پاک فوج کی جانب سے آئین کی عملداری کا پیغام

پاک فوج کی جانب سے آئین کی عملداری کا پیغام
طاہر یاسین طاہر
جے آئی ٹی کی تشکیل پہ نون لیگ نے مٹھائیں تقسیم کی تھیں، ازاں بعد جب جے آئی ٹی نے تحقیقات کا آغاز کیا اور وزیر اعظم سمیت اہم شخصیات کو تحقیقات کے لیے بلوایا تو نون لیگ نے سخت برا منایا اور ببانگ دھل جے آئی ٹی، سپریم کورٹ اور فوج پر تنقید کی۔حسین نواز نے جے آئی ٹی کے دو اراکین پہ اعتراض داخل کرایا جسے مسترد کرد یا گیا،اسی طرح حساس اداروں کے دو اراکین کی شمولیت پر بھی اعتراض کیا گیا۔حتیٰ کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ آگئی۔ رپورٹ آنے کے بعد نون لیگ کے رویے میں مزید جارحیت آئی اور اس رپورٹ کو جمہوریت اور نون لیگ کے خلاف سازش کہا جانے لگا۔
ایک سوال یہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ اتنی ضخیم رپورٹ 60 دنوں کے کم وقت میں کیسے لکھی گئی؟ اور اس کے حق میں دلیل یہ دی جاتی ہے کہ یہ رپورٹ پہلے سے خفیہ اداروں نے تیار کر رکھی تھی۔سوشل میڈیا پہ لیگی ورکروں نے یہ ٹرینٖڈ بھی چلایا کہ جمہوریت کا با وردی احتساب قبول نہیں۔اسی طرح جے آئی ٹی کے تمام اراکین کو متعصب، جمہوریت دشمن اور ملکی سالمیت کو خطرے میں ڈالنے والے تک کہا گیا۔یہاں تک کہ گذشتہ سے پیوستہ روز وزیر اعظم پاکستان کے داماد اور مریم نواز کے شوہر نے کہا کہ، اللہ کرے جے آئی ٹی اراکین کے ہاتھ کوڑھے ہو جائیں۔یہ امر یاد رہے کہ جب جب نون لیگ کے لہجے میں تلخی آتی گئی،اور جیسے جیسے انھوں نے لفظ سازش پہ زور دیا، اس کے ساتھ ساتھ فوج کی جانب سے بھی واضح پیغامات آتے رہے۔ جس دن جے آئی ٹی کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی گئی، اسی دن کور کمانڈرز کانفرنس بھی ہوئی اور کور کمانڈرز کانفرنس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ ملکی وقار اور سلامتی کے لیے فوج اپنا کردار ادا کرتی رہے گی۔جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد جب بالخصوص رپورٹ کو سازش،اور اس کی تیاری کے وقت کو تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا تو،فوج کے ترجمان ادارے نے بر ملا اظہار کیا کہ پاک فوج کے دونوں افسران نے جے آئی ٹی میں اپنا کام ایمانداری اور محنت سے کیا ہے۔
یہ ایک واضح پیغام ہے پاک فوج کی جانب سے کہ سیاسی قیادت اداروں کو متنازعہ بنانے سے گریز کرے۔ہم ان ہی سطور میں یہ بات کئی بار لکھ چکے ہیں کہ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کی جانب سے اپنی ہی حکومت کے پانچ انتہائی اہم اور ماتحت اداروں کی ساکھ پر سوالیہ نشان،بجائے خود حکومتی نا اہلی اور کمزوری کی علامت ہے۔اور یہ علامت اداروں کی باہمی کشمکش کا اظہار بھی ہے، جو کسی بھی ملک اور ریاست کے لیے نیک شگون نہیں۔ جے آئی ٹی رپورٹ کو سی پیک وغیرہ کے ساتھ جوڑنا بھی ایک طرح کی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے سوا کچھ بھی نہیں۔دراصل اہم چیز آئین کی عمل داری ،اور قانون کی بالادستی ہے۔پانامہ لیکس سے شریف خاندان بالخصوص جس بند گلی میں داخل ہو چکا ہے، وہاں شور تو مچایا جا سکتا ہے، مگر بچ کے نکلنا محال ہے۔ایسے مرحلے میں سیاسی حکومت کی حکمت عملی یہی محسوس ہوتی ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کو متنازعہ ثابت کرنے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کیا جائے۔
سپریم کورٹ اور فوج کو نون لیگ نے نشانے پہ لیا ہوا ہے۔فوج اس چیز کو دقت نظر سے دیکھ رہی ہے اور یقیناً فوج کے اندر بھی حکومتی رویے پر بحث ضرور ہوتی ہو گی۔یاد رہے کہ گذشتہ روز آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے پریس کانفرنس کے دوران واضح کیا کہ فوج کا جے آئی ٹی سے براہ راست کوئی تعلق نہیں، فوج صرف آئین کی عمل داری چاہتی ہے۔تحقیقاتی رپورٹ پر فیصلہ عدالت نے سنانا ہے،فوج صرف وہ کام کر رہی ہے جو ملک کی سیکیورٹی اور امن و استحکام کے لیے ضروری ہے۔صحافی کے ایک سوال کہ اگر نواز شریف کے خلاف فیصلہ آتا ہے اوروہ عمل در آمد نہیں کرتے تو کیا فوج آئین کے آرٹیکل190 کے تحت سپریم کورٹ کی مدد کرے گی؟ ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ آئین و قانون کی پاسداری ہر شہری کا فرض ہے۔ دریں اثنا اپنی پریس کانفرنس میں ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ افغانستان میں مضبوط ہوتی داعش کا راستہ روکنے کے لیے” راجگال میں آپریشن خیبر فور” شروع کر دیا گیا ہے، انشاللہ یہ آپریشن بھی کامیاب ہو گا۔
بے شک عمران خان اورنون لیگ، دونوں سیاسی سرگرمیوں میں دو انتہائوں پر ہیں۔ کرپشن کسی بھی سماج ،ملک حتی ٰکہ فرد تک کے لیے درست عمل نہیں ہے۔نون لیگ شریف خاندان کا دفاع ضرور کرے، مگر قومی اداروں کی قیمت پر نہیں۔کیونکہ اگر وقت آیا تو پاکستانی عوام اداروں کے ساتھ کھڑے ہوں گے،نہ کہ کسی ایک خاندان کے ساتھ۔اسی طرح عمران خان بھی اس تاثر کو اجاگر کرنے سے گریز کریں، جس سےحکومت خواہ مخواہ کا یہ تصور ابھارنے کی کوشش کرے کہ عمران خان سپریم کورٹ اور فوج کے ساتھ مل کر حکومت گرانا چاہتے ہیں۔بارہا لکھا کہ ہمارے ہاں اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے سازشوں کو تلاش کرنے کا رحجان ایک قومی بیماری کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
پاک فوج دہشت گردی کے خلاف مسلسل جنگ میں ہے، اور اس جنگ میں کامیابیاں سمیٹ رہی ہے۔اس وقت فوج کو نشانے پہ لینا بجائے خود ملک میں انارکی کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔ فوج کا پیغام بڑا واضح ہے، فوج ملک میں آئین و قانون کی عملداری چاہتی ہے۔فوج ملک کی سیکیورٹی اور امن و استحکام کے لیے ہر وہ کام کرے گی جو ضروری ہو گا۔بہتر یہی ہے کہ سیاسی حکومت اداروں کو ٹکراو کی طرف لے جانے کے بجائے درست سیاسی فیصلہ کرے ، ایسا فیصلہ جو کسی شخص یا خاندان کے بجائے ملک و قوم کے مفاد میں ہو۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply