بوڑھے والدین اور اسلامی تعلیمات

معاشرے پر اس وقت مغرب کی یلغار ہے ،غیروں کے بڑھتے ہوئے رجحانات اور ان کی عادات و اطوار کو اختیار کرنے کی وجہ سے ہم نت نئے مسائل کا شکار ہیں ،اسلامی ،اخلاقی ،تہذیبی ،تمدنی ،اور معاشرتی اقدار اس وقت زوال پذیر اور گراوٹ کی انتہا کو چھو رہے ہیں ،منجملہ ان مسائل میں بوڑھے والدین کے ساتھ بڑھتی ہوئی بے رخی،ناقدری ،توہیں ،تحقیر وتذلیل ہے .جب وہ بڑھاپے کی عمر کوپہنچتےہیں ،سن رسید اور ضعیف ہوتے ہیں ،اولاد انہیں اپنے اوپر بوجھ اور مصیبت سمجھنے لگتی ہے ،بات بات پر ان کو ڈانٹا ،جھڑکنا ،ذلیل ورسوا کرنا روز کا معمول بن جاتا ہے ،ان کے ساتھ مل بیٹھنا ،باتیں کرنا انہیں وقت دینا تو دور کی بات ہے ،ان کو دو ٹائم کی روکھی سوکھی روٹی دینے کو راضی نہیں ہوتے ،ان کو بیماری لاحق ہو جائے علاج و معالجے پر رقم خرچ کرنا فضول سمجھتے ہیں ۔

افسوس !وہ والدین جنھوں نے پوری زندگی ہماری لئے سہولیات ،چین وسکون ،راحت ومسرت مہیا کرنے کی نذر کردی ،آج تمام اولاد ان سے بیزار ہے۔وہ والدین جنہوں نے رہن سہن کے لیے اچھا مکان ،ٹھنڈے کمرے، گھریلوضروریات کی تمام چیزیں میسر کیں، آج والد نے بڑھاپے کی دہلیز پر کیا قدم رکھا؟،بیٹوں نے گھر کا بٹوارہ کر دیا ، والدین کو بوجھ سمجھ کر اولاد بے رخی اختیار کرنا شروع کر دیتی ہے ،بعض دفعہ بے مروت اولاد بوڑھے باپ کو گھر بدر کردیتے ہیں ،اس پر بس نہیں اولڈ ہاؤسز میں چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے عاق کر دیتےہیں ،روڈ رستوں پر ،گلی محلے میں یہ جنت کے ٹکٹ رلتے، لاچار وبے بس دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ،ہم دوسروں کی چال چل کر اپنی اسلامی اقدار کو پس پشت ڈال رہے رہیں ،اخلاقی فرائض کو یکسر بھلا چکے ہیں ،ان کے احسان کا بدلہ بدی سے دینے کی راہ پر گامزن ہیں ۔تہذیبی اور تمدنی روایات سے نابلد ہو چکے ہیں ۔

کیا ہماری اسلامی تعلیمات یہ ہیں؟
معاشرتی اقدار کہاں دفن ہیں ؟

یقین جانئے !اسلامی معاشرتی اقدار کی بنیاد ہی اخلاق پر ہے ،پرانے وقتوں میں لوگ اپنے والدین کی عزت وتکریم کے ساتھ ساتھ گلی محلہ کے بڑوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ،مجلس میں انکے اعزاز کے لیے با ادب کھڑے ہو جاتے ،انکے سامنے بولنا تک گوارہ نہیں کرتے تھے ،آج ہم کس تنزلی کا شکار ہوگئے ہیں ،بیٹا بالغ کیا ہوا باپ کو جاہل ،اجڈ گنوار کے لقب سے نوازنا فرض سمجھتا ہے ،معمولی باتوں پر گالم گلوچ ،طعن وتشنیع سے گریز نہیں کرتا ،

آج ہم دوسروں کی چال چل کر ’’کوا چلا ہنس کی چال ‘‘کی عملی تعبیر بن چکے ہیں ،اللہ تبارک وتعالی ٰنے قرآن مجید میں والدین کے ساتھ حسن سلوک ،عجز و انکساری اور محبت وشفقت کے واضح اور روشن احکامات نازل فرمائے ہیں ،ان کو ’’اف ‘تک کہنے کی اجازت نہیں دی ،امام قرطبی رح والدین کے ساتھ حسن سلوک والی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں ’’اللہ رب العزت نے اپنی عبادت کے ساتھ والدین کے ساتھ ادب واحترام اور اچھا سلوک کرنے کو واجب قرار دیا ہے ‘‘

صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ سے ایک شخص نے سوال کیا ،اللہ تبارک وتعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل کونسا ہے ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا نماز اپنے وقت میں ’’اس نے پھر دریافت کیا: اس کے بعد کونسا عمل ؟آپ نے فرمایا ،’’والدین کے ساتھ حسن سلوک ‘‘
آپ علیہ السلام نے ایک دوسری روایت میں والدین کو جنت کا درمیانی دروازہ قرار دیا ہے آپ نے فرمایا :جس کی مرضی چاہے اس کی حفاظت کرے یا ضائع کردے ۔
ترمذی شریف میں روایت ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا ’’اللہ کی رضا والد کی رضا میں،اللہ کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔والدین پر شفقت ومحبت سے ایک نگاہ ڈالو تو حج مقبول کا ثواب ملتا ہے ،آپ علیہ السلام کی یہ بات سن کر لوگوں نے سوال کیا یا رسول اللہ ﷺ!، اگر دن میں سو مرتبہ نظر ڈالے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ، ہاں سو مرتبہ بھی (ہر مرتبہ اسی طرح ثواب ملتا رہے گا )دنیا میں والدین کی خدمت کرنے والوں کو جہاں یہ عمدہ اعزازات ملتے ہیں وہاں والدین کی نافرمانی کرنے والے کے لیے سخت سے سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔اللہ تمام گناہوں میں سے جس گناہ کی سزا چاہیں دنیا میں دیں یا اس کو آخرت تک موخر کردیں ،لیکن والدین کی نافرمانی،حق تلفی ،بے ادبی کرنے والے شخص کو اس کی سزا آخرت سے پہلے دنیا میں ہے دی جاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

والدین چاہے مسلم ہوں یا کافر خدمت و اطاعت انکا حق ہے ، یہ کسی زمانے یا عمر میں مقید نہیں ،ہر حال ،ہر عمر میں والدین کے ساتھ اچھائی حسن سلوک واجب ہے ،والدین جب بوڑھے ہو جاتے ہیں ،انکی زندگی اولاد کے رحم وکرم پر ہوتی ہے ،اولاد کی ایک چھوٹی سی بات ،معمولی بے رخی والدین کے لیے ضرب کاری بن جاتی ہے ،بڑھاپے کے طبعی عوارض ،عقل وفہم کی کمی کی وجہ سے انکی طبیعت میں چڑچڑا پن آجا تا ہے ،بچوں کو چاہیے درگز کریں ،انکی صحت اور کھانے پینے کا خیال رکھیں،ان کی ہر ممکن خواہش پوری کریں ، اپنی مصروف زندگی ،میڈیا انٹر نیٹ ،تعلیم ،امتحانات اور کاروبار سے تھوڑا وقت والدین کے لیے مختص کریں ،انکی ،خدمت کریں ، ان سے دعائیں لیں ،یہی سب کچھ کامیابی اور کامرانی کا سبب بنے گا ،والدین کو بھی چاہیے کہ اپنے بچوں کی اصلاح اور تربیت کریں جہاں آپ انکو مہنگے سے مہنگے اسکولوں میں تعلیم دلواتے ہیں وہاں انہیں اسلامی تعلیمات و اقدار سے روشناس کرائیں ،اپنے بڑوں کی خدمت کرکے انہیں عملی سبق سکھائیں ،خدارا !اپنی جنت کی قدر کریں .

Facebook Comments

نعیم الدین
لکھنے پڑہنے والا ایک ادنی طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply