مذہبی رنگ کی سازشیں

گذشتہ کئی ماہ سے مقبوضہ کشمیر میں ایک نیا شوشہ چھوڑ کرتحریک حق خود ارادیت سے جڑی مزاحمتی تنظیموں کے درمیان دراڑیں ڈالنے کی کوشش شروع کی جارہی ہے۔اس نئے سلسلے میں اگرچہ دونوں جانب سے ایسے لوگ شامل ہیں جو دعویٰ کے اعتبار سے صحیح ہیں لیکن ان کے اس پھیلائے ہوئے نئے شوشے نے اس قدر تباہی مچائی کہ اصل تحریک کا جو کام تھا وہ دھرے کا دھرا رہ گیاا اور آپسی ”تو تو میں میں“کی آوازیں اس قدر بلند ہوئیں کہ عام وخواص سب ہی گوشی بینی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ حالاں کہ تحریک آزادی جموں وکشمیر کی موجودہ لہر جو1989ءسے شروع ہوئی آج تک بہت سارے ایسے مسائل ومشکلات سے دوچار کر دی گئی ہے کہ بارہا ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اس بار اس تحریک مزاحمت کے ایامِ اخیر چل رہے ہیں، لیکن خدائے لم یزل کی مہربانی اور اس تحریک میں محو جدوجہد لوگوں کے خلوصِ نیت کی وجہ سے نہ ہی یہ تحریک آج تک مسائل کا شکار ہوئی اور نہ ہی عتاب ومشکلات دیکھ کر کمزورہوئی،بلکہ دن دوگنی رات چوگنی تحریک کو نئی نئی جلائیں نصیب ہوئیں۔
تاہم اس بار تحریک آزادی کے تئیں پُرامن طور پر جدوجہد کرنے والوں اور دیگر جماعتوں کے درمیان ایک ایسی دیوار کھڑی کرنے کی سازش رچی جا رہی ہے جس سے بظاہر کامیابی پر پانی پھرسکتا ہے۔ کیوں کہ آپسی انتشار ایک ایسا ہتھیار ہے جس کو دشمن ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ اس ہتھیار نے کئی بار تاریخ میں ایسے کارنامے انجام دیے کہ بنے بنائے کام مکمل طور بگڑ گئے۔ دشمنوں کی ہمیشہ یہ سازش رہی ہے کہ مٹھی کو توڑ کر بکھیر دیا جائے تاکہ اس سے حاصل ہونے والی طاقت پاش پاش ہو جائے۔ چنانچہ یہی سلسلہ آج دھرایا جارہا ہے۔ جو لوگ دراڑیں پیدا کرنے کے درپے کھڑے ہوئے ہیں ، وہ اگرچہ اسی تحریک کا حصہ ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ دانستہ یا نادانستہ طور پرجموں وکشمیر کی تحریک آزادی کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں ۔ مقامی تحریک کو گلوبل تحریک سے جوڑ کر ان کا اصل مقصد کیا ہے؟ یہاں محوِ جدوجہد آزادی پسند لوگوں کو تقسیم در تقسیم کرنے کا پروگرام کیوں ترتیب دے رہے ہیں؟حتیٰ کہ دینی تنظیموں کے درمیان بھی اس مسئلے کو لے کر اختلافات کی ہوا دی جا رہی ہے، ان کے درمیان ایسی ایسی باتیں بنائی جارہی ہیں کہ بظاہر محسوس ہو رہا ہے کہ حق اور غیر حق کی لڑائی چل رہی ہو، یہ سب کیوںکرایا جا رہا ہے؟ جھنڈے کی بنیاد پر جھگڑے کو ہوا دی جارہی ہے،آپسی اتحاد کو نعروں کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے! مقصد کو لایعنی موشگافیوں تلے کچلا جارہا ہے اور پیشانی پہ آزادی کی پٹی باندھ کر ملت اسلامیہ کشمیر کی کاز کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔
دینی تنظیموں کے درمیان اسلام اور غیر اسلام کے الفاظ کا سہارا لے کر دشمنوں کی کارستانیاں اس قدر عام ہو چکی ہیں کہ وادی کشمیر میں سوشل میڈیا سے وابستہ نوجوانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ایک دوسرے کے گریباں پھاڑنے میں مست دکھائی دے رہی ہے۔ مسلک اور مکاتب کا نام لئے بغیر اب شریعت اور غیر شریعت جیسے الفاظ استعمال کئے جا رہے ہیں۔ کون حق پر ہے اور کون ناحق پر، اس پر سوشل میڈیا کے مفتی حضرات فتویٰ بازی کر رہے ہیں۔ چونکہ سوشل میڈیا اب کشمیر کے لوگوں اور تحریک آزادی کا ایک بڑا پلیٹ فارم بن چکا ہے، اس کے ذریعے سے آزادی کشمیر کی تحریک کو پوری نوع انسانیت تک پہنچانے کا بڑا کام لیا جا رہا ہے، آج جو کشمیر کی حالت ہے اس کو پوری دنیا کے سامنے رکھنے کا کام بھی اس کے ذریعے سے کیا جا رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں حقوق انسانی کی علمبردار تنظیموں سے لے کر دنیا میں موجود مسلم وغیر مسلم ممالک کا ردعمل بھی ظاہر ہو رہا ہے لیکن وائے افسوس !اب وادی کشمیر میں اسی سوشل میڈیا کو تحریک آزادی کے تئیں کم اور آپسی انتشار پھیلانے کے کام میں زیادہ استعمال کیا جا رہا ہے۔
اس سے نہ صرف مقامی لوگوں میں بدظنی پیدا ہونے کااحتمال ہے بلکہ یہ منفی اور غلط پروپیگنڈہ سوشل میڈیا ہی کے ذریعے پوری دنیا تک پہنچ رہا ہے۔ مقامی تحریک کو گلوبل تحریک کا نام دے کر، اس بات کو سرعام سوشل میڈیا پر موضوع بحث بنا کر تمام دنیا کو تاثر دیا جا رہا ہے کہ جموں وکشمیر کی آزادی پسند تحریک صرف آزادی کشمیر کے لیے نہیں بلکہ یہ ایک عالمی مزاحمتی تحریک ہے جو پوری دنیا میں چل رہی عسکری کارروائیوں کا حصہ ہے۔ آج جب ”گلوبل مزاحمت “ کا نام انسان سنتاہے تو وہ ”دہشت گردی“ کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے،اور اس تصور کو دوسرے ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا جاتا ہے، حتیٰ کہ اسے ”اسلامی دہشت گردی“ کا نام دینے سے بھی گریز نہیں کیا جارہا ہے۔ چنانچہ آج عالمی حوالے سے دنیا میں موجود تحریکیں کام کر رہی ہیں، ان کے پاس اس کے حق میں کیا دلائل ہیں یہ ایک الگ موضوع بحث ہے لیکن جہاں تک جموں وکشمیر کا تعلق ہے یہاں 1947ءسے یہ سلسلہ چلا آرہاہے ، یہاں کے لوگوں کی آزادی چھین کر جب بھارت نے اپنی ہٹ دھرمی دکھائی تو اس کے نتیجے میں آج تک اپنا حق حاصل کرنے کے دوران یہاں کے لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد اسےجان ہو چکی ہے۔ اور یہ قربانیوں کا سلسلہ برابر جاری ہے۔
چنانچہ تب سے لے کر آج تک یہاں چل رہی تحریک آزادی کو دبانے کی بھرپورکوششیں کی گئیں لیکن آج تک وہ ساری کوششیں ناکام ہو گئیں، آج بھی برابر ناکامیوں کا یہ سلسلہ جاری ہے، یہ سب کچھ دیکھ کر سازشی ذہن سے لیس دشمن نے ایک نیا مسئلہ کھڑا کر اکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ جو لوگ آج تک قربان ہوچکے ہیں یا اب اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں وہ حق پر ہیں یا ناحق پر؟ دیکھنے میں آرہا ہے جو لوگ کل تک دشمنوں کی ہاں میں ہاں ملا کر اپنی بقاءکی سوچ کر اس سارے سلسلے کو ہی حرام قرار دے کر چپ سادھے ہوئے تھے آج وہ بھی الگ الگ ناموں سے اس نئے فتنہ کا حصہ بن رہے ہیں۔ جو لوگ ”جمہوریت“ اور” شریعت“ جیسے الفاظ کی تشریح کر رہے ہیں وہ خود اپنی زندگی اسی جمہوریت میں گزار رہے ہیں، بلکہ ان کی پوری اجتماعی زندگی ہی اسی جمہوریت کے ارد گرد چل رہی ہے۔ اسلامی جمہوریت اور لادین جمہوریت جیسے الفاظ چھیڑ کر یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ تحریک میں لادین طریقوں کی کوئی ضرورت نہیں حالاں کہ جسے وہ لادین طریقہ قرار دے رہے ہیں ان کی اجتماعی حیثیت اسی سسٹم کے تحت چل رہی ہے۔
بہر حال جموں وکشمیر کی تحریک آزادی کو بانٹنے اور اس میں دراڑیں پیدا کرنے کی جو دشمن سازشیں کر ارہے ہیں اس کے لیے یہ ہتھیار سم قاتل ہے جس سے اس بات کا خطرہ لاحق ہے کہ آزادی پسند دشمن کو چھوڑ کر آپس میں ہی دشمنی پیدا کرکے لڑنے نہ کھڑے ہو جائیں اور جب یہ صورت حال ہو، تو اس وقت قوم کے ذی حس طبقہ کاخاموشی اختیار کرنا ، دور تماشائی بنے رہنا، تاکہ کوئی شامت نہ آجائے، یہ ایک ایسی سوچ ہے جس سے نہ صرف اس طبقہ خاص کو نقصان کا احتمال ہے بلکہ منجملہ پوری قوم کو اس کا نقصان بھگتنا پڑ سکتا ہے، ایسا نقصان جسے پھر صدیوں تک پُر نہیں کیا جا سکتا۔
دشمن کی سازشیں پرکھنے کی ضرورت ہے، دشمن ،دشمنی کے روپ میں نہیں بلکہ دوست نما دشمنوں کو استعمال کرتے ہوئے دور کھڑا تماشہ دیکھ رہا ہے۔ تحریکوں کو دبانے کا ایک اچھا گُر استعمال کر کے اسے وہ کچھ حاصل ہوتا جا رہا ہے کہ جس کا اسے گمان تک بھی نہیں تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بھارت کے وزیر داخلہ نے بڑے ہی فاخرانہ انداز میں کہا تھا کہ ”وادی میں ایک سال کے اندر اندر حالات بہترہوں گے“۔ اس وقت جب یہ بیان سامنے آیا سب سوچ رہے تھے کہ کس طرح ایک سال کے دوران حالات میں بہتری آئے گی۔ لیکن آج لگ بھگ ایک سال ہونے کے قریب ہے اب محسوس ہو رہا ہے کہ حالات بہتر کرنے کا وہ طریقہ کیا تھا جو بھارت کی مرکزی سرکار کے ذہن میں ہے۔ دشمن سازشیں رچ رہا ہے اور ہم ایک دوسرے کے اوپر الزام تراشی میں مست ہیں، سازش کا شکار ہو کر ایک ایک کر کے کٹے جا رہے ہیں اورہم ہیں کہ کاٹنے والے کی جانب رخ کرنے کے بجائے آپس میں جنگ چھیڑ رہے ہیں۔ اس پر افسوس یہ بھی کہ ذی حس طبقہ خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ اس لحاظ سے بھارت سرکارکی وہ خواہش پوری دکھائی دیتی ہے جس میں انہوں نے حالات کی بہتری کی بات کی تھی۔
یہاں کے لوگ آزادی کے نعرے کو بھول کر آپسی انتشار (Divide)کا شکار ہو جائیں ،بھارت کے لیے اس سے بہتر حالات کیا ہو سکتے ہیں ؟بہر حال اس بات سے سب واقف ہیں کہ کسی قوم کومنتشر کرنا ایک سیاسی اور فوجی حکمت عملی ہوتی ہے جس کے ذریعے سے طاقت کے مراکز کو تقسیم کر کے خود طاقتور رہنے کا سامان کیا جاتا ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت بکھرے ہوئے طاقت کے ماخذ کو اکٹھا ہونے سے روک دیا جاتا ہے، جس سے دشمن خود مستحکم ہو جاتا ہے، اس غیر اخلاقی اصول کو استعمال میں لاکر مختلف واقعات اور مفادات کے ذریعے لوگوں کو منتشر کر کے ان پر کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اس غیر اخلاقی اصول کو جہاں بھی آزمایا گیا وہاں کی زمین اس اصول کی وجہ سے بہت فساد زدہ ہو گئی۔ چنانچہ اس اصول کو سازشی ذہن رکھنے والے سیدھے طریقے سے نہیں آزماتے بلکہ اس کے لیے مختلف جذباتی تدابیر کی جاتی ہیں تاکہ عوام الناس کو اصل حقیقت میں فتنہ محسوس ہو اور فتنے میں حقیقت کا چہرہ نظر آئے۔
جب یہ حالات ہوں تو ذی حس طبقہ جن میں علماءاور قائدین کے علاوہ دینی تنظیموں سے وابستہ ذمہ داران، اور اہل دانش لوگ شامل ہیں، کا حق بنتا ہے کہ وہ اس جانب توجہ کر کے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں، اگر قائدین اور علماءدین، دینی رہنما اور اہل دانش پر ہی خوف طاری ہو جائے تو قوم وملت کا کیا ہو گا۔ لہٰذا ذمہ داروں کا حق بنتا ہے کہ وہ اپنا فریضہ انجام دیں، وہ حق کی جانب رہنمائی کر کے قوم وملت پر یہ واضح کریں کہ ہم کیا ہیں اور کیا نہیں ہیں۔ حق کیا ہے اور ناحق کیا۔ تاہم یہ کام الگ الگ اپنے اپنے پلیٹ فارم کا سہارا لے کر قوم کے سامنے جاکر نہیں کیاجا سکتا بلکہ اس سے دشمن کی سازشوں میں مزید اضافہ ہونے کا خطرہ ہے، اس کے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم کھڑا کر دیا جانا چاہیے جو ایک جگہ جمع ہو کر تمام مسلکی ،مکتبی اور تنظیمی بندشوں سے نکل کر ایک ایسا طریقہ اختیار کرے جو حق بھی ہو اور جس میں دشمن کی سازشوں کا پردہ بھی چاک کیا جاسکے۔ بہر حال یہ بات مسلمہ حقیقت ہے کہ اس کام کے لیے دل گردے والے انسانوں کی ضرورت ہے، کیوں کہ جب ہمت ہو، جب خود پراعتماد ہو، اور سب سے بڑی چیز جب خلوص ہو تو کیا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ اسی خلوص اور ہمت نے آج تک قوم کو دشمن کی سازشوں سے بچایا ہے اور ان شاءاللہ آئندہ بھی اسی ایک چیز کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

ابراہیم جمال بٹ
مقبوضہ جموں وکشمیر سے ایک درد بھری پکار۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply