ روزہ لیکچرز،اخلاقیات کے اساتذہ سے تہذیب اور سماجی رویوں پر ورکشاپس،رشوت کے سماجی نقصانات اور اسی نوع کے دیگر پروگرامز کو پولیس ٹریننگ کا لازمی حصہ بنا کر اس میں آہستہ آہستہ بہتری لائی جا سکتی ہے۔ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک حکم نامے سے سب ٹھیک ہو جائے۔
اگر واقعی وزیر اعلیٰ صاحب پولیس کا رویہ عوام دوست بنانا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ ہر مجرم اور ظالم کو سزا ملے تو پھر انھیں پوری دیانت کے ساتھ یہ حکم نامہ بھی جاری کرنا ہو گا کہ کوئی بھی نون لیگی ایم پی اے،ایم این اے یا وزیر مشیر،کسی تھانیدار کو کسی مجرم کی سفارش نہیں کرے گا۔یہ حکم نامہ بھی جاری کیا جائے کہ ہر اس پولیس افسر کو تحفظ اور انعامات دیے جائیں گے جو سیاسی دباو کو رد کرتے ہوئے میرٹ کو ترجیح دے گا۔کیا ہم راولپنڈی میں ایک نون لیگی سیاسی رہنما کی سرگردگی میں تھانےمیں توڑ پھوڑ کو بھول جائیں؟چاہیے تو یہ تھا کہ پنجاب حکومت اپنے اس رہنما سے باز پرس کرتے اور اس سے پوچھا جاتا کہ وہ ان ملزمان کو چھڑانے کے لیے حملہ آور کیوں ہوا؟جو ملزمان سر شام ہی ایئر پورٹ روڈ اور مری روڈ پر موٹر سائیکل کے سلنسر نکال کر اگلا ٹائر اٹھا لیتے ہیں اور قانون کا مذاق اڑاتے ہیں؟
یہ بات حقیقی خوشی کا باعث ہو گی کہ پولیس کے نظام میں بہتری آ جائے،مگر جس سیاسی و سماجی نطام کا مدار ہی پٹواریوں،بیورو کریٹس،سیکرٹریوں اور تھانیداروں پر ہو وہاں ایسی انقلابی تبدیلیاں ایک حکم نامے سے نہیں آتیں بلکہ اس کے لیے انا کے سیاسی خول سے نکل کر پالیسی دینا پڑتی ہے۔ کیا کرپٹ پولیس اہلکاروں کو معطل کرنے کے علاوہ بھی کوئی ایسی سزاہوئی کہ اس محکمہ میں اہلکار احتیاط کا دامن تھامے رکھیں؟بے شک کچھ لوگوں کو برخاست بھی کیا گیا ہو گا مگر ہم جس امر کی جانب اشارہ کر رہے ہیں وہ عام آدمی کا اس سسٹم پہ اعتماد ہے۔ یقین مانئے کہ عام غریب آدمی آج بھی پولیس کا نام سن کر کانپ جاتا ہے کہ کیا پتا کسی وڈیرے،کسی سردار،کسی چوھدری یا کسی وزیر مشیر کے پیارے کے کہے پر جھوٹا پرچہ ہی نہ کٹوا دیا جائے۔یہاں پولیس سسٹم کے ساتھ ساتھ ہمارا سیاسی سسٹم بھی اس بد اعتمادی کا ذمہ دار ہے۔ پولیس کی کثیر تعداد جہاں حکمران طبقے کی حفاظت پہ لگی ہوئی ہو، اس معاشرے میں جرائم سر اٹھاتے ہیں۔پولیس میں لا محالہ اچھے اور دیانتدار افسران بھی موجود ہیں مگر ان کی مجبوری یہ ہے کہ انھیں وزیر، مشیر چلنے نہیں دیتے۔پولیس پر عام آدمی کا اعتماد اسی وقت بحال ہو سکے گا جب پولیس کا رویہ اور عمل عوام دوست ہو گا۔ عمل تو بہت دور کی بات ہے ابھی تک تو پولیس کا رویہ ہی عوام دوست نہیں ہے۔ عام آدمی کی تھانہ تک رسائی ہی نہیں اور اگر کسی طرح تھانے کا گیٹ عبور کر لے تو اس کی بات ہی کوئی نہیں سنتا۔ہم امید کرتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ صاحب پولیس کی کارکردگی ،اور اس کا رویہ عوام دوست بنانے کے لیے ضروری اقدامات اٹھائیں گے،اور کوئی دس سالہ پالیسی ترتیب دیں گے جس پہ عمل کر کے محکمہ پولیس میں بتدریج بہتری لائی جا سکے۔ ابھی تک تو تھانوں میں ٹاوٹ سسٹم اور پولیس ایجنٹس ہی لوگوں کی ناک میں دم کیے ہوئے ہیں۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply