کابل،امام بارگاہ میں خود کش دھماکہ

طاہر یاسین طاہر
نواسہ رسول صلی علیہ و آلہ وسلم ،حضرت امام حسین ؑ کے چہلم کے جلوس دنیا بھر میں جاری ہیں۔گذشتہ کچھ دھائیوں سے یہ رواج عام ہوا ہے کہ جلوس عزا،مجالس عزا اور میلاد مصطفیٰ کی محفلوں پر’’فی سبیل اللہ‘‘ خود کش حملے کیے جاتے ہیں۔یہ حملے اس نیت سے کیے جاتے ہیں کہ ان محافل عزا،یا میلاد النبی کے جلوسوں یا محفل میں جانے والے بدعتی ہیں اور ان کا قتل واجب ہے۔اسی طرح اولیا کرام کے مزارات کو بھی اس نیت سےخود کش دھماکوں سے اڑایا جا رہا ہے کہ دہشت گردوں کے نزدیک یہ مزارات شرک کے مراکز ہیں۔افسوس ناک اور شرمندہ کر دینے والی بات یہ بھی ہے کہ ایسی پاکیزہ و ایمان افروز محافل پر خود کش حملے کرنے والے اس یقین کے ساتھ حملہ آور ہوتے ہیں کہ وہ ’’پھٹتے‘‘ ہی جنت میں چلے جائیں گے۔یہ خیال رہے کہ امام حسین علیہ السلام کے عزاداروں، محفل میلاد منانے والوں اور مزارات مقدسہ پر حاضری دینے والوں کو جن ممالک میں سب سے زیادہ ٹارگٹ کیا جاتا ہے وہ ممالک مسلم ممالک ہیں۔کافروں کے ملک میں البتہ ایسے ’’بدعتیوں‘‘ کو مذہبی آزادی ہے۔
یہ امر حیرت افروز ہے کہ یوم عاشورہ و چہلم کے جلوسوں کو ٹارگٹ کر کے پھٹنے والے ایسا سب اسلام کے نام پر کرتے ہیں۔ وہی اسلام جس کے بارے حضرت معین الدین چشتی نے کہا ہے کہ’’ حقا کہ بنائے لا الہٰ ہست حسینؑ‘‘ اب تک کی اطلاعات کے مطابق افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک امام بارگاہ میں جاری مجلس عزا پر خودکش دھماکے کے نتیجے میں 27 افرادجاں بحق اور کئی زخمی ہوگئے ہیں۔زخمیوں میں سے بیشتر کی حالت تشویشناک ہے۔ایک خودکش بمبار نے امام بارگاہ میں عبادت میں موجود افراد کے درمیان خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔دوسری جانب افغان وزارت داخلہ کے ترجمان صدیق الصدیقی نے میڈیا کو بتایا کہ کابل کے مغربی علاقے میں واقع امام بارگاہ باقر العلوم میں دوپہر ساڑھے 12 بجے کے قریب دھماکا ہوا، جس کے حوالے سے تفصیلات جمع کی جارہی ہیں۔پولیس نے علاقے کو سیل کرکے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے، جبکہ ہلاک شدگان اور زخمیوں کو ہسپتال منتقل کردیا گیا۔ایک عینی شاہد علی جان نے اے ایف پی کو بتایا کہ میں اندر موجود تھا اور لوگ وہاں عبادت میں مصروف تھے کہ اچانک میں نے ایک زوردار آواز سنی، جس کے نتیجے میں کھڑکیاں ٹوٹ گئیں، مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہوا ہے، بس میں نے باہر کی جانب دوڑ لگا دی۔ یاد رہے کہ اس سے قبل رواں برس 11 اکتوبر کو بھی کابل میں نامعلوم مسلح افراد نے ایک مزار میں عاشورہ کے حوالے سے جاری مجلس عزا میں فائرنگ کرکے 18 افراد کوجان بحق اور 30 سے زائد کو زخمی کردیا تھا۔بعدازاں اگلے ہی روز (12 اکتوبر کو) افغانستان کے شمالی صوبے بلخ میں بھی ایک مسجد کے قریب بم دھماکا ہوا، جس کے نتیجے میں 15 افرادجاں بحق اور 28 زخمی ہوگئے تھے۔واضح رہے کہ افغانستان میں 1996 سے 2001 کے دوران افغان طالبان نے افغانستان میں اپنی حکومت’’ امارت اسلامیہ ‘‘قائم کی تھی اور وہ ایک مرتبہ پھر ملک کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے جنگ میں مصروف ہیں۔ان کے نزدیک یہ سب ’’بدعت‘‘ اور بدعتیوں کا قتل کار ثواب ہے۔
خوکش دھماکہ کسی مذہبی اجتماع میں ہو یا عام بازار میں،کسی سیکیورٹی فورسز کی گاڑی پہ ہو یا اور کسی جگہ، انتہائی قابل ِمذمت ہے۔پتا نہیں کیوں مجلس عزا اور میلاد کے جلوسوں کو ٹارگٹ کر کے مسلمانوں کے درمیان مسلکی بنیادوں پہ تفریق کو مزید گہرا کیا جا رہا ہے۔یہ امر واقعی ہے کہ ہمارے ہاں مذہبی رویوں میں بھی مقامی ثقافتی رنگ اور قبائلی و عائلی روایات کا گہرا اثر ہے۔ہمیں طالبان اور ان کے فکری رویوں کو ان مقامی قبائلی رویوں کے تحت بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔اس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مجلس عزا ہو یا میلاد النبی کی پاکیزہ محفل۔ تمام مسلمانوں کو اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس میں شامل ہونا چاہیے۔جس طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام جہانوں کے لیے باعث رحمت ہیں اسی طرح امام حسین ؑ بھی تمام عالم کے امام ہیں۔امام حسین ؑ کی محبت کو حضور نے واجب قرار دیا اور فرمایا کہ ’’میں حسین سے ہوں اور حسین مجھ سے ہے‘‘۔حسین کے ذکر کو کم کرنے کی ہر کوشش اور سازش براہ راست نبی کریم کو دکھ پہنچانے کے مترادف ہیں۔ خدا را ،اسلام کے نام پہ ہی اسلام کو بدنام کرنے سے باز رہیں اور اپنے فہم ِاسلام کو پورے عالم انسانیت پر مسط کرنے کی کوشش نہ کریں۔ اسی رویے میں انسانیت کی بقا اور امن کی فضا کا بھرم ہے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply