• صفحہ اول
  • /
  • سائنس
  • /
  • جدلیاتی نظریہ اور منطق : متضاد اور مخالف کا فرق۔۔ڈاکٹر ظہور بابر

جدلیاتی نظریہ اور منطق : متضاد اور مخالف کا فرق۔۔ڈاکٹر ظہور بابر

جدلیاتی نظریہ بحوالہ ہیگل اور مارکس میں جدلیات کو آفاقی و مادی حقیقت کا بنیادی قانون قرار دیا گیا جس میں حقیقت میں موجود تمام سلسلے دو مخالف اشیا یا قوتوں کی باہمی چپقلش کا نتیجہ ہیں اور یہ نتیجہ ایک نئی ابتدا بن کر پھر اپنے مخالف سے ٹکرا کر ایک اور نئی ابتدا کرتا ہے چنانچہ یہ سلسلہ ابتدائے آفرینش سے ازل تک جاری و ساری ہے،
دوسری طرف فارمل منطق کے بنیادی قانون کے تحت دو متضاد بیانات میں دونوں بیک وقت درست نہیں ہو سکتے، ایک لازمی غلط ہو گا۔
اس بحث میں گزشتہ کئی روز سے اختلافی بیانیہ پر بات چل رہی ہے۔
منطق کے حوالے سے ہیگل نے یہ کہہ کر اسے رد کر دیا کہ حقیقت ہے ہی متضاد۔ اس ہیگیلیاتی بیان پر جو بحث پیدا ہوئی اس میں میری جانب سے اعتراض اٹھا کہ دراصل ہیگل کا منطقی مغالطہ یہ ہے کہ اس نے مخالف کو متضاد قرار دے کر اسے حقیقت کی ساخت کا قانون پیش کر دیا جںکہ مخالف اور متضاد میں فرق ہے۔ دو مخالف وجود یا سلسلے بیک وقت موجود ہو سکتے ہیں، دو متضاد بیان بیک وقت درست نہیں ہو سکتے۔
اس بحث کے آگے بڑھنے پر میری جانب سے یہ نکتہ اٹھایا گیا کہ جس سلسلے کو دو مخالف قوتوں کا ٹکراؤ اور نتیجہ وار تبدیلی کا شاخسانہ قرار دیا جا رہا ہے وہاں بھی ایک اور غلطی کی گئی ہے۔ وہ یہ کہ صورت کی تبدیلی کو بھی مخالف حالتوں کی باہمی نفی قرار دیا گیا جبکہ میں نے ارسطو کے حوالے سے تذکرہ کیا کہ یہ بھی مخالفت یا نفی کا معاملہ نہیں بلکہ مخفی صلاحیت کا حقیقت میں نمودار ہو جانا ہے، یعنی پوٹینشیل کا ایکچوئل بن جانا جس کی کئی مثالیں بہت آسان اور واضح دیکھی جا سکتی ہیں۔ حیات جب صورت بدلتی ہے تو نئی صورت پہلے سے مخفی حالت میں موجود ہوتی ہے اور وہی نئی صورت میں ڈھل جاتی ہے ،اس میں ایسا نہیں کہ دو مخالف صورتیں ایک دوجے کی نفی کرتی ہوں۔ چنانچہ ہیگل اور مارکس نے اس کو نظر انداز کر کے صورتوں کی تبدیلی کو بھی باہمی یکجائی اور مخالفانہ چپقلش قرار دے کر جدلیاتی سلسلہ قرار دے دیا جو ایک بڑی گھمبیر غلطی ہے۔
جہاں تک یہ بات کی گئی کہ اس مخفی اور حقیقی نموداری کی کوئی منطقی دلیل دی جائے تو عرض ہے کہ صورتوں کی تبدیلی اسی حقیقت کا قانون ہے جس کو غلط طور جدلیاتی قانون قرار دیا جا رہا ہے۔ لہذا جس حقیقت کو جدلیاتی کہا جا رہا ہے اور جس بنیاد پر کہا جا رہا ہے اسی حقیقت کو میری جانب سے مخفی اور حقیقی نموداری کا سلسلہ کہا جا رہا ہے تو پھر اس پر منطقی دلیل کا تقاضا کرنا کچھ عجیب سا ہے۔ منطقی دلیل کا معاملہ تو وہاں تک لاگو ہے جہاں تک مخالف اور متضاد کے فرق کا معاملہ ہے۔ اس سے آگے تو مشاہداتی منطق یا محض مشاہدہ پر مبنی یعنی مظاہر پر دو طرح نقشہ درپیش ہے جس میں سے ایک یعنی صورت کی تبدیلی کو مخالف  نفی قرار دینا اور دوسری طرف صورتوں کی تبدیلی کو مخفی سے نموداری کے مشاہدہ سے ثابت کرنا۔
اب جہاں تک مخفی سے حقیقت بن جانے کا سلسلہ ہے اس کے ثبوت مادی سائنس کے پاس بے شمار ہیں، جبکہ صورتوں کی مخالفت کی بنیاد پر جدلیاتی مخالفت کے ثبوت سائنس میں ناپید ہیں کیونکہ سائنس کسی مفروضے کو نہیں مانتی جب تک اس کے پیچھے پوشیدہ مادی عوامل کو دریافت نہ کر لے۔ یہ بات اس لیےبھی  اہم ہے کہ سائنس مظاہر کے پیچھے دیکھتی ہے نا کہ محض مظاہر کو دیکھ کر جدلیاتی اصول مان لے ،اگر ایسا کرتی ہے تو پھر وہ سائنس نہیں کچھ اور ہے۔
یہاں یہ بھی واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ مخفی سے مراد پُراسرار نہیں بلکہ وہ جو پوشیدہ صلاحیت کے طور واقعی موجود ہے مگر اسکی پوشیدہ صورت میں ہی وہ صورت مخفی ہے جس نے نمودار ہونا ہے۔ مگر یہ حیاتی معاملے تک محدود نہیں بلکہ مادی حرکت پر بھی لاگو ہے۔ زیادہ آسانی کیلئے زندگی کی وہ صورت جو پہلے سے متعین ہے اور پوشیدہ ہے اس صورت کا پروگرام اس حیات کے خوردبینی اجزا میں موجود ہے جس کی سائنس توثیق کر چکی ہے، زمانہ ہوا۔ اسی طرح حرکت کے قوانین میں خفیہ حرکت اور اس کا اصل حرکت میں بدل جانے کا پیمانہ سائنس دے چکی ہے۔ کوئی شے زمین کی طرف گرے گی تو 32 فٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے گرے گی چاہے بلندی سے گرے یا قریب سے، بشرطیکہ اس کے راستے میں اور کوئی مزاہمتی قوت نہ ہو۔ وغیرہ وغیرہ
چنانچہ اس بحث کو کسی کروٹ تمام کرنے کیلئے میری جانب سے یہ ایک ادنیٰ سی کوشش تھی اور مجھے احساس ہے کہ میں اپنی بساط میں کم علم بھی ہوں اور ناشناس بھی ۔ میرے عزیز جدلیاتی احباب مجھ سے بہت زیادہ ماہر اور با علم ہیں۔ البتہ میں سمجھتا ہوں کہ شاید میں نے ایک نئی تحقیق کے دروازے کھول دیے ہیں یا پھر شاید یہ میری خوش فہمی ہو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply