کھیل کھیل

کرکٹ کا کھیل بلکہ ٹیسٹ میچ کہتے ہیں سب سے طویل کھیل ہے ۔ ہمارے ملک میں ایک ایسا کھیل ہے جو کم از کم تین سالوں تک کھیلا جاتا ہے۔ اس کھیل کو دیکھنے والے کم ہیں مگر کمنٹری کرنے والے بےشمار ہیں۔ اس کھیل میں دونوں ٹیمیں کھیلتی کم ہیں اور میڈیا والوں کو زیادہ کھلاتی ہیں۔ اس کھیل کی خاص بات یہ ہے یہ گراونڈ میں نہیں کھیلا جاتا ہے۔

دونوں ٹیموں میں ایک کھلاڑی ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کھلاڑی وہی کامیاب ہے جو خطروں سے کھیلتا ہو۔
ہم تو یہ کہتے ہیں جو بھی کھیلیں مگر قوم کی تقدیر سے مت کھیلیں۔ تین سالوں تک اپنے ہی گھر میں کھیلتے رہے، یہ نہ دیکھا گھر کے مکیں کس کے اشارے پر کھیل کھیل رہے ہیں ۔ کھیل کھیل میں گھر کی خوب صفائی کی مگر گھر کے دروازے آج بھی کھلے ہیں۔ جس کا دل کرتا ہے گھر میں گھس کر کھیل خراب کر جاتا ہے۔

نئے کھلاڑی کا انتخاب ہونے والا ہے مگر کسی کو اب تک نہیں معلوم کہ کون ہے ۔ پرانا کھلاڑی، بہت سے کھیل وہ کھیل سکتا تھا مگر نہیں کھیلا ۔ تجربہ کار لوگ یہی کہتے ہیں کھلاڑی کو شریف نہیں ہونا چاہیے۔ اس سے اسکے کھیل کی پرفارمنس پر اثر پڑتا ہے۔ اصل چیز تو میچ کی فیس اور انعام و اکرام ہیں۔ اگر میچ فکس ہو تو میچ کی آمدنی میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ لوگ آخر وقت تک یہی سمجھتے ہیں جو کھیل کھیلا جارہا ہے اصلی ہے۔
لوگ اصلی چہرے پہ نقلی چہرہ سجا لیتے ہیں قوم آخر وقت تک یہی سمجھتی ہے کہ کھلاڑی ہیں اور اصلی کھیل کھیلا جارہا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

قطری شہزادے کے خط اور نیشنل سکیورٹی بریچ کا جو کھیل کھیلا گیا، یہ وقت ہی بتائے گا اسکی آمدنی سے کون کون سے کھلاڑیوں نے فائیدہ اٹھایا ہے ۔ چند دنوں میں نیا کھیل شروع ہو جائے گا اور لوگ پرانے کھلاڑی کو بھول جائیں گے اور تالیاں بجا کر رخصت کر دیں گے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply