بالغ بچوں پر رشک کرتے ہیں کہ وہ کس قدر آسانی سے نئی زبان سیکھ لیتے ہیں، ان کے ذہن میں نت نئے خیالات امڈ آتے ہیں۔ جہاز کی کھڑکی سے باہر جھانکنا ہو یا خرگوش کو پہلی بار ہاتھ لگانا ۔۔۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں سے کتنا لطف اندوز ہوتے ہیں۔ بڑوں کے دماغوں کے زیادہ دروازے بند ہو چکے ہوتے ہیں۔
شہر بھی ایسے ہی ہیں۔ مثال کے طور پر پرانے لاہور میں بنا سڑکوں کا جال نہیں بدل سکتا کہ وہ دوبئی کی طرز کا بن جائے۔ تاریخ نے بل کھاتے راستوں کو اپنی جگہ پر فکس کر دیا ہے۔ شہر انہی ابتدائی نقشوں کے اوپر بڑھتا ہے۔
ایلن لائٹ مین فزسسٹ ہیں جنہوں نے نیویارک ٹائمز میں مضمون لکھا ہے جس میں وہ اپنی ذہن کے جمود پر نوحہ کناں ہیں۔
“ایتھلیٹ کی طرح سائنسدانوں کے بہترین سال بھی کم عمری کے ہیں۔ بائیس سالہ نیوٹن نے گریویٹی دریافت کی۔ چھبیس سالہ آئن سٹائن نے سپیشل تھیوری آف ریلیٹیویٹی۔ جیمز میکسویل اپنی الیکٹرومیگنیٹک تھیوری دریافت کر کے اور اس کو پالش کر کے پینتیس سال کی عمر میں ریٹائر ہو چکے تھے۔ میں خود پینتیس سال کا ہو چکا ہوں اور لگتا ہے کہ فزکس میں میرا کیرئیر اب خاتمے کے قریب ہے۔ اس عمر میں یا زیادہ سے زیادہ بھی چند سال بعد میری تخلیقی دریافتیں ختم ہو چکی ہوں گی۔ یا تو کچھ کر چکا ہوں گا یا پھر کبھی کچھ نہیں کر سکوں گا”۔
ایسا ہی ایک اور فزسسٹ جیمز گیٹس ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہتے ہیں۔
“کہا جاتا ہے کہ بوڑھے سائنسدان نئے خیالات اس وقت تسلیم کرتے ہیں جب وہ انتقال کر جاتے ہیں۔ نئی نسل نئے خیالات کو لے کر بڑھتی ہے۔ جب آپ میری طرح زیادہ عمر کے ہو جائیں تو آپ بہت کچھ جانتے ہیں لیکن یہی چیز ایک جہاز کے لنگر کا کام کرتی ہے۔ یہ علم کا بوجھ ہوتا ہے۔ اور کئی بار ایک خیال جو کسی پری کی طرح قریب سے گزرتا ہے تو آپ کہتے ہیں، “مجھے نہیں پتا کہ یہ کیا ہے لیکن یہ اہم نہیں ہو سکتا”۔ کئی بار آپ غلط ہوتے ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمررسیدہ ہونے کے ساتھ ایسا ہوتا تو ہے کیونکہ پلاسٹسٹی عمر کے ساتھ کم ہوتی ہے لیکن خوش قسمتی سے یہ ختم نہیں ہوتی۔ یہ لچک صرف نوجوانوں کے لئے ہی نہیں۔ دماغ کی تبدیلیوں کا سلسلہ تمام عمر جاری رہتا ہے۔ ہم نئے خیالات بناتے ہیں۔ نئی انفارمیشن اکٹھی کرتے ہیں۔ لوگوں اور واقعات کو یاد رکھتے ہیں۔ پرانا لاہور بدلنے کی لچک کم تو ہے لیکن یہ بدلتا پھر بھی ہے۔ یہ شہر بیس سال پہلے کے مقابلے میں بدل چکا۔ آج یہاں موبائل کے ٹاور اور کیبل ٹی وی کی تاریں بھی نظر آتی ہیں۔ بنیادی شکل نہ بھی بدلے لیکن شہر ارتقا پذیر ہے۔ جیسے لائبریری کی عمارت تو کم و بیش ویسی ہی رہے لیکن اس میں کتابوں کی کلکشن بدلتی رہے۔
اس کی ایک حالیہ مثال ایک سٹڈی سے نظر آئی جو کئی دہائیوں تک کیتھولک نن پر کی گئی تھیں۔ راہباوٗں نے باقاعدہ سے ذہنی ٹیسٹ دینے اور اپنا میڈیکل ریکارڈ شئیر کرنے کی حامی بھری اور ساتھ ہی اپنے دماغ موت کے بعد تحقیق کے لئے عطیہ کرنے کی۔ حیران کن طور پر ان میں سے کئی راہبائیں ایسی تھیں جن کی ذہن صلاحیت میں پوری عمر کوئی کمی نہیں آئی تھی لیکن مرنے کے بعد تجزیہ دکھاتا تھا کہ ان کا دماغ الژائمر بیماری چاٹ چکی تھی۔ یعنی نیورل نیٹورک زوال پذیر تھا لیکن صلاحیت نہیں۔ اس کی کیا وضاحت ہو سکتی ہے؟ راہباوٗں کی زندگی ذہنی مصروفیت میں گزرتی ہے۔ ذمہ داریاں، کام، سوشل زندگی، بحثیں، کھیل، گروپ ڈسکشن وغیرہ۔ یہ ٹی وی کے آگے بیٹھ کر گزارے جانی والی زندگی نہیں تھی۔ اپنی متحرک ذہنی زندگی کی وجہ سے دماغ کو مسلسل نئے راستے بناتے رہنا پڑتا تھا۔ نیورل ہائی وے ضرر کا شکار ہو جاتے لیکن متبادل راستے بن جاتے۔ ایک تہائی نن ایسی تھیں جن کے دماغ کی مالیکیولر پیتھالوجی میں الژائمر تھی لیکن اس کے اثرات کہیں نہیں تھے۔ متحرک ذہنی زندگی نے بڑھاپے میں بھی نئے کنکشن بنانا کم نہیں کئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیکھا کسی بھی عمر میں جا سکتا ہے لیکن یہ سست کیوں پڑتا جاتا ہے؟ ایک وجہ تو بند ہونے والے دروازے ہیں لیکن اس کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ یاد رہے کہ دماغ میں تبدیلیاں اس وقت آتی ہیں جب ذہن کا اندرونی ماڈل اور بیرونی دنیا میں کچھ فرق ہو۔ دماغ اس وقت بدلتا ہے جب کچھ معمول سے ہٹ کر ہو۔ جب آپ کی عمر زیادہ ہوتی جاتی ہے اور آپ دنیا کے اصول دریافت کرتے جاتے ہیں۔ گھریلو زندگی سے لے کر کھانے پینے تک کچھ بھی غیرمتوقع نہیں رہتا تو دماغ میں اچھوتی چیزوں سے ہونے والی تحریک کم ہو جاتی ہے اور یہ وجہ ہے کہ اس میں لچک کم ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ بچے ہیں اور آپ کا اندرونی ماڈل یہ بتاتا ہے کہ جو آپ کے یقین ہیں، وہی سب کے یقین ہیں۔ جب دنیا میں مختلف لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں تو آپ کی پیشگوئی ٹھیک کام نہیں کرتی۔ اب آپ کا ذہن اس خلا کو ایڈجسٹ کرنے میں وسیع ہو سکتا ہے۔
یا پھر یہ تصور کریں کہ جب آپ نے اپنی پہلی جاب شروع کی تھی۔ شروع میں سب کچھ نیا تھا۔ ساتھی اور ذمہ داریاں نئی تھیں۔ ابتدائی ایام اور ہفتوں میں دماغ کی پلاسٹسٹی عروج پر تھی۔ اس کا اندرونی ماڈل بن رہا تھا۔ کچھ عرصے میں آپ اپنے کام میں ماہر ہوتے گئے۔ لچک کی جگہ مہارت لے لیتی ہے۔
یہی طریقہ اقوام میں لچک کا ہے۔ مثال کے طور پر کسی ملک میں ہونے والی آئینی ترامیم دیکھ لیں۔ زیادہ تر تبدیلیاں ابتدا میں ہوتی ہیں۔ قوم خود سیکھ رہی ہوتی ہے کہ کیا کام کرتا ہے۔ مثال کے طور پر امریکی آئین قدیم ہے۔ اس کے پہلے تیرہ برسوں میں بارہ ترامیم ہوئیں۔ اس کے بعد یہ رفتار سست پڑتی گئی۔ ستائیسویں ترمیم 1992 میں ہوئی۔ آئین پچھلی تین دہائیوں سے جامد ہے۔
دماغ کی لچک کا کم ہونا دنیا کو سمجھنے کی کامیابی کی وجہ سے ہے۔ نیورل نیٹورک اس لئے مقفل نہیں ہوتے کہ ان کا فنکشن خراب ہو رہا ہے بلکہ کامیابی اس کی وجہ ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا آپ کی خواہش ہو گی کہ آپ کے دماغ میں ویسی پلاسٹسٹی ہو جیسے کسی بچے کی؟ اگرچہ اس خیال میں کشش ہے کہ آپ ہر انفارمیشن جذب کر سکیں لیکن زندگی کی کھیل انفارمیشن جذب کرنے اور اصول سمجھ لینے کے درمیان توازن کی ہے۔ یہ لچک اور مہارت کا توازن ہے۔اس نیٹورک میں ہونے والی سخت جنگوں کے بعد جیتنے والی حالت کے بعد کی حالت ضروری نہیں کہ درست ہو یا باربط بھی ہو لیکن اس کو ہم زندگی کا تجربہ کہتے ہیں۔ یہ دنیا کو سمجھنے کی اپروچ ہے۔
یہ وہ وجہ ہے کہ بچے جہاں پر انفارمیشن جذب کرنے میں اچھے ہیں، وہاں ادارے نہیں چلا سکتے، گہرے خیالات سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے، قوموں کی سربراہی نہیں کر سکتے۔ اگر یہ پلاسٹسٹی کم نہ ہوئی ہوتی تو دنیا کی روایات ذہن میں مقفل نہ ہوئی ہوتیں۔ اچھی پیٹرن کی پہچان نہ آئی ہوتی یا سماجی زندگی کو ہینڈل کرنا نہ آیا ہوتا۔ آپ کتاب نہ پڑھ سکتے، اچھا مکالمہ نہ کر سکتے۔ تنہا نہ جا سکتے۔ خود کے لئے خوراک نہ حاصل کر سکتے۔ مکمل لچک کا مطلب بچے کی طرح کی بے چارگی ہو گا۔
اور زندگی کی یادیں؟ فرض کیجئے کہ آپ ایسا کیپسول کھا سکیں جو دماغ کی پلاسٹسٹی واپس لا سکے؟ اب آپ اس قابل ہو جائین گے کہ نئی زبان آسانی سے سیکھ لیں۔ نیا لہجہ اپنا لیں۔ فزکس کے بارے میں نئی سوچ رکھ سکیں۔ اس کی قیمت؟ آپ وہ سب بھول جائیں گے جو اس سے پہلے تھا۔ بچپن کی یادیں مٹ جائیں گی۔ ان کے اوپر کچھ اور لکھ دیا جائے گا۔ آپ کا پہلا سکول، والدین کے ساتھ تفریح، پہلی محبت ۔۔۔ سب کچھ اس طرح غائب ہو جائے گا جیسے صبح اٹھنے کے بعد خواب کی یاد محو ہو جاتی ہے۔ کیا کوئی بھی ایسا چاہے گا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرض کیجئے کہ کوئی ایسا بائیولوجیکل ہتھیار بنا لے جو پلاسٹسٹی واپس لا سکے تو یہ مستقبل کی جنگ کا خوفناک ترین ہتھیار ہو گا۔ کوئی جانی نقصان نہیں ہو گا۔ لیکن دشمن فوجی بچپنے کی حالت میں چلے جائیں گے۔ چلنا اور بولنا بھی بھول جائیں گے۔ یادیں مٹ جائیں گی۔ اور جب انہیں واپس گھر بھجوایا جائے گا تو انہیں اپنے دوستوں، عزیزوں، بیوی بچوں کی کوئی پہچان نہیں ہو گی۔ باقی ہر لحاظ سے وہ ٹھیک ہوں گے، انہیں کوئی بھی گزند نہیں پہنچی ہو گی۔ صرف ان کی ذہنی زندگی ۔۔۔ وہ حصہ جو ہم آسانی سے دیکھ نہیں پاتے ۔۔۔ کو فیکٹری ری سیٹ کر دیا گیا ہو گا۔
پھر یہ منظر اتنا زیادہ خوفناک کیوں ہے؟ کیونکہ بنیادی طور پر ہم اپنی یادوں کا مجموعہ ہیں۔ وہ سب جو ہم نے اپنی زندگی میں سمیٹا ہے۔ مہارت، عادات، واقعات، علم۔ یہی یاد ہی تو ہماری زندگی ہے۔
یاد ۔۔۔ اب ہم اس کا رخ کرتے ہیں۔
(جاری ہے)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں