مزاح اور اخلاقیات

السلام علیکم!
وہ میرا عرصہ پچیس سال سے دوست ہے۔۔
میں نے جان بُوجھ کر اُس کی آمد پر کچھ خاص ردعمل نہیں دیا، اُسی کے آفس میں اُسی کی کُرسی پر بیٹھا اُس کی آمد پر کچھ خاص نوٹس نہیں لیتا، بلکہ میں ذرا سا ہلنے کا تکلف بھی گوارہ نہیں کرتا، وہ اندر آتا ہے،میں اپنے اُلٹے ہاتھ میں پکڑے موبائل پر نظریں جمائے جمائے اپنے آپ پر گہری سنجیدگی طاری کرتے ہوئے، اپنا سیدھا ہاتھ اُس کی جانب بڑھا دیتا ہوں، ہاتھ ملا کر وہ سامنے رکھے صوفے پر بیٹھنے چلا جاتا ہے، اپنے گلے میں پہنی ٹائی ڈھیلی کرتے ہوئے مجھے مخاطب کرتا ہے، اور یوں اپنی بات کا آغاز کرتا ہے۔۔

یار اس گرمی نے تو ستیا ناس مار دیا ہے، رات کو گھر پہنچا،! گھر کے یو پی ایس کی بیٹری جواب دے چُکی تھی، امی کی لعن طعن مفت میں سُننی پڑی، رات گرمی اتنی شدید تھی کہ پوچھو مت ، اور بار بار لائٹ جانے کی وجہ سے ایک منٹ سکون سے سُو بھی نہیں سکا۔ کیا بڑے کیا چھوٹے سبھی رات سخت بے آرام رہے، صُبح سویرے لڑکے کو بُلا کر یو پی ایس ٹھیک کروایا تب جان میں جان آئی، اس لیے لیٹ آفس لیٹ پہنچا، وہ اپنے گھر میں بیتی رات کی ساری کارروائی نان سٹاپ سنا چُکا۔۔ تو میں نے کہا ،بہت اچھا کیا گھر کے کام بروقت کرنے چاہیں، مگر یہ بھی یاد رکھو ہمارے ملک میں ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ ایسے ہیں، جو یو پی ایس نام کی چیز سے بھی ناآشنا ہیں، میں اپنی بات مکمل کرتا ہوا یکدم پھر سے سنجیدہ ہو جاتا ہوں، اور جان بُوجھ کر اپنے آپ کو موبائل میں مصروف ظاہر کرتا ہوں، اُس نے اپنے آفس بوائے کو آواز دی ۔۔کہاں ہو بھئی! پانی اور ساتھ قہوہ وغیرہ بھی لاؤ۔

اب میں اُسکی جانب مڑے بغیر ہی اپنی بات شروع کرتا ہوں ۔۔
لفظ (موبائل)کو جان بوجھ کر دھیما سا ادا کرتا ہوں، اور باقی کا جملہ بھر پُور بلند آواز میں مکمل کرتا ہوں یار کل سے لفظ(موبائل ) کو دھیمی آواز سے جو اُس تک نہ پہنچ پائی، طبعیت سخت خراب ہے، اشارات ایسے مل رہے ہیں لگتا ہے جدائی کی گھڑیاں قریب آن پہنچی ہیں۔
اب میں دیکھ رہا تھا جیسے ہی میرا باقی کا پُورا جُملہ اُس نے سُنا ۔۔ایک رنگ اُس کے چہرے پر آیا اور گزر گیا، اور صوفے پر جہاں بیٹھا تھا، وہاں سے تقریباً اُچھلتا ہُوا مُجھ پر نظریں جمائے کھڑا ہوتا چلا گیا، کیا مطلب کیا ہوگیا تمہیں۔۔۔؟
میں جان بُوجھ کر پچھلا جُملہ (موبائل) پھر حذف کرتے ہوئے" یار کل سے طبعیت سخت خراب ہے" زور دیتے ہوئے ادا کرتا ہوں، وہ دوڑتا ہوا میرے پاس پہنچتا ہے، میرا دایاں بازو پکر کر کھینچتا ہوا ۔۔اُٹھو اُٹھو کسی اچھے ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں، بیٹھو باہر چل کر میری گاڑی میں، میں نے اپنے دوسرے ہاتھ میں پکڑا ہوا موبائل اُس کی جانب بڑھا دیا، یہ لو یار کسی اچھے ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ اسے" کل سے اس کی نبضیں ڈوب ڈوب کر اُبھر رہی ہے، جلدی جاؤ ہوسکے تو ہواوے" کا کسی اچھے سے ماڈل میں چینج کر لانا۔

میرا دوست کبھی مجھے اور کبھی میرے موبائل کے طرف حیرت انگیز نظروں سے دیکھتا ہے، بات سمجھ آنے پر پاؤں پٹختا ہوا اپنے آفس کے کچن کی طرف مڑ کر آفس بوائے کو پانی اور قہوہ لانے کے لیے دوبارہ آواز لگاتا ہے، اور میرے مزاح کو سمجھتے ہوئے، زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے مجھے کہتا ہے،
یار میں سیدھا سادہ سا آدمی ہوں، میرا دماغی امتحان مت لیا کرو۔۔۔۔ کسی دن سچ مچ تمہارے ساتھ لڑ پڑوں گا ۔
اتنی دیر میں اپنے پیارے دوست کے لیے آئے ٹھنڈے ٹھار پانی کے گلاس کو اپنے ہونٹوں سے لگا لیتا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دوستو!یہ تُو میں نے اپنے دوست کے ساتھ ایک ہلکا پھلکا سا شائستہ سا مزاح کا واقعہ آپ کے گوش گزار کیا، اب چلتے ہیں اپنے ارگرد روز مرہ پیش آنے والے ایک سنگین مسئلے کی جانب، میں نے اکثر دیکھا گلی محلے میں یا جہاں کہیں دو تین دوست یا دو تین لوگ جن کے ساتھ آپ کی سلام دعا ہے یا نہیں
،کیا بڑی کیا چھوٹی عمر کے لوگ اپنے دوستوں کو دُور سے ہی دیکھ کر اخلاق سے گری انتہائی گندی اور غلیظ گالی کے ساتھ استقبال کرتے ہیں، بات بات پر انتہائی گھٹیا اور ایسی فضول زبان استعمال کرتے ہیں، جس کو سُن کر شیطان بھی شرما جاتا ہوگا۔ خدا را اپنی مجلسوں اور گفتگو کو ایسا پاکیزہ اور بہترین بنائیے کے سُننے والا اگر آپ کی شخصیت کا گرویدہ نہیں بھی ہو تا تو کم ازکم تکلیف اور کوفت بھی نہ محسوس کرے ، ایک دُوسرے کا استقبال السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ کی خوبصورت دُعا سے کیجئے۔اچھا اور شائستہ مزاح کرلینے میں کچھ بھی ہرج نہیں مگر اخلاقی قدروں اور لمٹس کا خیال بہر صورت رکھا جانا ازحد ضروری ہے۔

Facebook Comments

یاسر قریشی
لکھنے لکھانے کا شوق والد سے ورثے میں منتقل ہوا۔ اپنے احساسات و جذبات کو قلم کی نوک سے لفظوں میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply