ترکی میں ریپ کا مجوزہ قانون اور اس کے مضمرات

طاہر یا سین طاہر
انسا ن فطرتاً غلبہ پسند ہے، وہ چاہتا ہے کہ دوسروں کو اپنے تسلط میں رکھے،مردوں کے اس معاشرے میں اسی نفسیات کی تسکین کے لیے مرد زیادہ ’’متحرک‘‘ہے۔اقتدار کا غلبہ،دولت کے ذریعے معاشرتی قدروں پہ غلبہ،غرض کئی مثالیں اور جہتیں موجود ہیں ۔مردانہ معاشرے کی نفسیاتی برتری کا احساس اس وقت تک تسکین نہیں پاتا جب تک عورتوں کو اپنے زیر اثر لانے کے سارے ہنر آزما نہ لیے جائیں۔ترک معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، خوف زدہ معاشرے کبھی بھی مستحکم سیاسی حالات کا سامنا نہیں کر پاتے۔ اقتدار کی خاطر قتل و غارت گری،بنیادی انسانی حقوق کی پامالی اور سیاسی و فکری مخالفین پر عرصہ حیات تنگ کرنے کو روا اور جائز سمجھنے والے معاشرے کے ’’بادشاہ ‘‘کو کس طرح دلیر اور دلبر کہا جا سکتا ہے؟
مجھے اس امر میں کلام نہیں کہ پاکستان سے ترک اساتذہ کی طیب اردغان کی خوشنودی کی خاطر ملک بدری کو قصیدہ نویس ملا عبدالسلام ضعیف کی اسلام آباد میں گرفتاری سے تشبیہ دیں گے۔ یہ مگر عقیدت و تعصب ہے جو درست تجزیہ کی راہ میں حائل ہو جاتا ہے۔یہ مسلکی و معاشی مفادات ہیں جو حرف نویس کو فکری تشدد پہ اکساتے ہیں، ورنہ ملا عبد السلام ضعیف اور پا ترک سکول کے اساتذہ کا موازنہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟ دو بالکل الگ فکری رویے،دو انتہائوں سے ایک جیسا سکول کیوں؟ملا ضعیف انتہا پسند طالبان کے سفیر تھے جبکہ پاک ترک سکول کے اساتذہ انتہا پسندی کے خاتمے کا درس دیتے ہیں۔ گولن کی معلوم تعلیمات یہی ہیں۔ہمیں مگر ان رویوں پر تشویش ہے جو ردعمل میں مذہب اور اسلام کے نام پر اختیار کیے جاتے ہیں۔آئینی،قانونی اور اخلاقی و معاشرتی رویوں کے اعتبار سے ’’ریپ‘‘ جرم ہے۔کسی کی آبرو کو بزور تار تار کرنا،انسان کی خود دادری کا قتل ایک نا قابل معافی جرم ہے۔
اس جرم کو صر ف اس بنا پر کیسے معاف کیا جا سکتا ہے کہ ریپ کرنے والا اگر کم سن لڑکی سے شادی کرنے کو تیار ہو جائے تو وہ قانونی و اسلامی سزا سے بچ جائے گا؟ریپ ایک جرم ہے،کیا ایسے جرم کی سزا’’شادی‘‘ کی شکل میں دے کر شادی کو ایک معاشرتی جرم کے طور تسلیم کرایا جا رہا ہے؟یاد رہے کہ ترکی میں ہزاروں افراد اس مجوزہ قانون کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جس میں تجویز کیا گیا ہے کہ اگر کم سن لڑکی کا ریپ کرنے والا شخص اس لڑکی سے شادی کر لیتا ہے تو وہ سزا سے بچ جائے گا۔حکومت کا اصرار ہے کہ اس قانون سازی کا مقصد بچوں کی شادی سے متعلق جاری روایت سے نمٹنا ہے جبکہ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے بچوں کے ریپ کو قانونی حیثیت مل جائے گی۔استنبول میں ہزاروں مظاہرین نے احتجاج کے دوران تالیاں بجاتے ہوئے نعرے لگائے کہ ’ہم خاموش نہیں رہیں گے، ہم اسے تسلیم نہیں کریں گے۔ اس بل کو فوری طور پر واپس لیا جائے۔‘ازمیر اور تربزن سمیت دیگر شہروں میں بھی مظاہرے کیے گئے۔اس قانون کے تحت اس شخص کو رہا کر دیا جائے گا جو کسی کم سن لڑکی کو بنا کسی جبر، دھمکی کے ریپ کرتا ہے تاہم وہ بعد ازاں اس سے شادی کر لیتا ہے۔
ترکی کے وزیرِ اعظم نے اے کی پی کے ارکان سے کہا ہے کہ حزبِ اختلاف کے ساتھ اس بل کے حوالے سے مذاکرات کریں۔جمعرات کو اس بل پر پارلیمان نے اولین منظوری دے دی ہے جبکہ آئندہ منگل کو اس کے حوالے سے دوسری بحث کی جائے گی۔اقوامِ متحدہ میں بچوں کے ادارے نے اس بل پر گہرے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ادارے کے ترجمان کرسٹوف بولیریس کا کہنا تھا ’بچوں کے خلاف ایسے قابلِ نفرت تشدد جو جرم بھی ہیں انھیں ہر لحاظ سے قابلِ سزا ہونا چاہیے۔
یہ بات بڑی حیرت ناک ہے کہ ریپ بغیر کسی دھمکی اور جبر کے کیسے ہو گا؟ بغیر کسی دھمکی اور جبر کے کسی مرد کا کسی کم سن لڑکی سے جنسی تعلق ریپ نہیں رضا مندی کہلائے گا۔حکومتیں جب سیاسی و معاشی حوالے سے عدم استحکام کا شکار ہو جایا کرتی ہیں تو پھر ان سے ایسی غلطیوں کا ہونا تاریخی معمول ہے۔ریپ ایک انتہائی جنسی رویہ ہے،بسا اوقات یہ ’’ٹارگٹ‘‘ کو سبق سکھانے کے لیے بھی اختیار کیا جاتا ہے۔ اس میں کسی بھی طرح رضا مندی کو کوئی پہلو نہیں نکلتا ،جب اسے ریپ کا نام دے دیا جاتا ہے۔ اگر بالفرض لڑکی سے ریپ کرنے والا لڑکی سے شادی کر ہی لیتا ہے تو کیا یہ رشتہ تمام عمر نبھ سکے گا؟لڑکی مرتے دم تک لڑکے سےنفرت کرتی رہے گی،اس سے مزید عائلی الجھنیں پیدا ہوں گی۔عالم انسانیت کے عدل پسندوں کو ترکی میں اس مجوزہ قانون کے خلاف آواز حق بلند کرنا چاہیے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply