شہیدِ جمہوریت حامد کا اپنے ابوکے نام خط

السلام علیکم ابو!
آپ خیریت سے ہیں،مجھے معلوم ہے۔۔اور یہ بھی معلوم ہے کہ آپ کو میری فکر ستاتی ہے،مت کیا کیجئے فکر میری۔۔۔میں یہاں مزے میں ہوں۔۔۔تکلیف میں تو وہ ہیں جن کی لاپرواہی نے مجھے یہاں پہنچا دیا،آپ سے دور۔۔۔اور اقتدار کی ہوس میں سدھ بُدھ کھوئے مجھے شہیدِ جمہوریت کا خطاب بھی دے ڈالا!خیر اللہ بہتر بدلہ دینے والا اور انصاف کرنے والا ہے۔

ابو!آج 14گست ہے۔۔آزادی کا دن،آپ کو یاد ہے نا کچھ روز پہلے ہم نے ہر بار کی طرح جشنِ آزادی کے دن پر گھر اور گلی میں لگانے کے لیے جھنڈیاں اور قمقمے خرید لیے تھے۔۔،اور بڑا سا جھنڈاجس پر آپ نے مہنگا ہونے کے باوجود دکاندار سے ذرا بھی بحث کیے بغیر منہ مانگے دام ادا کر دیے تھے۔۔۔اوربیج جن پر پرچم بنے تھے۔۔۔ ۔۔

ابو!وہ سب چیزیں میری چارپائی کے نیچے میرے کپڑوں والے صندوق میں رکھی ہیں۔۔۔آپ نکال لیجئے گا آج،اماں کو پتا تو ہے،لیکن اماں ابھی مجھ سے ناراض ہوگی کہ۔۔میں اس روزان کے منع کرنے کے باوجود ڈیوائیڈر کے پاس جا کر کیوں کھڑا ہو گیا تھا۔۔نہ میں اماں سے ہاتھ چھڑا کر اپنے لیڈر کو دیکھنے،اسے سراہنے کے لیے وہاں جا کر کھڑا ہوتا،نہ وہ گاڑی مجھے کچلتی,قصور تو میرا ہی تھا۔۔

آخر وہ حاکم وقت کا قافلہ تھا،جسے چند روز پہلے نااہل کر دیا گیا تھا۔۔اور جسے اس نااہلی کی وجہ بھی معلوم نہ تھی۔۔۔وہ تو وجہ جاننے کے لیے ہی سڑکوں پر دربدر پھر رہاتھا۔۔۔ایسے میں اگر ایک بچہ اس کے محافظو ں کی گاڑی کے سامنے آگیا تو۔۔یہ ان کا قصور تو نہ ہوا۔۔۔یہ تو میرا قصور تھا۔میرے لیے تو اتنا ہی کافی ہے کہ مجھے شہیدِ جمہوریت کا خطاب دے دیا گیا ہے۔

ابو!مجھے پتا ہے رات آپ کے آنسوشمار کرتے کرتے نڈھال سی ہو جاتی ہے اور د ن قیامت کا منظر لے کر طلوع ہوتا ہے،ہزاروں خواہشیں جو حسرتیں بن چکی ہیں،آپ کے دامن سے لپٹی پریشان کرتی ہیں،وہ خواب جو آپ نے میرے مستقبل کے بارے میں دیکھ رکھے تھے،اب کبھی نہ شرمندہ تعبیر ہونے کا کلک آپ کو خون کے آنسو رُلاتا ہے،مجھے یاد ہے آپ نے میری پیدائش پر کتنے شکرانے کے نوافل ادا کیے تھے،اور پھر جب آ پ کو صرف بارہ سال بعد اسی بیٹے کا جنازہ پڑھنا پڑا،لحد کے حوالے کرنا پڑا،تو آپ کی حالت مجھ سے چھپی نہ رہ سکی تھی۔۔ مجھے معاف کردیجئے گا ابو،کہ اس وقت آپ کا بیٹا آپ کے گلے لگ کر آپ کو تسلی نہیں دے سکا تھا۔۔کیسے دیتا وہ تو حاکم وقت کے محافظوں کی مستعدی کی نظر ہوچکا تھا۔۔

لیکن ابو! ان لوگوں کو تو یہ معلوم ہی نہ تھا کہ میں آپ کا واحد سہارا ہوں،غریب کا بیٹا کیسے جوان ہوتا ہے۔۔۔کاش حاکم وقت کو یہ معلوم ہوتا،کہ جس کے بیٹے چھوٹی عمر میں ہی اس ہنگام سے نکال کر بیرون ملک بھیج دیے جاتے ہیں،اس خیال سے کہ انہیں کسی آسائش کی کمی نہ رہے،ان کی زندگیوں میں سکون ہو،پاکستان میں جو ایمرجنسی ان حاکموں کی بدولت ہر وقت نافذ رہتی ہے،ان کے بچوں کو ان حالات کا سامنا نہ کرنا پڑے،پھر یہ بچے بڑے ہوکر،اعلیٰ تعلیم یافتہ بن کر واپس آتے ہیں اور ہم پر حکمرانی کرنے لگتے ہیں،انہیں کیا معلوم ٹاٹ پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے والا غریب کا بچہ کیسے موسم اور حالات کی سختی سہتا ہے،فیس ادا کرنے کے لیے گھر میں فاقہ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے، آنکھوں میں سجا سپناکہ بیٹا بڑا ہو کر ڈاکٹر،وکیل یا انجینئر بنے گا،اور پھر اس خاندان کے بھی دن پھر جائیں۔۔۔
لیکن یہ بات شاید حاکم وقت کے لیے اہمیت نہیں رکھتی۔۔۔اسی لیے تو مرنے والے بیٹے کی پانچ،دس لاکھ قیمت ادا کرکے انصاف کا بول بالا کر دیا جاتا ہے۔۔۔

ابو!آج آزادی کا دن ہے،لیکن میں جانتا ہوں،آپ میری یاد کی گرفت میں ہیں۔۔اس احساس کی گرفت میں ہیں کہ آپ کے بڑھاپے کا سہارا اب کون بنے گا۔کس کے چوڑے کاندھے آپ کا ہر بوجھ پریشانی سہار یں گے، آپ کے لیے راحتوں کا ساماں کرنے کے وعدے اب کون ایفا کرے گا۔۔۔آپ کا بیٹا تو آپ کے ساتھ رہا ہی نہیں۔۔۔مگر میں آپ کے ساتھ نہ ہو کر بھی ہمیشہ آپ کے ساتھ ہوں ابو،میری روح بھی ہمیشہ یہ سوچ کر پریشان رہے گی کہ میں حاکم ِ وقت کی مفاد پرستی کی نذر ہوا تھا، میرے ماں باپ کے خواب حاکم ِ وقت کے محافظوں کی گاڑی تلے کچلے گئے۔۔۔جنہوں نے مڑ کر،رُک کر یہ دیکھنا بھی گوارا نہ کیا کہ شاید کسی خواب کی سانس باقی ہو،جسے اس قافلے میں موجود گیارہ جدید ایمبولینسز میں سے کسی ایک میں ہی طبی امداد دے کر بچایا جا سکے۔۔لیکن نہیں!۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

ابو!آپ دل پر بوجھ مت رکھیے گا۔۔۔کہ وقت بہت بڑا مرہم ہوتا ہے،مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان ستر سال بعد بھی لٹیروں سے پاک نہیں ہوسکا ہے۔۔جس طرح تقسیم کے وقت لوٹ مار ہوئی،بے انصافیاں ہوئیں۔۔۔وہ مناظر ان لوگوں کے اجداد کی آنکھوں سے ہوتے ان کے خون میں سرائیت کرگئے اور پھر ان کی نسلوں میں۔۔وہ نسلیں جو اس دھرتی پر ستر سالوں میں حکمران رہیں۔۔یہ لوگ ایسے ہی رہیں گے،ابو اور ہم بھی شاید ایسے ہی رہیں گے۔۔کہ ظالم کی رسی دراز ہے اور مظلوم کو اگلے جہان میں آسانیاں ہیں۔۔ہم یونہی جمہوریت کی نذر ہوتے جائیں گے۔۔۔بھلا کسے نصیب ہوتی ہے ایسی شہادت!
میں خوش قسمت ہوں،جو حاکمِ وقت کی طرف سے اس رتبے پر فائز کر دیا گیا۔۔دعا ہے کہ ان حکمرانوں کے بیٹوں کو بھی اللہ ایسی شہادت نصیب فرمائے، جو جمہوریت کا سر فخر سے بلند کرجائے!
آپ کا بیٹا۔۔حامد!

Facebook Comments

اسما مغل
خیالوں کے سمندر سے چُن کر نکالے گئے یہ کچھ الفاظ ہی میرا تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply