درمیانے ۔۔۔۔۔۔آفتاب اشرف

شام کو دفتر سے گھر واپسی پر جب توصیف کی نظراپنے پڑوسی بلال صاحب کے پورچ پر پڑی تو وہ پلک جھپکنا ہی بھول گیا۔وہاں ہلکے سرخ رنگ کی ایک نئی نویلی ٹویوٹا کرولا کھڑی تھی۔گاڑی پر نمبر پلیٹ کی بجائے ’اپلائیڈ فار‘ کی تختی لگی تھی جس کا مطلب تھا کہ گاڑی ابھی ابھی شو روم سے نکلی ہے۔توصیف نے ایک بے یقینی سی کی کیفیت میں اپنی گاڑی پارک کی اور باہر نکل کر جیب میں گھر کے بیرونی دروازے کی چابیاں ٹٹولنے لگا۔ دفعتاًاس کے دل میں خیال آیا کہ گھر میں داخل ہونے سے پہلے باہر کھلی فضا میں کھڑے ہو کر ایک سگریٹ پی لیا جائے۔اس نے بریف کیس نیچے رکھا،جیب سے سگریٹ کا پیکٹ اور لائیٹر نکالا اور ایک سگریٹ سلگا کر ٹہلتا ہوا سڑک پر آ گیا۔سگریٹ پینا تو محض ایک بہانہ تھا۔اصل طلب تو اسے بلال صاحب کے پورچ میں کھڑی گاڑی کو دیکھنے کی ہو رہی تھی۔گاڑیاں تو اس طرح کی وہ روز سینکڑوں دیکھتا تھالیکن اس گاڑی کی خاص بات یہ تھی کہ وہ اس کے پڑوسی کے گھر کھڑی تھی۔

لگتا ہے بلال صاحب کے گھر کوئی مہمان آئے ہوئے ہیں۔اس نے سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے سوچا۔بلال صاحب نے ایک آدھ بار ذکر کیا تھا کہ ان کے کچھ رشتے دار بہت پیسے والے ہیں۔ہر سال گاڑی کا ماڈل بدلنا تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔لگتا ہے وہی لوگ ہیں۔مگر بلال صاحب کی اپنی گاڑی کہاں غائب ہے؟۔۔میرا خیال ہے کہ وہ مہمانوں کی خاطر تواضح کے لئے کچھ چیزیں لینے مارکیٹ تک گئے ہوں گے۔۔ یا پھر شاید آج گاڑی مکینک کو دی ہو گی ٹھیک ہونے کے لئے۔کچھ ایسی ہی بات ہوگی ورنہ آجکل کے دور میں بلال صاحب جیسا ملازمت پیشہ مڈل کلاس آدمی بائیس لاکھ کی نئی گاڑی کیسے لے سکتا ہے۔اس نے گاڑی کے ملائم پینٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے خود کو تسلی دی۔اب اسے گاڑی کچھ کچھ اس ماڈل کی دوسری گاڑیوں جیسی ہی لگنے لگی تھی۔وہ گاڑی کا جائزہ لے ہی رہا تھاکہ اسے بلال صاحب کا قہقہہ سنائی دیا اور ساتھ ہی گھرکے بیرونی دروازے کی چٹخنی کھلنے کی آواز آئی۔اس نے فوراً پلٹ کر جانا چاہا۔وہ بلال صاحب سے نہیں ملنا چاہتا تھا۔لیکن بلال صاحب کی تیز آواز نے اس کے قدم روک لئے۔

’’ارے کہاں بھاگے جا رہے ہیں تو صیف بھائی۔۔میں تو کب سے آپ کی دفتر سے واپسی کا انتظار کر رہا ہوں۔منہ میٹھا کرنا تھا آپ کا۔وہ خوشی ہی کیا جو یاروں دوستوں کے بغیر منائی جائے۔‘‘بلال صاحب نے چہکتے ہوئے کہا ۔حالانکہ حقیقت میں ان کی توصیف کے ساتھ محض رسمی سی سلام دعا تھی،کوئی یاری دوستی نہیں۔

’’وہ میں ابھی دفتر سے واپس آیا تھا۔سوچا باہر کھڑے ہو کر ایک سگریٹ ہی پی لوں۔۔‘‘توصیف نے دانستہ طور پر بلال صاحب کے اشارے کو نظر انداز کرتے ہوئے نئی گاڑی کے متعلق کوئی بات نہیں کی۔شائد اسے ابھی بھی امید تھی کہ یہ گاڑی کسی گھر آئے مہمان کی ہی ہو گی۔

’’ارے چلے جانا گھر بھی۔پہلے ایک موتی چور کا لڈو تو کھاتے جائیے۔آپ کے بھائی نے نئی گاڑی لی ہے۔۔اون اور رجسٹریشن ملا کر پورے چوبیس لاکھ میں پڑی ہے۔۔اف،کتنی مہنگائی ہے آجکل۔۔‘‘بلال صاحب نے فخریہ لہجے میں کہا۔

توصیف کا دل ایک دم بیٹھ سا گیا۔اس نے کن آکھیوں سے گاڑی کی طرف دیکھا۔وہ اسے پھر سے بہت خاص دکھ رہی تھی۔اس کا جی چاہا کہ وہ بھاگ کر گھر چلا جائے لیکن محلے داری میں مروت کا خیال تو رکھنا ہی پڑتا ہے۔

’’جی۔۔جی،بہت مبارک ہو آپ کو۔اللہ تعالیٰ مزید کامیابی دے ۔۔اچھا،اب میں چلتا ہوں۔پھر کبھی بیٹھ کر گپ شپ کریں گے۔‘‘ الفاظ بڑی مشکل سے توصیف کے حلق سے نکلے۔

’’چلیں جیسے آپ کی مرضی۔لیکن اپنی مٹھائی لیتے جائیں۔ویسے تھوڑی سی تو میں نے پہلے ہی بھابھی اور بچوں کے لئے بھجوا دی تھی۔سوچا ان کو خوشخبری سنانے کے لئے آپ کا انتظار کیوں کیا جائے۔بھئی بچہ تو آپ کا بہت ہی خوش ہوا ہماری گاڑی دیکھ کر۔کہنے لگا۔۔گاڑی تو یہ ہے۔۔میرے پاپا کے پاس تو شوکی(سوزوکی) ہے۔۔ہاہاہاہا۔۔یہ بچے بھی بڑے بدتمیز ہوتے ہیں۔بڑے ہو کر خود کمائیں گے تو لگ پتہ جائے گا کہ شوکی کیسے آتی ہے۔۔‘‘

اوہ۔۔تو یہ گھر پہلے ہی بتا چکے ہیں۔توصیف نے زبردستی مسکراتے ہوئے سوچا۔بلال صاحب کے قہقہے اسے اپنے کانوں میں چھید کرتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔

’’چلیں اب آپ گھر جا کر آرام کریں۔کل شام کو گپ کریں گے۔۔گڈ نائٹ‘‘توصیف نے جان چھوٹنے پر خدا کا شکر ادا کیا اور گھر کی طرف پلٹا۔پورچ میں اس کی نظر نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی آٹھ سال پرانی سیکنڈ ہینڈ مہران پر پڑی۔اسے یوں لگا جیسے وہ کوئی بونا ہے جو زور سے اچھل اچھل کر کسی اونچی چیز کو ہاتھ لگانا چاہتا ہے۔چلو خیر۔۔خدا کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی مصلحت ضرور ہوتی ہے۔اس نے سوچتے ہوئے دروازہ کھولا اور خاموشی سے اندر چلا گیا۔

رات کے کھانے تک گھر میں عافیت رہی۔توصیف خاموشی سے ٹی وی دیکھتا رہا اور بیگم گھر کے کام کاج میں لگی رہی۔شاید دونوں ہی ایک دوسرے سے بات کرنے سے کترا رہے تھے۔لیکن کھانے کی میز پر اس کے چھوٹے بیٹے نے اپنی توتلی زبان میں بلال صاحب کی گاڑی کا ذکر کر کے بم پھوڑ ہی دیا۔توصیف کو یوں لگا جیسے لقمہ اس کے حلق میں پھنس گیا ہو۔اسی چیز سے تو وہ بچنا چاہ رہا تھا لیکن اب بچوں کو کون سمجھائے۔اس نے جلدی سے پانی کا گھونٹ بھر کر لقمہ نیچے اتارا اور کن آکھیوں سے اپنی بیوی شگفتہ کی طرف دیکھا۔وہ سپاٹ چہرے کیساتھ سامنے پڑے گلاس کو گھور رہی تھی۔

’’پاپا۔۔پاپا،بلال انکل کہہ رہے تھے کہ آپ بھی نئی گاڑی لینے والے ہیں۔۔ویسی ہی جیسی انہوں نے لی ہے۔۔‘‘توصیف کے بڑے بیٹے نے معصومیت سے پوچھا۔

توصیف نے حیرت سے بیٹے کو دیکھا اور ہکلاتے ہوئے بولا۔

’’ہاں۔۔ہاں،ہم بھی لیں گے نئی گاڑی۔۔بس کچھ ہی عرصے میں۔۔‘‘

’’پاپا۔۔زندہ باد۔۔‘‘بچہ خوشی کے مارے جھوم اٹھا۔

’’چلو شاباش۔۔تم دونوں نے کھانا کھا لیا ہے تو اٹھو،دانت برش کرو اور سوجاؤ۔صبح سکول بھی جانا ہے۔‘‘شگفتہ نے بروقت مداخلت کر تے ہوئے توصیف کو مزید شرمندگی سے بچا لیا۔

’’ویسے بڑا کمال کیا ہے بلال صاحب نے۔حالات تو ان کے ہمارے جیسے ہی تھے۔پتہ نہیں کہاں سے اتنا پیسہ لے آئے۔۔بتا رہے تھے کہ کل ملا کر چوبیس لاکھ میں پڑی ہے گاڑی۔‘‘بچوں کے جاتے ہی شگفتہ فوراً مدعے پر آ گئی۔
’’ارے چھوڑو۔۔یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔کہاں سے آ سکتے ہیں ان کے پاس اتنے پیسے۔میرے جیسی ہی ملازمت ہے ان کی۔ضرور بینک سے لیز پر لی ہو گی۔یا پھر کچھ نہ کچھ بیچا ہو گا۔ورنہ آجکل کی مہنگائی میں ہمارے جیسے مڈل کلاس لوگوں کے لئے اتنی بچت کرنا تو ناممکن ہے۔۔۔‘‘توصیف نے ہنکارا بھرتے ہوئے کہا۔اس طرح کی باتیں کرنا اس کا مخصوص طریقہ دفاع تھا اور شگفتہ یہ بات بخوبی جانتی تھی۔

’’چلیں جو بھی ہے۔لیکن اب ہمیں بھی گاڑی بدل لینی چاہئے۔ایک تو یہ پرانی بہت ہو گئی ہے،دوسرا چھوٹی ہے۔بچے بڑے ہو رہے ہیں۔کہیں آنا جانا ہو تو سامان رکھنے کے بعد بیٹھنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘شگفتہ نے بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا اور بات سمیٹ دی۔

توصیف اچھے سے جانتا تھا کہ اصل بات کچھ اور ہے ورنہ نہ تو ان کی گاڑی کھٹارا تھی اور نہ ہی ضرورت کے لحاظ سے بہت چھوٹی۔

کھانے کے بعد بھی گھر کے ماحول پر عجیب سی سرد مہری چھائی رہی۔دونوں میاں بیوی ایک دوسرے سے گریز کرتے رہے۔رات سونے سے پہلے شگفتہ نے ایک بار پھر نئی گاڑی لینے کے متعلق بات شروع کرنے کی کوشش کی لیکن توصیف نے نیند کا بہانہ کر کے اسے خاموش کرا دیا۔وہ تو سو گئی لیکن توصیف بڑی دیر تک کروٹیں بدلتا اور حساب کتاب لگاتا رہا۔بالآخر اسے بھی نیند نے آن دبوچا۔پوری رات اسے عجیب غریب خواب آتے رہے۔کبھی وہ دیکھتا کہ اس کی شادی ہو رہی ہے۔وہ حجلہ عروسی میں داخل ہو کر سرخ لباس میں لپٹی ہوئی اپنی دلہن کا گھونگھٹ اٹھانے ہی لگتا ہے کہ وہ ایک چم چم کرتی سرخ گاڑی میں بدل جاتی ہے۔کبھی وہ بیوی بچوں کے ساتھ اپنی نئی گاڑی پرکسی پہاڑی مقام کی سیر کر رہا ہوتا کہ اچانک لینڈ سلائیڈ نگ شروع ہو جاتی۔گاڑی میں لگا بٹن دباتے ہی وہ ہوا میں اڑنے لگتی اور ان سب کی جان بچا لیتی۔کبھی دیکھتا کہ وہ شو روم سے نئی گاڑی خرید کر نکل رہا ہے اور باہر لوگوں کا ایک جم غفیر اکٹھا ہے اور وہ سب اس سے ایک ہی سوال پوچھ رہے ہیں کہ اس کی کامیاب زندگی کا راز کیا ہے۔وہ مصنوعی عاجزی سے سب کو جواب دے رہا ہے اور پاس کھڑی شگفتہ اسے فخریہ نگاہوں سے دیکھ رہی ہے۔ایسا ہی ایک اور خواب دیکھتے ہوئے صبح کے الارم سے اس کی آنکھ کھل گئی۔

دفتر میں بھی وہ سارا دن انہی سوچوں میں غلطاں رہا۔کھانے کے وقفے کے دوران وہ سگریٹ پینے کے بہانے سب سے آنکھ بچا کر دفتر کی کار پارکنگ میں آ گیا اور وہاں کھڑی اپنے کولیگز کی گاڑیاں دیکھنے لگا۔تقریباً سبھی کے پاس نئے ماڈل تھے۔اس دن اسے شدت سے احساس ہوا کہ پوری پارکنگ میں سب سے پرانی گاڑی اسی کی تھی۔

شگفتہ ٹھیک ہی کہتی ہے۔مجھے اب نئی گاڑی لے لینی چاہئے۔ایسی ہی بیچاری احساس کمتری کا شکار رہتی ہے۔اور کیوں نہ ہو۔اس کی تمام سہیلیوں کے شوہروں کے پاس نئی گاڑیاں ہیں۔شائد اسی لئے وہ اپنی پرانی سہیلیوں کیساتھ اب زیادہ میل جول رکھنے سے کتراتی ہے۔بچے الگ شرم محسوس کرتے ہیں۔اسے یاد آیا کہ ایک مرتبہ جب اس نے بچوں کو بتایا کہ ان کی وین والا چھٹی پر ہے اور آج وہ انہیں سکول سے لینے خود آئے گا تو وہ دونوں گھبرا سے گئے۔بالآخر بڑے بیٹے نے کہہ ہی ڈالا کہ پاپا آپ جب ہمیں لینے آئیں تو گاڑی ذرا پیچھے کھڑی کرنا۔بہت پوچھنے پر اس نے جھجکتے ہوئے بتا یا کہ انہوں نے اپنے کلاس فیلوز سے جھوٹ بول رکھا ہے ان کے پاپا کے پاس تو ایک بڑی سی نئے ماڈل کی کار ہے۔کیا فائدہ ہے اتنی محنت کرنے کا جب آپ کے بیوی بچے ہی خوش نہ ہوں۔کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا۔وہ کھڑا یہی سب سوچ رہا تھا کہ پیچھے سے آواز آئی۔

’’سر۔۔اب آپ بھی نئی گاڑی لے ہی لیں۔ایسے کب تک کھڑے ہوکر دوسروں کی گاڑیاں دیکھتے رہیں گے؟‘‘اس نے مڑ کر دیکھا تو اسکے دفتر کا نائب قاصد یوسف کھڑا تھا۔اس کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ تھی۔اس دوٹکے کے ملازم کی یہ جرات۔توصیف کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔

’’لے لوں گا۔۔تمہیں اس سے مطلب۔۔اور تم کب نئی موٹر سائیکل لے رہے ہو؟‘‘توصیف نے تنک کر پوچھا۔

’’سرجی۔آپ تو غصہ کر گئے۔میں تو صرف یہ کہہ رہا تھا کہ آپ اچھے خاصے افسر آدمی ہیں۔۔آپ کو یہ چھوٹی پرانی گاڑی جچتی نہیں ۔اب دیکھیں نا ہمارے جیسے چھوٹے ملازم بھی کھڑے ہو کر سلیوٹ اسی افسر کو مارتے ہیں جو مہنگی سی گاڑی پر آئے۔۔بے شک دل میں اسے کوس ہی کیوں نہ رہے ہوں۔یہ اپنے پارکنگ کے چوکیدار غفورے ہی کو دیکھ لیں۔جب شکور صاحب نے گاڑی نکالنی ہوتی ہے تو یہ کیسے بھاگتا ہوا آ کر ان کے لئے کار کا دروازہ کھولتا ہے۔آپ کے لئے تو کبھی نہیں کھولا اس نے۔فرق کیا ہے بھلا؟۔۔گاڑی کا۔۔‘‘اس نے آنکھیں مٹکاتے ہوئے شکور صاحب کی نئی ہنڈا کار کی طرف اشارہ کیا۔’’سڑک پر چلے جائیں،تو یہی کہانی ہے۔بڑی گاڑی والا سگنل توڑے،کسی کو ٹکر مارے،جو مرضی کرے۔۔ٹریفک والے اسے کچھ نہیں کہتے۔چھوٹی گاڑی والے کو پکڑ لیتے ہیں ،بے شک اندر آپ جیسا افسر ہی کیوں نہ ہو۔ اور تو اور یہ اپنے بڑے باس ہیں نا۔۔جس افسر کے پاس جتنی مہنگی گاڑی ہے۔۔اس کی اتنی ہی عزت ہوتی ہے باس کے دفتر میں۔۔‘‘یوسف بولے جا رہا تھا۔توصیف کو اس کی بے تکلفی پر سخت غصہ آ رہا تھالیکن وہ یہ ظاہر کر کے اپنے ماتحت کی نظروں میں مزید چھوٹا نہیں ہونا چاہتا تھا۔خدا خدا کر کے یوسف گیا تو اس کی جان چھوٹی۔لیکن جاتے جاتے وہ اسے سنا گیا کہ اگر وہ اس کی جگہ ہوتاتو نئی گاڑی لینے میں ایک دن کی بھی تاخیر نہ کرتا۔

گھر واپسی تک وہ نئی گاڑی لینے کا پکا ارادہ کر چکا تھا۔شگفتہ اور بچوں کو جب پتہ چلا تو ان کی خوشی دیدنی تھی۔اب مسئلہ یہ تھا کہ پیسے کہاں سے آئیں گے۔رات دیر تک وہ اور شگفتہ بیٹھے یہی حساب لگاتے رہے۔ آخر بینک سے لیز پر گاڑی لینے کا فیصلہ ہوا۔ درحقیقت ان کے پاس آپشن ہی یہی تھا۔اتنی ساری رقم وہ یکمشت تو ادا نہیں کر سکتے تھے ۔لیکن مختلف بینکوں کی ویب سائیٹس سے پتا چلا کہ پرانی گاڑی کو بیچ کر حاصل ہونے والی ساری رقم کو بھی بطور ڈاؤن پیمنٹ دے دیا جائے اور سات سال کی قسطیں کرائی جائیں تب بھی دیگر ضروری اخراجات کے بعد ان کے لئے گاڑی کی ماہانہ قسط دینا ناممکن تھا۔ماہانہ قسط کم کرنے کا واحد طریقہ یہ تھا کہ ڈاؤن پیمنٹ کی رقم بڑھا دی جائے۔لہٰذا طے یہ ہوا کہ وہ ابھی تک اکٹھا ہونے والا اپنا سارا جی پی فنڈ نکلوائے گا اور شگفتہ اپنے سارے زیورات بیچے گی۔مگر یہ سب کر کے بھی ڈاؤن پیمنٹ کی رقم کم پڑ رہی تھی۔ بہت مغز ماری کے بعد اگلے بارہ مہینوں تک گھریلو اخراجات میں شدید کٹوتی پر دونوں کا اتفاق ہو گیا۔پلان یہ تھا کہ ملازمہ کی چھٹی کرا دی جائے اور گھر کا سارا کام شگفتہ خود کرے،بچوں کو صبح سکول چھوڑنے کی ذمہ داری وہ لے اور دوپہر گھر لانے کی ذمہ داری شگفتہ کی ہو تا کہ سکول وین کا خرچہ بچایا جا سکے،گرمیوں میں اے سی کے استعمال پر مکمل پابندی لگا دی گئی تا کہ بل کم سے کم آئے،کھانے پینے کے اخراجات نصف کرنے کا تہیہ ہوا،گھر میں کسی دعوت پر بھی پابندی لگ گئی،یہ بھی فیصلہ ہوا کہ وہ ایک سال تک نہ کسی شادی بیاہ کی تقریب میں جائیں گے اور نہ کسی سالگرہ پر،تا کہ تحفے تحائف نہ دینے پڑیں۔یہ سب منصوبہ بنانے کے بعد جب جمع تفریق کی گئی تو پتہ چلا کہ مطلوبہ رقم ابھی بھی پوری نہیں ہو رہی تھی۔توصیف نے تو ہاتھ کھڑے کر لئے۔

’’لگتا ہے تمہیں اسی گاڑی پر گزارہ کرنا پڑے گا۔۔‘‘وہ افسردگی سے بولا۔لیکن شگفتہ یوں ہار ماننے والی نہیں تھی۔

’’گاڑی تو ہم لے کر ہی رہیں گے۔۔چاہے کچھ بھی ہو جائے۔‘‘اس نے مضبوط لہجے میں کہا۔

’’تو اب کیا دونوں اپنا ایک ایک گردہ بھی بیچ دیں۔۔اب تو یہی کسر رہ گئی ہے۔پتہ نہیں دنیا کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آ جاتے ہیں۔ اس منحوس بلال کو ہی دیکھو۔چوبیس لاکھ اکٹھے دینا۔۔منہ سے کہنے کی بات ہے، ہم سے تو بارہ لاکھ نہیں ہو رہے۔پتہ نہیں کدھر ڈاکہ مارا ہے حرامی نے۔۔‘‘توصیف طیش میں آ گیا۔

’’توصیف ،آپ کو میں نے بتایا تھا نہ کہ مجھے بچوں کے سکول سے بطور ٹیچر جاب کی آفر ہوئی تھی۔تنخواہ بہت تھوڑی تھی،اس لئے میں نے انکار کر دیا تھا۔لیکن اب ہمیں پیسوں کی ضرورت ہے۔میں دوبارہ سکول جا کر پتہ کرتی ہوں۔اگر جاب مل گئی تو کر لوں گی۔اگلے بارہ مہنیوں کی ساری تنخواہ بھی اکٹھی کر کے ہم ڈاؤن پیمنٹ کی رقم میں ڈال دیں گے۔ پھر میرے اسی سکول میں ٹیچر ہونے کی وجہ سے بچوں کی فیس بھی نصف ہو جائے گی۔ وہ رقم بھی ہمارے کام آئے گی۔بلکہ میرا تو خیال ہے کہ میں بعد میں بھی جاب جاری رکھوں۔ اگلی قسطیں دینے میں بھی آ سانی ہوگی۔‘‘شگفتہ کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔

’’لیکن تمہارے لئے بہت مشکل نہیں ہو جائے گا۔۔ملازمہ کو بھی فارغ کر رہے ہیں،گھر کا سارا کام،بچوں کی دیکھ بھال اور پھر اس سب کیساتھ جاب کرنا۔۔‘‘توصیف کچھ تردد کے بعد بولا۔

’’کوئی بات نہیں،میں کر لوں گی۔۔ہم سر اٹھا کر اپنے ساتھ کے لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے کے قابل تو ہوجائیں گے نا۔۔یہ بات اہم ہے۔‘‘

’’چلو پھر ڈن ہو گیا۔۔انشا اللہ ایک سال بعد ہمارے پاس بھی نئی گاڑی ہو گی۔‘‘توصیف نے شگفتہ کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا اور دونوں ایسے مسکرانے لگے جیسے شاید سکندر دنیا فتح کرنے کے بعد مسکرایا ہو گا۔

اگلا پورا سال کسی کینچوے کی طرح رینگ رینگ کر گزرا۔ظاہر ہے اے سی کے عادی بندے کے لئے پوری گرمیاں صرف پنکھے کے سہارے گزارنااور روز گوشت خوری کرنے والے کے لیے دال چاول پر گزارہ کرناکوئی آسان کام تو نہیں تھا۔شگفتہ کی سکول میں جاب ہو گئی تھی۔کام کے دوہرے بوجھ کی وجہ سے وہ ہر وقت چڑ چڑی رہنے لگی تھی۔گھر میں کسی کا آنا جانانہیں رہا تھا۔تعلق واسطے سب ختم ہو گئے تھے۔بچے الگ پر یشان تھے کہ ان کے ماں باپ کو اچانک ہو کیا گیا ہے۔ گھر کی فضا پر ایک عجیب سوگوار سی تلخی چھائی رہتی تھی۔ کئی مرتبہ دونوں میاں بیوی کو یہ خیال آیا کہ شاید وہ فضول میں اپنی جان پر ظلم کر رہے ہیں لیکن پھر یہ سوچ کر خود کو تسلی دیتے کہ کھایا پیا تو کسی کو نہیں دکھتا لیکن نئی گاڑی تو سب کو نظر آئے گی۔بالآخر بارہواں مہینہ ختم ہوااور توصیف فیملی کی جان میں جان آئی۔ان کا منصوبہ خاصا کامیاب گیا تھا۔تمام تر بچتوں، توصیف کے جی پی فنڈ،شگفتہ کی تنخواہ،زیورات اور پرانی گاڑی کی فروخت سے ڈاؤن پیمنٹ کے لئے اکٹھی ہونے والی رقم کل ملا کر سولہ لاکھ بن رہی تھی۔اتنی ڈاؤن پیمنٹ کرنے کے بعد بقایاقیمت اور سود کی سات سالہ قسطوں کی صورت میں ادائیگی توصیف کی پہنچ میں تھی۔دونوں میاں بیوی خوشی سے اڑتے پھر رہے تھے۔ان کا خواب جو پورا ہونے والا تھا۔لیکن کیا کیا جائے۔نظام دنیا کو شاید بن کھلے مرجھانے والے غنچے بہت پسند ہیں۔

ایک دن حکومت نے اعلان کیاکہ ملک کی معاشی صورتحال نہایت خراب ہے لہٰذا اس سے نپٹنے کے لئے کچھ ہنگامی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔آناًفاناً ملکی کرنسی کی قدر کم کر دی گئی،شرح سود بڑھا دی گئی،درآمدات پر مزید ڈیوٹی اور اشیا کی خرید وفروخت پر نئے ٹیکس لگا دیے گئے۔شاید آپ کو ان خشک باتوں کی سمجھ نہ آ رہی ہو۔فکر نہ کریں ۔۔آپ اکیلے نہیں ہیں۔ توصیف اور شگفتہ بھی آپ ہی کی طرح صرف اپنے کام سے کام رکھنے والے لوگ تھے۔۔انہیں بھی ان باتوں کی سمجھ تب آئی جب انہیں بینک سے پتا چلا کہ ان سب اقدامات کے سبب نئی گاڑیوں کی قیمت میں قریب چالیس فیصد کا اضافہ ہو گیا ہے۔آسان اردو میں نئی گاڑی آج بھی ان کی پہنچ سے اتنی ہی باہر تھی جتنا کسی نالائق طالب علم کی سمجھ سے الجبرا۔

شگفتہ اور توصیف کے لئے یہ بہت بڑا دھچکا تھا۔شگفتہ اپنے جہیز کے زیورات سے ہاتھ دھوبیٹھی تھی اورتوصیف کو اپنی پرانی گاڑی مہنگے داموں ڈیلر سے واپس خریدنی پڑی۔ لیکن اس معاشی ضرب سے زیادہ خوفناک وہ ذہنی صدمہ تھا جو انہیں پہنچا تھا۔غریب آدمی کی بات کچھ اور ہوتی ہے۔وہ تو بچپن سے ہی محرومیوں سے سمجھوتہ کرنا سیکھ جاتا ہے۔لیکن مڈل کلاس کے لوگوں کو ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں بہت تکلیف دیتی ہیں۔انہیں اس کی عادت نہیں ہوتی۔توصیف بیچارے کا تو دنیا سے دل ہی اٹھ گیا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ تبلیغی جماعت کا رکن بن کر اللہ سے لو لگائے گا۔ لیکن اصل کمال شگفتہ نے دکھایا۔بڑی سوچ بچار کے بعد اس نے جمع ہونے والی رقم کا مصرف یہ نکالا کہ وہ دونوں اس سے حج کر آئیں۔ظاہر ہے زندگی گزارنا کوئی آسان کام تو نہیں ۔کوئی نہ کوئی سہارا تو چاہئے ہی ہوتا ہے انسان کو۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ان سب واقعات کے چند ماہ بعد کی بات ہے۔توصیف کی طبیعت خراب تھی اور وہ دفتر سے چھٹی کر کے گھر پر آرام کر رہا تھا۔شگفتہ اور بچے سکول گئے ہوئے تھے۔

گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔توصیف نے ٹائم دیکھا تو گیارہ بج رہے تھے۔

’’یہ اس وقت کون آ گیا ہے۔۔‘‘توصیف نے بڑبڑاتے ہوئے دروازہ کھولا تو سامنے ڈاکیہ کھڑا تھا۔

’’جناب،یہ خط ہے آپ کے لیے‘‘

’’میرے لیے۔۔‘‘توصیف نے حیرت سے کہا۔

’’جی ہاں۔۔آپ ہی کا پتا لکھا ہے۔۔‘‘ڈاکیہ بیزاری سے بولا۔

’’اچھاٹھیک ہے،دے دو۔۔‘‘توصیف نے ڈاکیے سے خط لیا اور دروازہ بند کر کے بیڈ روم میں آ گیا۔

اس نے بے یقینی سی کی کیفیت میں جلدی سے لفافہ کھولاکہ دفعتاً اس کی نظر باہر لکھے پتے پر پڑی۔ڈاکیے سے غلطی ہوئی تھی۔پتہ بلال صاحب کے گھر کا تھا۔

توصیف نے لفافہ سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔سوچا کہ شام کو جب بلال صاحب گھر پر ہوں گے تب دے آؤ گا۔

لیکن لفافہ تو کھل چکا تھا۔توصیف سے تجسس کے مارے رہا نہ گیا۔

ذرا دیکھو ں تو سہی کس کا خط ہے۔۔اس نے سوچتے ہوئے لفافہ اٹھا کر خط نکال لیا۔

وہ بلال صاحب کے نام تھا۔۔ بینک کی طرف سے۔لکھا تھا کہ اگر انہوں نے گاڑی کی لیز کی واجب الادا پچھلی تین اقساط اس ماہ کے آخر تک ادا نہیں کیں تو بینک گاڑی ضبط کر لے گا۔۔

بشکریہ لال سلام

Advertisements
julia rana solicitors london

https://www.marxist.pk/short-story-middle-class/

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply