• صفحہ اول
  • /
  • خبریں
  • /
  • کیا یہ ریاست کا اتنا لاڈلا تھا کہ اسے اتنی تنخواہ دی گئی’

کیا یہ ریاست کا اتنا لاڈلا تھا کہ اسے اتنی تنخواہ دی گئی’

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر ٹیکسوں کے معاملے کی سماعت کررہا ہے۔سماعت کے آغاز پر پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ایل این جی اور پیٹرول کی قیمتیں زیادہ کنٹرول نہیں کی جا سکتیں، تاہم کچھ اقدامات کیے جا سکتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ اقدامات حکومت کو ہی کرنے ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا پی ایس او کے منیجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) 37 لاکھ تنخواہ کس مد میں لے رہے ہیں؟ جس پر وکیل نے بتایا ایم ڈی کی تقرری وفاقی حکومت کرتی ہے، اس پر پی ایس او بورڈ کا کوئی کنڑول نہیں۔وکیل پی ایس او نے کہا کہ ایم ڈی عمران الحق کا باضابطہ طریقے سے تقرر کیا گیا اور تنخواہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق دی گئی جس پر چیف جسٹس نے کہا حکومت بتائے کس بنیاد پر ایم ڈی پی ایس او کو 37 لاکھ تنخواہ دی گئی، کوئی اور بندہ پاکستان میں اتنی تنخواہ نہیں لے رہا ہوگا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئے کہ کیا ایم ڈی پی ایس او ریاست کا اتنا لاڈلا تھا کہ اسے اتنی تنخواہ دی گئی، ہم نے ایم ڈی کو بلایا تھا کیا وہ آئے ہیں؟وکیل پی ایس او نے جواب دیا ایم ڈی نہیں آئے نوٹس ہی نہیں تھا۔اٹارنی جنرل خالد جاوید نے عدالت کو بتایا کہ یہ اینگرو اور ایل این جی سیکٹر میں کام کرتے رہے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا ایم ڈی پی ایس او کی تقرری کا معاملہ نیب کو بھجوا دیتے ہیں اور نیب ان کی تنخواہ اور مراعات کی تحقیقات کرے۔چیف جسٹس نے نیب کو کہا کہ 4 ہفتےمیں تحقیقات مکمل کریں اورعدالت کوآگاہ کریں۔اٹارنی جنرل نے ایل این جی درآمد کے معاملے پر ان کیمرہ بریفنگ کی استدعا کی اور کہا کہ معاملہ حساس نوعیت کا ہے عدالت کو ان کیمرا بہت سی معلومات بتانا چاہتا ہوں جس پر عدالت نے اٹارنی جنرل کی استدعا منظور کرلی۔اتارنی جنرل نے کہا پی ایس او میں تعیناتیاں سابقہ حکومت نے کی، تعیناتی اقربا پروری پر ہوئی۔ قومی خزانے کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ ایل این جی کی درآمدات سے متعلق بھی شکایات تھیں، ایل این جی کی درآمدسےمتعلق نیب انکوائری کررہاہے۔وکیل پی ایس او کا کہنا تھا کہ قیمتوں کے تعین کے لیے پیپرا مددگار ہو سکتا ہے۔ اس سے قیمتوں کو تھوڑا بہت فرق آسکتا ہے۔جس پر چیف جسٹس نے کہا اگرایک پیسےکابھی فرق ہوتوعوام کوریلیف ملناچاہئے۔ حکومت کے ساتھ مل بیٹھ کر یہ معاملہ دیکھ لیں۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply