منحوس۔۔۔علی اختر

وہ کمرے کی صفائی کر رہی تھی اور ماریہ اسکے سر پر کھڑی تھی۔” دیکھو کونوں سے اچھی طرح دھول نکالنا ورنہ تم تو چلی جاؤ گی لیکن اماں میری کلاس لے لیں گی”
“جی باجی” نسرین نے مختصر سا جواب دیا اور پھر اپنے کام میں مصروف ہو گئیں ۔

نسرین گزشتہ چھ سال سے انکے گھر کام کرتی تھی۔ چار بیٹیاں تھیں اور ایک ذہنی معذوربیٹا جو نا بینا بھی تھا۔ سرائیکی پٹی کے کچے کے علاقے میں ہاریوں کے گھر پیدا ہوئی۔ پندرہ سال کی عمر میں کسی کے پلے باندھ دی گئی۔ مرد بھی ایسا ملا جو مزدوری کم اور نشہ زیادہ کرتا تھا۔ دو وقت کی روٹی کے لیئے کھیتوں میں جان مارتی رہی۔ اوپر سے ایک کے بعد ایک بیٹی کی پیدائش نے رہی سہی کسر بھی نکال دی۔ شوہر اسے اسی کی بدقسمتی سمجھتا اور روز طعنے دیتا کہ  یہ تیری  نحوسیت ہے جو مجھے اللہ نے  بیٹے سے محروم رکھا ہے۔ اور جب بیٹا ہوا تو وہ بھی ذہنی معذور اور نابینا۔ لیکن اولاد تو اولاد ہی ہے نا۔ بیٹا اور وہ بھی چار بیٹیوں کے بعد۔ ۔ اسے وہ سب سے عزیز رکھتی۔
پھر ایک دن سیلاب آیا اور وہ اپنے خاندان سمیت کنارے پر کھڑی اپنی کل متاع کو دریا میں بہتا دیکھتی رہی۔ قسمت گاؤں سے اٹھا کر کراچی کے آئی ۔

یہاں سیمنٹ سے بنی عمارتوں اور تارکول کی سڑکوں پر کھیت تو تھے نہیں ہاں گھر ضرور تھے جہاں اسے محنت کرنی پڑتی۔ جگہ بدلی لیکن قسمت اپنی جگہ رہی ۔کھیت کی گرم لو ٹھنڈے کمروں میں تبدیل ہو گئی  تھی۔ جان توڑ محنت کی جگہ جھاڑو پونچھا  نسبتاً کم محنت مانگتا تھا۔ اور گھروں سے ملنے والا بچا کچھا کھانا بچوں کے لیے  بھی مل جاتا تھا۔ بچے بیمار ہوں تو سرکاری ہسپتال سے علاج بھی مفت اور تو اور شوہر بھی رات کو تیل کی شیشیاں کھنکھناتے نکل جاتا اور تین چار سو کی دیہاڑی بنا لیتا ۔

ماریہ کے گھر بھی وہ صبح نو بجے ہی پہنچ جاتی اور اماں نے یہ اس سے کام کرانے کی ذمہ داری ماریہ کو دے رکھی تھی۔ اب عورتیں ہوں اور خاموش رہیں یہ تو ایک نا ممکن سی بات ہے سو باتیں بھی ہوتی  اور دوستی بھی ہو گئی  تھی۔ مریہ اسے اپنے نئے کپڑے وں کے ڈیزائن دکھاتی لباس کے رنگوں کا انتخاب کراتی۔ جواب میں نسرین بھی اسے اپنے گاؤں کے قصے سناتی ،اپنے بچوں کے قصے، شوہر کا بار بار، بدقسمت کہنا وغیرہ وغیرہ ۔ اس دوران کیسے کام ختم ہو جاتا پتا ہی نہیں چلتا اور وہ اپنے گھر چلی جاتی ۔

ماریہ شہر کی پڑہی لکھی ماڑرن لڑکی تھی۔ اچھے کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود اسمیں روائتی غرور نہ ہونے کے برابر تھا۔ اور طبیعت بھی انتہائی   نرم تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ  نسرین بھی اس سے فری ہو کر ہر طرح کی باتیں کرتی۔ اور وہ بھی کبھی دلچسپی سے اور کبھی دل رکھنے کو اسکی باتیں سنتی رہتی۔ ہاں ایک بات جو اسے پسند نہ تھی وہ نسرین کا بار بار خود کو بد قسمت کہنا تھا ۔ وہ جب بھی وہ اس طرف گفتگو لیجاتی تو ماریہ اسکا ذہن بٹانے کی غرض سے کوئی  اور بات چھیڑ دیتی۔ اسے بار بار یہ بات سن کر کوفت ہوتی تھی۔

” باجی ! جب جب میں گھر جاتی ہوں تو اپنے بیٹے کو پیار کرتی ہوں ۔ پورا دن تو وقت ملتا ہی نہیں ۔ لیکن اگر میرا میاں دیکھتا ہے تو مجھے گالیاں دیتا ہے۔ اور کبھی مارتا بھی ہے۔”
اس نے دوپٹے کے پلو سے آنکھیں پونچھتے ہوئے کہا۔ ” کہتا ہے ایک بیٹا پیدا کیا اور وہ بھی اندھا اور پاگل۔ اسے پالنے سے بہتر کے کے یہ مر جائے”۔ وہ کہتا ہے “یہ تیری ہی منحوسیت ہے جو ایسا اپاہج پیدا ہوا” .
“ارے ایسی باتیں نہیں کرتے” ماریہ نے اسے چپ کرا دیا “کوئی  منحوس نہیں ہوتا ۔ اولاد اللہ کی دین ہے۔ وہ بہتر سمجھتا ہے کے کسے کیا دینا ہے” ۔
اس طرح نسرین کو بھی کچھ ڈھارس ہوتی اور ماریہ بھی کو بھی سکون ملتا۔ کبھی کبھی تو ماریہ سوچتی کے یہ باتیں اسے ذہنی مریض بنا دینگی۔ اسکے ذہن پر بہت گہرا اثر ہوتا اور وہ نسرین کے جانے کے بعد بھی اسی کے بارے میں سوچتی رہتی ۔

اسکی  نحوسیت اور اس پر ہونے والے ظلم کی داستانیں سنتے سنتے ماریہ کے دل میں اسکے لیئے انتہائی  نرم گوشہ پیدا ہو چکا تھا۔ اگر گھر میں کوئی  نسرین کو ڈانٹتا تو اسے بالکل اچھا نہیں لگتا تھا۔ اماں کی تو خیر تھی لیکن بھابی اکثر اسے ڈانٹ پلا دیتی تھیں ۔ کبھی چھٹی کرنے پر تو کبھی کبھی کام صاف نہ کرنے پر اسکی کلاس ہو جاتی ۔ بھابی کے ڈانٹنے کے بعد ماریہ اسے تسلی دیتی اور اسکا موڈ اچھا کرنے کے لئے کچھ ہنسی مذاق بھی کرتی تھی۔

آج کام کرتے ہوئے نسرین نے اچانک بولا ” باجی بڑی بیٹی کا رشتہ آیا ہے۔ لڑکا اپنا کاروبار کرتا ہے کباڑ کا ۔ میں سوچ رہی ہوں اگلے مہینے بیاہ دوں” “ارے واہ . یہ تو بہت اچھی خبر ہے” ماریہ نے خوش ہوکر کہا۔ “میں اپنے پرانے کپڑے نکال دونگی بہت سارے ۔ اور جو شادی بیاہ میں پہنے کے ہیں وہ بھی دونگی. اماں سے بول کر اسٹیل کے برتن بھی دلادونگی اور پیسے بھی”
” ہاں اور اسی بہانے مجھ جیسی منحوس ماں سے بھی جان چھوٹے گی اسکی۔ ” نسرین حسب معمول بات اپنی منحوسیت پر لے آئی  تھی۔ “ارے یار ۔ خوشی کے موقع پر بھی وہی پرانی باتیں ۔ چھوڑو سب شادی کی باتیں کرتے ہیں ” ماریہ نے بات بدلی اور پھر واقعی شادی ہی کی باتیں ہونا شروع ہوگئیں ۔ اور پھر ایک دن شادی ہو بھی گئی  اور نسرین کی باتوں میں اب اسکی بیٹی اور اسکے داماد کے قصوں کا بھی اضافہ ہوگیا۔

“باجی وہ میری بیٹی کو مارتا ہے ۔ کہتا ہے جب سے تو آئی  ہے میرا کاروبار ختم ہو گیا ہے ۔ کہتا ہے تو بھی اپنی ماں کی طرح منحوس ہے” اسنے آج ایک نئی  بات بتائی ۔
“تم اسے سمجھاؤ کہ  یہ  نحوست کچھ نہیں ہوتی اور اگر پھر بھی باز نہیں آتا تو پولیس کو فون کردو۔ ایک بار چھتر لگیں گے تو سیدھا ہو جائے گا ” ماریہ کو غصہ آگیا تھا ۔
” باجی ایسا کیا تو وہ میری بیٹی کو گھر سے نکال دیگا ۔ پھر اسے کون پالے گا۔” اب ماریہ کیا جواب دیتی بس اسکے داماد کی جہالت اور بیٹی کی بے بسی پر کڑھنے کے سوا کیا کر سکتی تھی۔

نسرین کی بیٹی امید سے تھی۔ معاملہ قریب تھا اور بیٹی کا شوہر سخت سو نسرین آج کل دن اپنی بیٹی کے گھر گزارتی کے شوہر کے آنے پر کھانا وغیرہ تیار ملے اور اسے شکایت کا موقع نہ ملے ۔ ماریہ کے گھر کام کے لیئے اسکی دوسری بیٹی آرہی تھی ۔ لگ بھگ تیرہ سال کی بچی بہت کم گو تھی اور خاموشی سے اپنا کام کرتی لیکن ماریہ وقتاً فوقتاً اس سے نسرین کے حالات پوچھتی رہتی تھی۔

وہ بچی بھی تین دن سے غائب تھی۔ بھابی کا غصہ عروج پر تھا۔ وہ بار بار کچن کی سنک میں بھرے گندے برتن دیکھتیں اور پھر غصہ میں اسے کوستیں ” آنے دو اسکو میں خبر لیتی ہوں ” ۔ ماریہ بھی گھر کے کام نمٹا رہی تھی لیکن اسے اس بات کی فکر تھی کے بچی کے آنے پر اسکی ڈانٹ پڑے گی۔ پتا نہیں کیا مجبوری ہو ۔ اسکے دل میں خیال آرہے تھے لیکن وہ جھٹک دیتی تھی۔

چوتھے دن وہ بچی کام پر آگئی  اور خاموشی سے صفائ کرنا شروع ہو گئی  ۔ ابھی بھابی سو کر نہیں اٹھی تھیں سو ماریہ اور وہ ہی تھے ۔ بچی آج معمول سے زیادہ خاموش تھی۔ “خیریت تو ہے ۔ تین دن سے غائب ہو گھر پر سب صحیح تو ہے۔نسرین کیسی ہے ” ماریہ کے سولات پر وہ بچی بولی ” اماں گھر آگئی  ہے ۔ اسکی طبیعت خراب ہے” ۔ “اور تمہاری بہن” ۔ماریہ نے سوال کیا

“آپی کا بیٹا ہوا ہے ۔ وہ بھی ہمارے ساتھ ہی ہے۔ اسکے میاں نے اسے نکال دیا” بچی کام کرتے ہوئے بولتی جا رہی تھی۔ “اسکا بیٹا بھی ہمارے بھائی  کی طرح اندھا ہے۔ اسکا میاں کہتا ہے تو بھی اپنی ماں کی طرح منحوس ہے۔ اب اسی کے ساتھ رہ۔ ” ماریہ کو لگا جیسے اسکے جسم میں جان باقی نہ ہو ۔ وہ بچی کو دیکھ رہی تھی جس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۔ ماریہ خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی گئی اور بستر پر بیٹھ گئی  ۔ اچانک چھماکے کی ایک آواز اسے خیالوں کی دنیا سے باہر لے  آئی۔

کچن سے بھابھی کے چیخنے کی آوازیں آرہی تھیں ۔ ” ہائے میرا ڈنر سیٹ۔ مہارانی تین دن بعد کام پر آئی  اور آتے ہی پیالہ توڑ دیا۔ پورا سیٹ خراب ہو گیا۔ ہاتھ پیچھے ہٹا اپنے” ساتھ ہی چٹاخ سے ایک تھپڑ کی آواز گونجی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ماریہ تڑپ کر اٹھی اور کچن کی طرف دوڑی۔ وہ بچی کچن کے سامنے کھڑی تھی ۔ اسکا ننہا وجود لرز رہا تھا۔ ماریہ نے جھک کر اسے سینے سے لگا لیا ۔ بچی کے زور زور سے دھڑکتے دل کی دھمک اسے اپنے سینے میں گڑتی محسوس ہو رہی تھی۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply