ہم جنس پرستی اور معاشرہ۔۔۔صفدر جعفری

ہم جنس پرستی ان موضوعات میں سے ایک ہے جن پر عموما ًًً گفتگو کرنا بھی نا مناسب سمجھا جاتا ہے اور اگر کوئی اس ضمن میں بات کرے تو اسے بھی سوالیہ نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا جاتا ہے۔ میری ناقص رائے یہ ہے کہ ہم جنس پرستی بھی دیگر بہت سی معاشرتی اور اخلاقی برائیوں میں سے ایک ہے جس پر سنجیدہ مکالمہ کی ضرورت ہے تاکہ اس عمل میں مبتلا افراد کی ذہنی گتھیوں کو سلجھایا جا سکے۔ مکالمہ اس اعتبار سے لائق تعریف ہے کہ اس موضوع پر گفتگو کا آغاز ہوا اور امید ہے کہ  اس کے بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔

البتہ جو بات افسوسناک ہے وہ یہ کہ اب تک دو مضامین اس موضوع پر نظر  سے گذرے جو مکالمہ پر شائع ہوئے لیکن دونوں میں ہی بجائے اس اہم اور سنگین مسئلے پر بحث کرنے کے یہ ثابت کیا گیا کہ اس عمل میں مبتلا افراد کو ایڈز ہو سکتا ہے یا نہیں اور ہو سکتا ہے تو اس پر گولیاں کتنی کھانی پڑیں گی۔ اس قبیل کی تحریریں ہماری کسی سماجی اور اخلاقی برائی سے فقط لاپرواہی ہی نہیں بلکہ غیر سنجیدگی اور فکری کمزوری کو بھی ظاہر کرتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں پروٹیکشن استعمال کرنے کے مشوروں اور گولیوں کی تعداد اور ان پر خرچ کی گئی رقم سے ڈرانے کے علاوہ بھی بہت کچھ سوچنے سمجھنے اور بیان کرنے کی ضرورت ہے۔

ایک نقطہ جو بار بار ایسے افعال کے بارے میں پیش کیا جاتا ہے کہ یہ فطری میلان ہے اور اس عمل کو اسی تناظر میں دیکھا جائے تو گزارش یہ ہے کہ کیا پھر تو یہ سوال ہر اخلاقی، سماجی یادینوی برائی کے لیے اٹھایا جائے گا۔ آج آپ ہم جنس پرستوں کے لیے جس طریقے سے  فطری میلان کا سہارہ لے رہے ہیں کل کو کوئی ریپسٹ اٹھ کر کھڑا ہو اور کہے کہ میرا فطری میلان ہے زبردستی اپنی خواہشات کو پورا کرنا تو کیا آپ پھر بھی یہی تاویلات بیان فرمائیں گے ؟

یہاں یہ واضح کر دوں کہ میں ہرگز اس بات کا انکار نہیں کر رہا کہ ہم جنس پرستی کی ایک وجہ طبعی میلان ہو سکتی ہے۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر ایسا طبعی میلان کے سبب ہے تب بھی یہ عذر نہیں بن سکتا بلکہ ایسی صورت میں زیادہ سے زیادہ اسے نفسیاتی بیماری  سمجھا جائے گاجس کا علاج کیا جانا چاہیے الٹی سیدھی تاویلات کے ذریعے دفاع نہیں ۔ جہاں تک بات اسے نیچرل ذہنی رحجان کہنے کی ہے تو معلوم نہیں یہ اختراع کیسے ایجاد کی گئی۔ طبعی میلان ہونا اور فطری طبعی میلان ہونا دو الگ باتیں ہیں۔ میں اپنی بات کی وضاحت اس طرح کرنا چاہوں گا کہ جیسے دو مخالف جنسوں کا ایک دوسرے کی جانب متوجہ ہونا طبعی  اور عین فطری رحجان ہے لیکن دو مخالف جنس کے افراد اگر نسبی رشتوں میں بندھے ہوں اور ایک دوسرے کی جانب متوجہ ہوں تو اس رحجان کو طبعی تو شاید کہا جا سکے فطری ہرگز قرار نہیں دیا جا سکتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک اور شبہ جو ایجاد کیا جاتا ہے وہ یہ کہ جناب ہم جنس پرستی کی مخالفت میں مذہبی فکر سے متاثر نظریات قابل قبول نہیں۔ بھائی آپ سائنسی اور طبیعی نظریات کو بیچ میں لا کر یکطرفہ فیصلہ سنائیں تو پھر وہ کس دلیل کی بنا پر قابل قبول ہو گا؟ مذاہب نے ہمیشہ ذہن انسانی کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے اور ایسی نفسیاتی اور نفسانی بیماریوں کا علاج بھی سب سے بہتر مذہب ہی تجویز کر سکتا ہے خواہ آپ کو پسند ہو یا نا پسند۔اگر آپ خالق کائنات کو حکیم و دانا سمجھتے ہیں تو یقینا ًًً اس کا فیصلہ آنے کے بعد کسی بحث و گفتگو کی گنجائش نہیں بچتی لیکن اگر آپ خدا کا انکار کریں تو پھر خالصتا ًًً سماجی اور اخلاقی نقطہ نگاہ سے بھی اس  قبیح فعل پر گفتگو لی جا سکتی ہے اور امید ہے کہ مکالمہ اسے بھی اپنے دامن میں جگہ دے گا۔ فی الوقت تو یہی دعا کر سکتا ہوں  کہ خدا ہمارے جوانوں کو اس بیماری سے ہمیشہ کے لیے دور رکھے۔

Facebook Comments

صفدر جعفری
خود اپنی تلاش میں سرگرداں۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply