جب مشرکین نے نبی آخرالزمان سے بہت سے سوالوں کے ساتھ یہ سوال کیا کہ روح کی حقیقت کیا ہے تو میرے رب نے قران میں ایک سادہ ساجواب جو اپنے اندر بے پناہ جامعیت رکھتا ہے دیا کہ روح امر ربی ہے ۔ علم کلام کی پیچیدہ بحثوں کے بجائے اس ایک جملہ میں تمام حقیقت واضح کردی کہ اصل حقیقت روح ہے ۔۔۔۔۔۔
جب موت کا ذکر آیا تو فرمایا گیا کہ ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے یہاں پہ دو چیزیں واضح ہوگئیں کہ ایک وجود نفسانی ہے جس کے لیے موت ہے جو مادی وجود ہے جس کے لیے فنا بھی ہے اور موت بھی ہے اور ایک وجود روحانی ہے جو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوگا کیونکہ وہ امر ربی ہے اور کسی مادی واسطے کا محتاج نہیں۔ اس لیے اسے فنا نہیں وہ عالم ارواح سے عالم دنیا ،عالم دنیا سے عالم برزخ اور عالم برزخ سے عالم آخرت کی طرف منتقل کیا جائے گا اور ایک عالم کے اعمال اس کی آنے والی زندگی کی تقدیر ہوں گے ۔
بس انسان کی اصل حقیقت اس کا وجود روحانی ہے جس طرح انسان کے کپڑے اس کا ظاہر ہیں اس کا جسم ان کپڑوں کے تبدیل کرنے سے تبدیل نہیں ہوتا اسی طرح ہمارا جسم روح کا لباس ہے اور اس عالم دنیا سے رخصت کے وقت اس کا یہ جسمانی لباس اتار کر اصل انسان روح کا اگلے مقام کی طرف انتقال ہوجاتا ہے ۔
علامہ ابن قیم نے لکھا کہ عالم دنیا کی زندگی میں جسم عمل کا مرکز اور روح محسوسات کا مرکز ہے جسم پہ ہونے والی تکلیف روح محسوس کرتی ہے لیکن مادی وجود کی محدود صلاحیت کی وجہ سے ہم زمان ومکان کے محتاج ہیں اور جب عالم برزخ میں جاتے ہیں تو یہ عمل الٹ ہو جاتا ہے روح عمل کا مرکز اور جسم محسوسات کا مرکز ہوجاتاہے روح پہ ہونے والا عمل جسم محسوس کرتا ہے لیکن جسم عمل سے عاری ہوجاتا ہے ۔یہ بھی ایک محدود زندگی ہے لیکن عالم آخرت میں انسان کی زندگی مکمل زندگی ہوگی جہاں روح اور جسم بیک وقت عمل بھی کر سکیں گے اور محسوس بھی کرسکیں گے جیسے اہل جنت جب خواہش کریں گے تو انواع و اقسام کے پھل ان کے سامنے حاضر ہو جائیں گے جو روحانی صلاحیت کی وجہ سے ہوگا اور وہ کھائیں گے جو جسمانی صلاحیت کی وجہ سے ممکن ہو سکے گا ۔۔،
حاصل کلام بس اتنا ہے کہ انسان کی اصل اس کی روح ہے بس ہم اپنے اعمال سے اس کے لیے راحت یا تکلیف حاصل کر سکتے ہیں جسم بس ایک سراب ہے جسکی تسکین کے لیے ہم اصل کی طرف سے صرف نظر کر چکے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں