ٹائم کا سفر۔۔محمد شاہزیب صدیقی

ٹائم ٹریول سائنس کے دقیق اور پیچیدہ ترین موضوعات میں سے ایک ہے… یہی وجہ ہے کہ اس پر بات کرتے ہوئے عوام الناس کئی پہلوؤں کو نظر انداز کردیتے ہیں نتیجتاً اس کو بہت آسان سا مظہر سمجھنے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں… زمانہ قدیم میں وقت میں سفر کو ایک خواب کی سی حیثیت حاصل تھی لیکن پھر نظریہ اضافت کے ذریعے اس کو حقیقی معنوں میں ہمیں سمجھنے کا موقع ملا…
نظریہ اضافت نے ٹائم ڈائلیشن اور گریوٹیشنل ٹائم ڈائلیشن کے ذریعے ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور یہ حقیقت آشکار کی کہ جس وقت کو ہم ایک illusion سمجھتے تھے وہ نہ صرف ہمارے ساتھ جُڑا ہوا ہے اور بلکہ relative بھی ہے، یعنی ہر شے کے لیے اس کی رفتار مختلف ہے… مزید گہرائی میں پہنچ کر یہ پتہ چلا کہ وقت (زماں) ہمارے سپیس (مکاں) سے بہت گہرے طریقے سے connected ہے… اگر ہم سپیس میں چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں تو اس سے وقت میں بھی چھیڑ چھاڑ ہوجاتی ہے، اسی خاطر اکثر ہم کہتے ہیں کہ ہماری کائنات زمان و مکاں کے جالوں سے ملکر بنی ہوئی ہے… سپیس میں چھیڑ چھاڑ سے وقت پر اثر پڑنے کا مظاہرہ ہم نے دیکھا ہے جب زیادہ کشش ثقل کے حامل اجرام فلکی کے نزدیک وقت کی رفتار سست پڑ جاتی ہے… یہ فرق زمین پر بھی موجود ہوتا ہے، ایک عمارت کے گراؤنڈ فلور پر کھڑے شخص کے لیے وقت کی رفتار سست ہوگی جبکہ دسویں منزل پر موجود شخص کے وقت کی رفتار تیز ہوگی، اگرچہ یہ نینو سیکنڈز کا فرق ہے مگر بہرحال یہ فرق موجود رہتا ہے… حال ہی میں کچھ تجربات کے ذریعے پہاڑ کی اونچائی پر اور زمین کی سطح پر رکھی ایٹامک کلاک کے وقت میں بھی فرق نوٹ کیا گیا… گریوٹی کی وجہ سے وقت کا سست ہوجانا Gravitational Time Dilation کہلاتا ہے…
وقت میں سفر کی دوسری قسم جو تجربات سے ثابت شدہ ہے اسے ٹائم ڈائلیشن کہتے ہیں…. اس قسم کے دوران ہم کسی بھی شے کو روشنی کی رفتار کے 99 فیصد رفتار تک accelerate کرتے ہیں جس وجہ سے اس شے کے لیے وقت کی رفتار سست پڑ جاتی ہے… لیکن یہ مظہر اب تک ہم micro level پر ہی دیکھ پائے ہیں Macro level پر چونکہ اشیاء کا روشنی کی رفتار تک accelerate کرنا مشکل ہوتا ہے لہٰذا Macro level پر اس کے تجربات نہیں کیے جاسکے…. مائیکرو لیول پر اگر دیکھا جائے تو میوآن نامی ایک ذرہ ہے جو سولر ریڈیشنز کے باعث زمین سے دس کلومیٹر اونچائی پر بنتا ہے، اس ذرے کی زندگی صرف 2 مائیکرو سیکنڈز ہوتی ہے، جس وجہ سے اصولاً یہ ذرہ آدھا کلومیٹر سے زیادہ سفر نہیں کرسکتا، مگر سائنسدان اس وقت چونک اٹھے جب یہ ذرات ہمیں زمین کی سطح پر ملے، تحقیقات سے اندازہ ہوا کہ یہ ذرہ زمین کے فضائی کُرے میں بننے کے بعد روشنی کی رفتار کے 98 فیصد رفتار سے زمین کی سطح کی جانب move کرتا ہے، جس وجہ سے ٹائم ڈائلیشن وقوع پذیر ہوتا ہے، یعنی اس ذرے کے لیے وقت کی رفتار سست ہوجاتی ہے، گویا جہاں اس نے آدھا کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے decay ہوجانا تھا وہیں اس کی زندگی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ یہ دس کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے زمین کی سطح پر پہنچ جاتا ہے… ذرات کے لیے وقت کے سست ہوجانے کے مظہر ہمیں سرن لیب میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں، بلکہ تحقیقات یہاں تک بتاتی ہیں کہ عالمی خلائی اسٹیشن میں 6 ماہ گزار کر واپس آنے والے خلاء بازوں کی عمر 5 ملی سیکنڈز کم ہوجاتی ہے کیونکہ وہاں 8 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے move کرنے کی وجہ سے ان خلاء بازوں کے لیے وقت کی رفتار سست ہوجاتی ہے، اسی خاطر زمین کے گرد چکر لگاتی سیٹلائیٹس کا وقت ہمیں روزانہ زمین کے حساب سے ٹھیک کرنا پڑتا ہے… بہرحال وقت میں سفر کی یہ قسم ٹائم ڈائلیشن کہلاتی ہے… یہ دونوں اقسام ہمیں مستقبل میں سفر کرنے کے متعلق بتاتے ہیں، اس کے بعد یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ماضی میں سفر کرنا ممکن ہے؟ اسٹیفن ہاکنگ کے مطابق ماضی میں سفر کرنا نہایت پیچیدگیوں کا حامل ہے، یہ مستقبل میں سفر کرنے جیسا سمپل نہیں ہے… شروع میں مختلف وجوہات کی بناء پر یہ سوچا جاتا تھا کہ ماضی میں سفر ممکن نہیں ہے،مگر ماضی میں سفر کرنے کے متعلق مختلف طریقے ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی، جن میں ٹرانسفریبل ورم ہول، ملٹی ورس وغیرہ قابل ذکر ہیں بلکہ کوانٹم سطح پر ایک تجربہ جسے Delayed Choice Quantum Eraser Experiment کہا جاتا ہے، اس تجربے کے دوران فوٹانز کو سائنسدانوں نے ماضی میں جاکر اپنی شکل تبدیل کرتے بھی دیکھا ہے، اس تجربے کے باعث ہمیں شک گزرتا ہے کہ ماضی میں سفر ممکن ہوسکتا ہے…. ان تمام مفروضات اور ٹائم ٹریول کے متعلق حالیہ ویڈیو میں تفصیلی بات کی گئی ہے، جسے آپ مندرجہ ذیل لنک پر دیکھ سکتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply