ہیلمٹ پر جرمانہ۔۔۔علی اختر

ہر قوم کا ایک مزاج ہوتا ہے۔ جو کہ  پوری دنیا میں اسکی پہچان بن جاتا ہے۔ باقی ممالک کی بات بعد میں پھر کبھی ہوگی لیکن ہمارا مزاج یہ  ہے کہ  یہاں کسی بھی ہدایت و پابندی کے بغیر زندگی گزرتی ہے ۔اگر کوئی  پابندی نہ لگائی جائے تو یہاں سب کشل منگل چلتا رہتا ہے لیکن پابندی لگاتے ہی اسکے برخلاف چلنا سبھی پر فرض عین ہو جاتا ہے۔ کہ ہم تو یہ کر بھی لیتے لیکن “تم نے کیوں کہا” اب کروالو ہم سے بیٹا۔

مثلا  اگر کوئی  نوجوان بس میں سفر کر رہا ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ  مطلوبہ اسٹاپ تک ایسے ہی تمیز و تہذیب کے ساتھ سفر کرے گا۔ لیکن اب اچانک وہ بس کی دیوار پر لکھا دیکھتا ہے کہ   “براہ مہربانی سیٹوں پر پاؤں نہ رکھیں” تو اس صورت حال میں اسکی قومی غیرت اسے مجبور کردے گی کہ  فوری سیٹ پر قدم جمادے۔ اور سچا پاکستانی ہونے کا اعلان کر ے۔

ابھی چند دہائیوں پہلے ہی کی بات ہے ۔ ہمارے نمازی پرہیزگار و تہجد گزار بزرگوں کے دور میں وی سی آر جیسا فتنہ اس ملک میں در آیا ۔ امید کے عین مطابق انہوں نے اسکا مکمل بائکاٹ بھی کیا،  تاکہ اسکے مضر اثرات سے بچا جا سکے۔ لیکن عین اسی وقت حکومتِ   وقت نے اعلان کر دیا کہ  وی سی آر جیسی برائی  پر پابندی لگائی  جاتی ہے ۔ بس پھر کیا تھا، لوگوں نے سو سو روپے کرائے پر ، چادروں و دسترخوانوں میں چھپا کر اس کو گھر تک پہنچایا اور پوری پوری رات جاگ کر سرخ آنکھوں سے امیتابھ بچن کی مووی ” کالیہ” اور “اندھا قانون” دیکھ کر ثواب دارین حاصل کیا۔

یوں تو ہمارے ملک پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں   سفر کے تقریباً  سبھی جدید ترین ذرائع موجود ہیں لیکن دو سواریاں اپنی تیز رفتاری اور کم خرچہ کی بدولت ہر دل عزیز سمجھی جاتی ہیں ۔ ان میں ایک تو “کھوتہ گاڑی ” ہے اور دوسری موٹر سائیکل۔ اولالذکر کا تو غذائی  ضروریات کے سبب تقریباً خاتمہ ہو چکا اور وہ معدومی کی سطح کو چھو رہی ہے۔ رہی بات دوسری کی تو وہ اب بھی “ہر دل کی  د ل پسند” ہے اور پورے شہر میں دندناتی گھوم رہی ہے۔

سب کچھ بالکل صحیح چل رہا تھا لیکن کیونکہ حکومت نئی  نئی  آئی  ہے اور عوامی رویے  سے نا آشنا ہے تو اس نے مہذب معاشروں، عالمی معیشت کے بھرپور تجزیہ اور سائنس وٹیکنالوجی کے ماہرین سے طویل گفت و شنید کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ  عوام کی جانوں کی حفاظت اولین ترجیح ہونی چاہیے،  تو  جو موٹر سائیکل سوار بغیر ہیلمٹ کے  نظر آئے  اسے چالان تھمادو اور اس بات کو یقینی بناؤ کہ  لوگ ہیلمٹ لازمی استعمال کریں۔

گو ہمارے معاشرے میں عوام کی  جان کو کئی  اور خطرات لاحق ہیں، جیسے، خودکش حملے، بم دھماکے، ٹارگٹ کلنگ، جعلی مقابلے وغیرہ اور جو اس سے بچ جائیں وہ مضر صحت غذاؤں ، جعلی ادویات ، ہیروئن وغیرہ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اور اس معاشرہ میں ہیلمٹ پر جرمانہ ایسا ہی ہے جیسے ایک چرسی بیٹے کو اسکا باپ اس لیئے تھپڑ لگائے کہ  “تیری جیب سے میٹھی چھالیہ کیوں برآمد ہوئی ” ۔ لیکن پھر بھی ایک احسن قدم ہی ہے۔ لیکن رکاوٹ وہی پابندی کے تئیں عوامی رویہ بنے گا۔

اب عوام بھی اپنی پرانی روش پر قائم ہے ۔ کرایہ پر ہیلمٹ ملنا شروع ہو گئے ہیں گو ہفتہ بھر کا کرایہ ہیلمٹ کی قیمت کے برابر ہو جائے ،خریدیں گے نہیں۔ اسکے علاوہ لوگوں کی طرف سے ٹریفک پولیس کی پٹائی  کی وڈیوز بھی وائرل ہو رہی ہیں ۔ اور تو اور کچھ منچلے ایسے  بھی ہیں جو آٹھ سو کا ہیلمٹ لینے کے بجائے پچاس ہزار کی بائیک روڈ پر نظر آتش کر رہے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب ایسے میں بہت سے کمنٹس اور تجزیہ بھی نظروں سے گزر رہے ہیں جس میں کچھ اس   اقدام کے حق میں تو کچھ مخالفت میں ہیں۔ جیسے “اگر غریب آٹھ سو کا ہیلمٹ اور ہزار کا جرمانہ نہیں دے سکتا تو پچاس ہزار کی بائیک کیسے لے لیتا ہے” ۔ لیکن سب سے مضحکہ خیز تجزیہ یہ پڑھا کہ  “حکومت ہزار کا چالان وصول کرکے موقع پر ہی ہیلمٹ فراہم کردے”. اگر بالفرض یہ تجویز مان بھی لی جائے تو اگلے ہیلمٹ ملے نہ ملے، اگلے کچھ  برسوں میں “ہیلمٹ کرپشن کیس” ضرور خبروں میں آجا ئے گا۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply