گستاخانہ مواد۔۔موئثر حکمتِ عملی کی ضرورت!

مسلمان مسلمان کا بھائی ہے لیکن آج مسلک کی آگ نے بھائی چارے کے اس رشتے میں کبھی نہ ختم ہونے والی دیوار حائل کردی ہے، غیروں کی بات تو بعد میں ہوگی پہلے خود اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے ۔۔دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کیوں نہیں کرتے ؟ گستاخیاں ہم کر رہے ہیں؟ فرقہ واریت اور مسلک کی آگ ہم نے بھڑکائی ہے ،دوسرے کا گریبان تو تب پکڑا جائے جب آپس کے اختلافات نہ ہوں۔
یہ بھی ہمارے لیئے کسی المیے سے کم نہیں کہ ہم کاروباری معاملات سے لیکر شادی بیاہ تک دوستی یاری سے لیکر غمی خوشی تک ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کا احترام اور خیال بھی رکھتے ہیں لیکن جونہی بات مسلک کی آتی ہے ہم ایک دوسرے کے لیئے کافر ہوجاتے ہیں اور اسی کافر کافر کے کھیل سے دشمن خوب فائدہ اٹھا رہا ۔مقامِ افسوس ہے کہ بے کار قسم کی رسوم و رواج اپنانے میں تو ہم ایک ہیں لیکن جہاں بات مذہب کی آتی ہے وہاں ہم مسلک اور فرقے کے نام پر ایک دوسرے کے دشمن اور خون کے پیاسے بن جاتے ہیں۔آخر دین کے معاملے میں بٹوارہ کیوں ؟ جس دین کے لیئے میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قربانیاں دیں، صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی زندگیاں داؤ پر لگائیں ،آج اس دین کو ہم نے لاوارث چھوڑ دیا ۔حکم تو ہمیں یہ دیا گیا تھا کہ دین کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔لیکن ہم اس معیار پر پورے نہ اترے، آج ہم رونا  روتے ہیں کہ کافر میرے دین کا میرے پیغمبرﷺ کا ببانگ دہل مذاق اڑاتاہے، ہجوکرتا ہے اور نت نئے طریقے اپناتا ہے۔دوسری دنیا کے کافر کو تو چھوڑیں ہمارے اپنے اسلامی ملک میں بیٹھ کر دشمن میرے اسلاف کے کردار پر کیچڑ اچھال رہا ہے اور میں معذرت خواہانہ رویہ اپنا رہا ہوں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
یہ سب باتیں اپنی جگہ لیکن میں غیر کو جواب جب دونگا جب میں خود کو دین کی کسوٹی پر رکھ کر اپنا موازنہ کروں گا۔میرا اپنا معیار کیا ہے دین کے معاملے میں؟ میں قرآن و حدیث کے علاوہ کسی اور مسلک کی کتاب کو معیار حق سمجھتا ہوں؟ اپنے مسلک کے علاوہ کسی اور مولوی صاحب کو سننے کی اخلاقی جرات رکھتا ہوں؟ حقیقت میں سب سے بڑے گستاخ تو ہم ہیں کہ ایک مولوی منبر پر بیٹھ کر قال اللہ و قال الرسول کی بات کرتا ہے اور مجھ جیسا نکماء اسے اس لیئے نہیں سنتا کہ اس پر کسی ایک مسلک کی چھاپ ہے۔ آؤ پہلے اپنے اختلافی مسائل دور کریں ،خود اچھے مسلمان بنیں۔اس کے بعد دشمن سے ڈنکے کی چوٹ پر بات ہوگی۔اسے یہ ہمت اور جرات ہوئی کیسے کہ وہ میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرے۔اس معاملے پر اگر ہمیں کوئی دقیانوسی کا طعنہ مارتا ہے تو اسے کھلی اجازت ہے کہ وہ مجھے دقیانوسی کہے یا انتہاء پسند کہے۔مجھے یہ قبول ہے لیکن اپنے نبیﷺ کی شان میں گستاخی قبول نہیں۔
یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس مسئلے کو عالمی سطح تک لے جائیں ورنہ اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ یہ کیسا معیار ہے جانچنے کا ؟ آپ روشن خیالی میں کسی کی ہتک کرتے رہو اس کے شعائر کا مذاق اڑاتے رہو کوئی قدغن نہیں لیکن جب مخالف جانب سے وہ آپ کو انتہاء پسندی کے چانٹےکراتا ہے تو پھر آپ اسے ہضم نہیں کرپاتے اور سالوں اس پر روتے ہو کہ یہ دہشتگردی ہے۔۔مسلمان دہشتگرد نہیں ،اسلام امن کا دین ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ شانِ رسولﷺ میں گستاخی کرنے والوں کے خلاف باتوں اور دعووں سے نکل کر عملی اقدامات کیئے جائیں تاکہ کسی کی اتنی جرات نہ ہو کہ ہمارے نبیﷺ کی شان میں گستاخی کرنے کا تصور بھی کر سکے!

Facebook Comments

Khatak
مجھے لوگوں کو اپنی تعلیم سے متاثر نہیں کرنا بلکہ اپنے اخلاق اور اپنے روشن افکار سے لوگوں کے دل میں گھر کرنا ہے ۔یہ ہے سب سے بڑی خدمت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply