برصغیر کی آزادی میں فوج کا کردار

تاریخ کی نصابی کتابوں میں یہی پڑھایا جاتا ہے کہ برصغیر کی آزادی ایک خالصتاً سیاسی جدوجہد تھی جس میں کسی فوجی جدوجہد کا کوئی حصہ نہیں تھا۔ حالانکہ برصغیر کی آزادی میں فوجی جدوجہد کا بڑا ہاتھ ہے۔ جنگ آزادی کا تذکرہ کریں تو1857 کی فوجی بغاوت انگریز کمپنی ایسٹ انڈیا کمپنی کے سپاہیوں نے کی تھی جو میرٹھ سے شروع ہوکر پورے برصغیر کی چھائونیوں تک پھیل گئی مگر یہ آخری فوجی بغاوت نہیں تھی۔ پاکستان کے علاقے میں احمد خاں کھرل کی جنگ کو شامل نہ کریں کہ یہ لوگ باقاعدہ فوجی نہیں تھے۔ پہلی جنگ عظیم میں قتل کئے جانے والے ان 47 مسلمان فوجیوں کا ذکر نہ کریں جنہوں نے قاسم منصور کی سرکردگی میں اس وقت برطانوی فوج میں بغاوت کی جب ان کو معلوم ہوا کہ برطانیہ نے ترکی کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے یہ فروری 1915 کا واقعہ ہے
سیالکوٹ کی تاریخ مرتب کرتے وقت اقبال شیدائی کے بارے معلوم ہوا ۔اقبال شیدائی 1918 میں غدر پارٹی میں شامل تھے جس کا مقصد برطانوی افواج کو برصغیر سے نکالنا تھا۔مگر ہم آزاد ہند فوج کے کردار کو کیسے بھول سکتے ہیں۔ لارڈ کلیمنٹ ایٹلی کے جو 1947 میں پاکستان اور انڈیا کی آزادی کے وقت برطانیہ کے وزیر اعظم تھے،نے ایک دفعہ کہا تھا’ہندوستان کو چھوڑ کر جانے کی کئی وجوہات تھیں لیکن ان میں اہم ترین سبھاش چندر بھوس کی ’آزاد ہند فوج‘ اور’جہازیوں کی بغاوت‘ تھی جس نے ہندوستان میں برطانوی سلطنت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں تھیں۔لیکن آج ہماری نوجوان نسل میں سے کتنے لوگ ہیں جو ’آزاد ہند فوج‘اور’جہازیوں کی بغاوت‘ اور ان سے جڑے لوگوں کی جدوجہد سے آشنا ہیں؟
سیالکوٹ کی تاریخ مرتب کرتے ہوئے مجھے آزادی کے ایک اہم کردار جنرل موہن سنگھ (1909-1989) کے بارے معلوم ہوا۔ سیالکوٹ کے ایک نواحی دیہات اگوگی میں ایک کسان خاندان میں پیدا ہوئے ۔ شوہر کی وفات کے بعد ان کی ماں سیالکوٹ کے ایک دوسرے نواحی دیہات بڈیانہ میں منتقل ہوگئیں جہاں موہن سنگھ نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ ہائی سکول کی تعلیم کے بعد 1927 میں انڈین آرمی کی 14 پنجاب رجمنٹ میں شامل ہوگئے۔ ڈیرہ ڈون میں فوجی تربیت حاصل کی دوسری جنگ عظیم میں وہ کپٹن کے رینک میں تھے جب دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی۔ ان کی ڈیوٹی مشرق بعید میں ہوئی۔ وہ ملایا کے محاذ پر تھے جب جاپانیوں نے علاقے پر قبضہ کیا۔ فروری 1942 میں موہن سنگھ نے آزاد ہند فوج کے قیام کا اعلان کیا۔ جو برطانوی راج سے لڑکر برصغیر کو آزاد کروانا چاہتی تھی جس میں برطانوی فوج کے الگ ہوئے 40 ہزار ہندوستانی فوجی شامل تھے۔
موہن سنگھ کو جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر آزاد ہند فوج کا کمانڈر انچیف مقرر کیا گیا۔ جون 1943 میں سبھاش چندر بوس آزاد ہند حکومت کے صدر اور آزاد ہند فوج کے سپریم کمانڈر مقرر ہوئے۔ آزاد ہند کی مرکزی قیادت میں میجر جنرل شاہنواز (روالپنڈی)، کرنل پریم کمار سہگل (لاہور) اور کرنل گور بخش سنگھ ڈھلوں (چھانگا مانگا) شامل تھے۔ اس فوج میں 1200 عورتوں کی ایک رجمنٹ بھی تھی جن میں سے بیشترکا تعلق شہری علاقوں سے تھا۔
برما کے محاذ پر آزاد ہند فوج نے کامیابیاں حاصل کیں آزاد ہند فوج نے 1942 سے 1945 کے دوران برطانیہ کے خلاف لڑ کر ڈیڑھ ہزار میل کا علاقہ آزاد کرایا تھا۔۔ مئی 1945 میں برما کے محاذ پر جوابی حملے میں موہن سنگھ اور ان کے ساتھی برطانیہ کے جنگی قیدی بنا لئے گئے جن پر 1945 کے آخری دنوں میں دہلی کے لال قلعے میں مقدمہ چلایا گیا۔
اسی طرح 18 سے 22 فروری 1946 کو بمبئی میں رائل انڈین نیوی میں ہونے والی جہازیوں کی بغاوت متحدہ ہندوستان کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔جہازیوں نے ہڑتال کی قیادت کے لیے متفقہ طور پر ایک کمیٹی تشکیل دی۔ایم ایس خان (سگنلر، پیٹی آفیسر) اور مدن سنگھ (ٹیلی گرافسٹ) کو بالترتیب صدر اور نائب صدر منتخب کیا گیا۔ان دونوں کا تعلق پنجاب سے تھا۔دیگر کمیٹی ممبران میں بیدی بسنت سنگھ، ایس سی سین گپتا، سکول ماسٹر نواز، اشرف خان، ایبلے گومز اور محمد حسین شامل تھے۔کمیٹی نے جو مطالبات پیش کئے ان میں معاشی سہولتوں کے علاوہ آزاد ہند فوج کے پکڑے جانے والے افراد سمیت تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی، مصر اور انڈونیشیا سے ہندوستانی فوجوں کی واپسی کی مانگ شامل تھی۔20 فروری کو رائل انڈین ائر فورس کے 1200 اہلکار ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ہڑتال پر چلے گئے جن کے ساتھ نیول اکاؤنٹ کے سویلین افراد بھی شامل ہوگئے۔
رائل انڈین ائر فورس نے جہاز اڑانے اور ہڑتالیوں کے بحری جہاز پر بم گرانے سے انکار کر دیا۔ ٹرانسپورٹ یونٹ نے ہڑتالی جہازیوں سے لڑنے کے لیے فوجیوں کو لے جانے سے سے معذرت کرلی۔کراچی، گجرات، کلکتہ، مدراس، وشاکھا پٹنم، احمد آباد، جبل پور، آسام اور دہلی میں بھی موجود جہازیوں اورفوجیوں نے بغاوت کا اعلان کر دیا تھا۔’بغاوت‘ ساحلوں پر موجود 74 بحری جہازوں، 20 بیڑوں اور22 بیرکوں تک پھیل گئی تھی۔کراچی میں بغاوت کو کچلنے کے لیے بھیجے جانے والے بلوچ رجمنٹ کے سپاہیوں نے ہم وطنوں پر گولی چلانے سے انکار کر دیا تو یہ ذمہ داری انگریز فوجیوں کو سونپ دی گئی۔اس کارروائی کے نتیجے میں چھ جہازی مارے گئے اور 30 کے قریب زخمی ہوئے۔اگلے دن کراچی میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی مقامی شاخ کی کال پر ہڑتال کی گئی۔عید گاہ میدان میں دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 30 ہزارکے قریب شہری اکٹھے ہو گئے جن پر پولیس نے فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں 25 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے۔بمبئی میں بھی شہری جہازیوں کی حمایت میں سڑکوں پرنکل آئے۔کراچی کے بعد کلکتہ میں ایک لاکھ مزدوروں نے ہڑتال میں حصہ لیا۔اس وقت کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کانگرس اور مسلم لیگ نے جہازیوں کی حمایت نہیں کی تھی بلکہ انہوں نے ہتھیار ڈالنے پر زوردیا۔
کانگرس نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ جہازیوں نے ’ڈسپلن‘ کی خلاف ورزی کی ہے۔ہندوستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے مخالفانہ روئیے اورمزید جانی نقصان سے بچنے کے لیے جہازیوں نے ہڑتال ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔لیکن آج ہماری تاریخ کی کتابوں میں اس کا کوئی ذکر تک موجود نہیں ہے۔آزادی کے بعد کیپٹن راجہ شاہنواز خان اپنے گاوں نارہ مٹور ضلع راولپنڈی واپس آ گئے بعد میں ناموافق حالات کی وجہ سے بھارت چلے گئے اور بھارتی فوج میں شامل ہوگئے میجر جنرل کے عہدے سے سبک دوش ہو کر کانگریس میں شامل ہو گئے اور مختلف وزارتوں پر فائز رہے۔ شاہ رخ کی والدہ لطیفہ خانم ان درجنوں لوگوں میں شامل تھیں جو ان کے گھر میں پلے بڑھے۔ مشہور اداکار شاہ رخ خان انہی لطیفہ خانم کے بیٹے ہیں اور جنرل شاہ نواز کو اپنا نانا کہتے ہیں
1965کی جنگ کے ایک دیومالائی کردار میجر منور بھی آزاد ہند فوج کے سپاہی تھے۔

Facebook Comments

دائود ظفر ندیم
برداشت اور محبت میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply