کائنات میں زندگی۔۔۔۔ احمد علی

انسان جب سے خلاء کی بیکراں وسعتوں میں جھانکنے کے قابل ہوا ہے یہ سوال مزید شدت سے اسکے ذہن میں اٹھنے لگا کہ اس وسیع و عریض کائنات میں زندگی کا وجود ہے یا نہیں اس سوال کے جواب کے لئے سائنسدان کوشاں ہیں اور مستقبل قریب یا بعید میں قوی امکان ہے کہ انسان کائنات میں زندگی تلاش کرنے میں کامیاب ہوجائے یہ اس لئے بھی ممکن نظر اتا ہے کہ یہ بات بعید از عقل ہے کہ اتنی وسیع و عریض کائنات کی تخلیق کا مقصد صرف زمین پر زندگی ہو جبکہ ہمارا نظام شمسی اس کے لئے کافی تھا تو پھر ہماری کہکشاں اور اس طرح کی اربوں کھربوں کہکشائوں کا کیا جواز, اس سوال کے جواب کے لئے جب ہم قران کریم کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہمیں بہت سی ایات مبارکہ میں واضح طور پر اشارے ملتے ہیں کہ کائنات میں نہ صرف زندگی موجود ہے بلکہ اللہ تعالی ایک مقررہ وقت پر اسے ہم سے ملا دے گا.

وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖ خَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَثَّ فِیۡہِمَا مِنۡ دَآبَّۃٍ ؕ وَ ہُوَ عَلٰی جَمۡعِہِمۡ اِذَا یَشَآءُ قَدِیۡرٌ ﴿۲۹﴾
ترجمہ : اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش ہے اور ان میں جانداروں کا پھیلانا ہے وہ اس پر بھی قادر ہے کہ جب چاہے انہیں جمع کر دے.
سورہ الشوری ایت 29

اس  آیت مبارکہ میں اللہ تعالی اسمان و زمین کی پیدائش کو اپنی نشانیاں قرار دینے کے بعد فرماتا ہے کہ اسمان و زمین میں جاندار پھیلا دئے گئے ہیں اور وہ جب چاہے گا انھیں اپس میں ملا دے گا, اس ایت کے مفہوم کو سمجھنے سے قبل یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اسمان کیا ہے اور یہ کن معنوں میں استعمال ہوتا ہے.

السَّمَآءَ :
یہ لفظ “س م و” سے نکلا ہے ہر شے کے بالائی حصہ کو سَمَائٌ کہا جاتا ہے, سماء اس بارش کو کہا جاتا ہے جو ہنوز زمین پر نہ گری ہو تو اس میں بھی بلندی کے معنیٰ ملحوظ ہیں اور نباتات کو بھی سَمَائٌ کہا جاتا ہے یا تو اس لئے کہ وہ بارش سے اُگتے ہیں اور یا اس لئے کہ وہ زمین سے بلند ہوتے ہیں, ہر ’’سمائٌ‘‘ اپنے ماتحت کے لحاظ سے سَمَائٌ ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے اَرْضٌ کہلاتا ہے.
مفردات راغب

ﺁﺳﻤﺎﻥ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﻣﯿﮟ ﺁﺱ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﻨﺎ ﮨﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﻋﺮﺑﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﺳﻤﺎﺀ ﺍﻭﺭ ﻓَﻠَﮏ ﺟﺒﮑﮧ ﺳﻨﺴﮑﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮔﮕﻦ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ , ﯾﮧ ﻓﻀﺎﺀ ﯾﺎ ﺧﻼﺀ ﮐﺎ ﺣﺼّﮧ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻓﻠﮑﯿﺎﺗﯽ ﺟﺴﻢ کی  ﺳﻄﺢ ﺳﮯ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ, ﻋﺎﻡ ﻓﮩﻢ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﺎﮨﺪﺍﺗﯽ ﺍﺳﻤﺎﻥ ﺧﻼﺀ , ﺳﻮﺭﺝ , ﭼﺎﻧﺪ , ﺳﺘﺎﺭﻭﮞ , ﺳﯿﺎﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﻣﺠﻤﻮﻋﮯ ﮐﻮ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺳﻤﺎﺀ ﻟﻔﻆ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺑﻠﻨﺪﯼ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﻠﻨﺪﯼ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﺳﻄﺢ ﺯﻣﯿﻦ ﺳﮯ ﭼﻨﺪ ﻓﭧ ﺍﻭﭘﺮ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺑﻠﻨﺪﯼ ﮐﮩﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻻﻣﺤﺪﻭﺩ ﺣﺪ ﺗﮏ ﺍﻭﻧﭽﺎﺋﯽ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ اسمان ہی کہا جاتا ہے.

اس بات کی وضاحت کے بعد جب ہم سورت الشوری کی ایت 29 پر نظر دوڑاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ زمین و آسمان میں جاندار پھیلا دیے  گئے ہیں یہاں پھیلانے کے لئے “بَثَّ” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو “ب ث ث” سے نکلا ہے جسکا مطلب زرات کی طرح منتشر ہوجانا پھیلا دیا جانا ہے جیسے جاندار کرہ ارض پر ہر طرف منتشر نظر اتے ہیں حتی کہ زمین کے ہر زرے میں کسی نہ کسی شکل میں حیات موجود ہے بالکل اسی طرح اسمان کی بلندیوں میں بھی حیات پھیلا دی گئی ہے اس  آیت مبارکہ میں حیات یا جانداروں یا مخلوق کے لئے لفظ “دَآبَّۃٍ” استعمال کیا گیا ہے جو “د ب ب” سے نکلا ہے.

دَآبَّۃٍ :
اَلدَّبُّ وَالدَّبِیْبُ: (ض) کے معنیٰ آہستہ آہستہ چلنے اور رینگنے کے ہیں, اور(لغتہ) ہر حیوان یعنی ذی حیات چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے نیز اس سے ہر ذی حیات چیز مراد لی جائے.
مفردات راغب

اس وضاحت سے پتہ چلتا ہے کہ ہر جاندار یا ذی حیات چلنے پھرنے والی مخلوق جو زمین پر موجود ہے کائنات کی وسعتوں میں بھی پائی جاتی ہے مگر اسی صورت میں جو زمین پر موجود ہے یا کسی اور شکل و ہئیت میں اس سوال کا جواب انے والا وقت ہی دے سکے گا, اسی ایت مبارکہ کے اخر میں اللہ تعالی “اَلْجَمْعُ” کا لفظ استعمال فرماتا ہے جس کا مطلب متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملادینا ہے چناچہ کوئی وجہ نہیں یہ سمجھا جائے کہ وقت مقررہ پر اسمان کی مخلوق کو زمین کی مخلوق کے ساتگ ملا دیا جائے گا, اس ضمن میں چند مزید ایات بھی ہیں جو اس نظرئے کو تقویت دیتی ہیں.

وَ لِلّٰہِ یَسۡجُدُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ مِنۡ دَآبَّۃٍ وَّ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ ہُمۡ لَا یَسۡتَکۡبِرُوۡن
ترجمہ : یقیناً آسمان و زمین کے کل جاندار اور تمام فرشتے اللہ تعالٰی کے سامنے سجدے کرتے ہیں اور ذرا بھی تکبر نہیں کرتے.
سورہ النحل ایت 49

سورت الشوری میں  آسمانوں میں موجود صرف فرشتے مراد نہیں لئے جا سکتے کیونکہ سورہ النحل کی ایت 49 میں فرشتوں اور جانداروں کں ذکر الگ الگ فرمایا گیا ہے اور یہاں بھی لفظ “دَآبَّۃٍ” ہی استعمال کیا گیا ہے.

اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَسۡجُدُ لَہٗ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنۡ فِی الۡاَرۡض
ترجمہ : کیا تو نہیں دیکھ رہا کہ اللہ کے سامنے سجدے میں ہیں سب آسمانوں والے اور سب زمینوں والے.
سورہ الحج ایت 18

اس  آیت میں بھی  آسمانوں اور زمین والوں کے ذکر میں وہی لفظ “الدَّوَآبُّ” استعمال فرمایا گیا ہے نیز سجدہ کرنے کا ذکر ہے جیسے زمین پر اللہ کی مخلوق سربسجود ہے بالکل  آسمانوں میں بھی یہ نظام جاری و ساری ہے.

وَ اللّٰہُ خَلَقَ کُلَّ دَآبَّۃٍ مِّنۡ مَّآءٍ ۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّمۡشِیۡ عَلٰی بَطۡنِہٖ ۚ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّمۡشِیۡ عَلٰی رِجۡلَیۡنِ ۚ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّمۡشِیۡ عَلٰۤی اَرۡبَعٍ ؕ یَخۡلُقُ اللّٰہُ مَا یَشَآءُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ
ترجمہ : تمام کے تمام چلنے پھرنے والے جانداروں کو اللہ تعالٰی ہی نے پانی سے پیدا کیا ہے ان میں سے بعض تو اپنے پیٹ کے بل چلتے ہیں بعض دو پاؤں پر چلتے ہیں ، بعض چارپاؤں پر چلتے ہیں اللہ تعالٰی جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے بیشک اللہ تعالٰی ہرچیز پر قادر ہے.
سورہ النور ایت 45

Advertisements
julia rana solicitors london

اس  آیت مبارکہ میں بھی لفظ “دَآبَّۃٍ” استعمال کیا گیا ہے اور وضاحت کی گئی ہے کہ چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں ان سب کو پانی سے پیدا کیا گیا ہے یہ بات کرہ ارض پر ثابت شدہ ہے کہ پانی زندگی کی بنیادی اکائی ہے اور  آسمان میں موجود جاندار بھی پانی سے ہی پیدا کئے گئے ہیں توبظاہر اس بات کا امکان نظر اتا ہے کہ زمین و اسمان کی مخلوق میں مطابقت بھی ہو گی, ان ایات کے علاوہ بھی قران کریم میں ایات موجود ہیں جن سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ کائنات میں ذی حیات پھیلا دی گئی ہے یقینا اللہ بہتر جانتا ہے کب انسان اس مخلوق سے ملنے پر قادر ہو سکے گا.
واللہ اعلم بالصواب

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply