ہمارے ہاں “کمیونٹی سنٹر”کا تصور۔۔صاحبزادہ محمد امانت رسول

ہمارے معاشرے میں سماجی سرگرمیوں اور اخلاقیات و روحانیت کے اداروں کو کمیونٹی سنٹر سے زیادہ ہسپتال اور کلینک خیال کیا جاتا ہے۔ کمیونٹی سنٹر اور ہسپتال میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کمیونٹی سنٹر آپ کی ذہنی، نفسیاتی صحت کا خیال کرتا ہے۔ جہاں آپ کو مل جل کر بیٹھنے کی سہولت دی جاتی ہے۔ آپ مطالعہ کرنا چاہیں تو وہاں لائبریری موجود ہوتی ہے۔ آپ تنہائی کا شکار نہیں ہوتے۔ آپ کو ہم خیال لوگ میسر آتے ہیں۔ وہاں مختلف انڈور گیمز کا انتظام ہو تا ہے۔ آپ کھیلتے اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔ شطرنج، کیرم بورڈ، ٹیبل ٹینس، لانگ ٹینس وغیرہ وغیرہ ایسی بہت سی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ اکھٹے چائے، کافی پینا اور ہنسی مذاق اور گپ شپ کرنا۔ ایسی بہت سی مصروفیات اور سرگرمیوں کا انتظام کیا جاتاہے۔

یہ سب کچھ کمیونٹی سنٹر میں ہوتا ہے۔ دوسری طرف ہسپتال میں انسان تب جاتا ہے۔ جب کوئی مرض ہوتی ہے اور انسان ایمرجنسی  صرف اس کے علاج کے لیے جاتا ہے۔ اگر نفسیاتی اور ذہنی مسائل ہیں تو ان کے لیے کلینک پر جانا ہوتا ہے۔ الغرض ہر مرض کے لیے علیحدہ ماہرین امراض موجود ہوتے ہیں جس کے پاس انسان جاتا ہے۔

ادارے در حقیقت کمیونٹی سنٹرز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ یہاں بیماری لے کر نہیں آتے کہ آپ ہسپتال میں آرہے ہیں بلکہ آپ روزانہ نہیں تو کم از کم اپنی عادت بناتے ہیں کہ آپ اپنی صحت و پرورش اور نشوونما کے لیے آتے رہتے ہیں۔ مجھ سے بہت سے خاندانوں کے افراد رابطہ کر تے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کے حوالے سے بہت پریشان ہوتے ہیں۔ کسی کے بچے کو نشہ کی عادت ہوتی ہے یا وہ شراب پیتا ہے۔ ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ بچے کو یہ عادت چھوٹ جائے اور و ہ نارمل زندگی گزارے۔ وہ میرے پاس صرف ایک مریض کو لاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ امانت صاحب کسی طرح اپنی گفتگو یا مکالمہ سے اسے ایک نیک اور اچھا انسان بنادیں گے اور ہمارا بیٹا بُری عادت ترک کر دے گا۔

ایک سماجی سرگرمی اور روحانیت ادارے میں صرف اس لیے آنا کہ یہاں کسی خاص ’’عادت‘‘ کا علاج ہو جائے گا۔اس کے بعد فائدہ ہوا تو ٹھیک ورنہ مایوس ہوکر چلے جانا ۔یہ اصل میں کمیونٹی سنٹر کو ہسپتال سمجھنے کی سوچ ہے۔ جب کہ معاملہ یہ ہے کہ اگر آپ اپنے آپ کو یا اپنی او لاد کو خرابیوں سے دور رکھنا چاہتے ہیں تو پھر صحت مند اور  سماجی و علمی سرگرمیوں کو اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنائیں۔ ادارے میں آپ کے لیے پروگرامز منعقد کیے جاتے ہیں۔ لائبریری ہوتی ہے۔ جہاں ہزاروں کتب دستیاب ہوتی ہیں۔ مختلف کورسز کا اہتمام ہوتا ہے۔ کانفرنس، سیمینارز، سمپوزیم کا انعقاد ہوتا ہے۔ مل بیٹھنے کا ماحول ہوتا ہے۔ صحت مند مکالمہ کا رواج ہوتا ہے۔ چائے، کافی دیگر لوازمات بھی پیش کیے جاتے ہیں۔

ایسے مقامات کو صرف ایک ہسپتال یا کلینک کی طرح خیال کرنا، یہ نعمت کی نا قدری کے مترادف ہے۔ تمام بیماریوں اور برائیوں سے بچنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ ایسے مقامات پہ آئیں ، بیٹھیں، سیکھیں، وقت گزاریں جہاں صرف آپ کا کتھار سس نہ ہو بلکہ آپ یہاں سے سیکھ کر اٹھیں۔

میں اس حوالے سے دو مثالیں دوں گا۔ ایک صاحب اپنے بیٹے کو مجھ سے ملوانے آئے ان کا بیٹا نشے کا عادی تھا۔ انہوں نے بڑی محنت سے نشہ چھوڑوا دیا لیکن وہ اب شراب پینے اور دوستوں کی کمپنی میں بیٹھ کر پینا چا ہتاتھا۔ میں اس نو جوان کے منہ سے شراب کی چاہت اور پینے کی ضد کو سن کر اس نتیجے پہ پہنچا کہ اسے وقت کی ضرورت ہے تاکہ وہ صرف شراب کی حرمت ہی کو نہ جانے بلکہ Convinced بھی ہو تب ہی شراب سے دوری اختیار کرے گا۔ اگر ایک شخص ایسے گناہ کا مرتکب ہوتا ہے جس کی حرمت اور اس کی شدت سے لاعلم ہے تو پہلا قدم اس کے لیے یہ ہے کہ اسے اس کے متعلق جانکاری دی جائے اور وہ دل سے اُسے تسلیم کرے۔

دوسرا کیس ’’ہم جنس پرستی‘‘ کا تھا کہ نوجوان اپنے اندر اس کا رجحان پاتا ہے۔ یہ کیس بھی بالکل ایسا تھا جیسا پہلا کیس تھا۔ معاملہ یہ ہے کہ ایسے کیسز کے لیے ادارہ ہسپتال کا کردار ادا نہیں کرسکتا کہ ادارہ کسی دوائی دارو کے ذریعے علاج کردے اور مریض فوراً شفایاب ہو جائے اس کا طریقہ یہی ہے کہ نوجوان آئیں، بیٹھیں ماحول کا حصہ بنیں اور سیکھیں۔۔

ہمارے ساتھ وقت گزاریں، نماز کا وقت ہوگا، ہمارے ساتھ نماز پڑھیں گے۔ کلاس ہوگی تو کلاس میں بیٹھیں گے۔ اکٹھے بیٹھ کر گپ شپ کریں گے۔ یہ ماحول اور Environment اُن میں  تبدیلی لائے گا جیسے دوستوں کی کمپنی نے انہیں ڈرگ و شراب کا عادی کیا۔ اسی طرح یہ ماحول انہیں ان عادات سے نجات بھی  دلوائے گا۔ بشرطیکہ وہ ہمارے پاس آئیں اور ہمارے ماحول کا حصہ بنیں۔ جو نوجوان ہم جنس پرستی کا شکار ہوا۔ وہ بھی اس وجہ سے کہ اسے کمپنی ایسے دوستوں کی ملی۔ یہ Urge اور خواہش اس کے اندر تھی تو اس کا احساس اسے ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرنے سے ہوا کہ میرے اندر ایسا رجحان ہے۔ اگر یہ نفسیاتی مسئلہ ہے تو اسے نفسیاتی طریقے سے حل کیا جائے ورنہ اسے اس کا علم دیا جائے گا لیکن Convinced اُس وقت ہو گا جب وہ کسی ایسے ماحول میں بیٹھے گا۔ جہاں اسے بتایا جائے کہ یہ کیسا فعل ہے؟ اسے اس بارے ہر پہلو سے آگاہ کیا جائے گا۔ یہ سب کچھ اس وقت ہوسکتا ہے جب وہ کسی ادارے میں اپنے ماضی کے ماحول کے برعکس وقت گزارے گا۔ جو لوگ آئے اور ماحول کو بدلا انہیں واقعی اپنے آپ کو بدلنے کا موقع ملا۔

Advertisements
julia rana solicitors

صوفیاء کرام کی صحبت و مجلس کا ماحول بھی ایسا تھا کہ لوگ ان کے پاس بیٹھتے تھے۔ ان کے ہاں چھوٹا بڑا کوئی نہیں تھا۔ عالم و جاہل، نیک و بد کی تفریق نہیں ہوئی تھی، وہ مل بیٹھتے اور ایک دوسرے کے ساتھ دُکھ سکھ بانٹتے، ایک دوسرے کے دوست ہوتے تھے۔ معاشرے میں بڑھتی بے چینی، اضطراب، بے راہ روی اور مصنوعی تسکین و سکون کے ذرائع نے ایک بار پھر ہمیں اس طرف متوجہ کیا ہے کہ ہمیں اپنے ادارے اس طرز پہ قائم کر نے چاہئیں کہ لوگ وہاں آکر دین و روحانیت حاصل کریں۔ ادارے کا ماحول انہیں مختلف محسوس ہو کہ وہ صرف آنا ہی نہیں بلکہ وہاں وقت گزارنا پسند کریں۔ یہ ادارے نفرت، تعصب، تقسیم اور تفریق سے پاک ہوں۔ جہاں محبت کے پھول مہکیں، انسانیت کے پرندے چہکیں، جہاں لوگوں کی نفسیاتی اور اخلاقی تربیت ہو۔ وہ جب ادارے سے باہر جائیں ان کا رویہ نارمل اور تعمیری ہو، وہ لوگوں میں بیٹھنا پسند کریں۔ ہر اس بات سے بچیں جس سے دوری اور فرق پیدا ہو۔ اگر آج ہم یہ کام کرلیں تو آئندہ نسل ایک نارمل اور خو بصورت ماحول میں پروان چڑھے گی۔

Facebook Comments

صاحبزادہ امانت رسول
مصنف،کالم نگار، مدیراعلیٰ ماہنامہ روحِ بلند ، سربراہ ادارہ فکرِ جدید

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply