میرا گھر کونسا؟۔۔۔۔۔فوزیہ قریشی

میں ایک ایسے گھر میں آنکھ کھولتی ہوں جہاں مجھ سے پہلے بھی چار بیٹیاں موجود ہیں۔ میرے پیدا  ہوتے ہی ہر طرف ایک آہ و بکا شروع ہو جاتی ہے۔
“ہائے نی پیڑئے فیر کڑی ھوگئی”( ہائے پھر لڑکی  ہو گئی)
کچھ سہیلیاں اور رشتے دارنیاں میری اماں کو ایک مخصوص نام رکھنے کا مشورہ دیتی ہیں۔ جس کے بعد شرطیہ بیٹا ہوتا ہے۔میری معصوم ماں روایات کے بندھن میں اس قدر جکڑ چکی ہے کہ وہی کرتی ہے جو اس کے کانوں میں ڈالا جاتا ہے۔۔
میں یہی سنتے سنتے چار سال کی ہو جاتی ہوں کہ یہ تو بیٹیاں ہیں انہیں کام سکھا۔ گھر داری سکھا۔ انہوں نے اگلے گھر جانا ہے۔ یہ گھر ان کا نہیں ہے۔ یہ یہاں مہمان ہیں۔
میں اکثر سوچتی ہوں کہ پھر میرا گھر کونسا ہے؟۔۔۔۔

چار سال بعد میری اماں کے بھاگ کُھل جاتے ہیں اور ہمارے گھر ننھا فرشتہ آجاتا ہے۔ ہر طرف خوشیاں ہی  خوشیاں پھیل جاتی ہیں۔ ولی عہد کی پیدائش پر موتی چُور کے لڈو محلے بھر میں بانٹے جاتے ہیں۔ شہزادے کو پھولوں کی طرح رکھا جاتا ہے۔ ہمیں سب کو تاکید کی جاتی ہے۔ بھائی ہے، خاندان کا وارث ہے۔۔۔ اس کا خاص خیال رکھا جائے۔ ایسا ہی ہوتا ہے۔ میرے ابا کو فرق نہیں پڑتا کہ ہم لڑکیاں ہیں۔ وہ ہ میں انسان سمجھتے ہیں ۔۔۔

لیکن! یہ جوعورت ہے نا کبھی کبھی ماں بن کر بھی دوسری عورتوں کی باتوں میں آجاتی ہے۔ اس کے لئے ہم صرف بیٹیاں ہیں۔ جنہوں نے اگلے گھر جاکر صرف چولہا چوکا کرنا ہے اور ماں کی ذمہ داری بھی اس وقت تک ہی ہے کیونکہ اس کے بعد وہ کسی اور کی میراث بن جاتی ہیں۔ والدین کے حقوق و فرائض ختم ہو جاتے ہیں۔ اب وہ اس کے ساتھ سیاہ کرے سفید کرے۔ اس کا حق ہے کیونکہ وہی اس کا مالک  ہے ۔۔ غرض کہ  بیٹی چار کلموں، چند دعاؤں   کے ساتھ رخصت کر دی جاتی ہے کہ بس اب وہاں سے مر کر ہی نکلنا۔

وقت گزرتا ہے میرے دو بھائی اور  آ جاتے ہیں۔ اماں خوش ہے کہ بیٹوں کی جوڑی بن گئی ہے۔ ہم اسی استحصال کے ساتھ جوان ہو جاتی ہیں۔ کھانے پینے سے لے کر اٹھنے، بیٹھنے ، دیکھنے ،سننے اور بولنے تک مذہبی کم اور معاشرتی تربیت زیادہ کی جاتی ہے۔ صبر، ایثار، قربانی،برداشت اور تکلیف صرف اور صرف ہمیں سکھائی جاتی ہے۔۔۔ ہمارے سوال اٹھانے پر جواب ملتا ہے کہ وہ لڑکا ہے اور تم لڑکی۔ تم یہاں سدا نہیں رہوگی۔ تمہاری تربیت ضروری ہے تم نے اگلے گھر جانا ہے۔ دھوپ   چھاؤں برداشت کرنی ہے۔

مجھ سمیت میری باقی بہنیں بھی اسے اپنی تقدیر سمجھ کر سہتی ہیں۔ پھر سب سے بڑی بہن کی شادی کی باری آتی ہے۔ اسے اس کی مرضی پوچھے بغیر ایک کھونٹے  کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے۔نکاح والے دن اس کے چہرے کے تاثرات چیخ چیخ کر بتا رہے ہوتے ہیں کہ یہ نکاح اس کی مرضی سے نہیں کیا گیا۔
لیکن!! اس کی سنتا کون ہے؟
سب تو مایوں ،مہندی اور بارات کی رنگ رلیوں میں کھوئے ہوتے ہیں۔ ایسے میں وہ چپ چاپ یہ کڑوا زہر بھر لیتی ہے۔ اسے یہ نصیحت کرکے بھیجا جاتا ہے۔۔۔ وہاں سے مر کر ہی نکلنا ۔۔۔اب یہ مجازی خدا  ہی تمہارا سب کچھ ہے۔
پھر دوسری کی باری آتی ہے اسے ایک بڑی عمر کے مرد کے ساتھ بیاہ دیا جاتا ہے۔ وہ بھی چپ کرکے اس کھونٹے  سے بندھ جاتی ہے۔۔ دو برس ہی بمشکل گزرتے ہیں کہ بیٹی باپ کے نام ایک فریادی خط لکھتی ہے۔ خط کسی نہ کسی طرح باپ تک پہنچ جاتا ہے۔ جس میں تحریر ہے کہ اس پر ظلم کیا جاتا ہے ۔۔ اس کا مجازی خدا اسے سگریٹ سے داغتا ہے۔۔۔۔ نشے کی حالت میں گھر آتا ہے۔ رات رات بھر باہر رہتا  ہے۔۔ پوچھنے پر اپنی ساری بھڑاس اس کے کمزور وجود پر نکالتا ہے۔ بابل میں اب تھک گئی ہوں۔ مجھے پناہ میں لے لے۔ بس ایک بار بتا دے “میرا گھر کونسا ہے”؟

جب تک میری بیٹی نہیں ہوئی تھی میری برداشت سلامت تھی لیکن اس ننھی جان کی خاطر مجھے اس ماحول سے آزادی چاہیے۔۔۔۔۔ نہیں تو میں ذہنی مریضہ بن جاؤں گی۔ باپ اس کا خط پڑھتا ہے اور ماں کو ساتھ لے کر اپنی بیٹی کو گھر لے آتا ہے۔ بیٹی کی تکلیف کو دیکھتے ہوئے مجبوراً  خلع لے لی جاتی ہے۔

یہ غلیظ معاشرہ اور اس میں بندھے ذہنی مریض اس کی زندگی عذاب کر دیتے ہیں۔ ماں جو کہ پہلے ہی باقی بیٹیوں کی شادی کے لئے پریشان ہے۔۔ اسے اب گھر آئی بیٹی ایک بھاری پتھر لگتی ہے۔ اس کا اٹھنا ،بیٹھنا، کھانا پینا اور بولنا چالنا گھر کے ہر فرد کو تکلیف دیتا ہے۔ معاشرے کی زباں بہن ۔بھائی، چچا ،ماموں ،خالہ اور پھوپھو کے ادہان سے پھولوں کی طرح جھڑتی ہیں اور وہ پل پل اس کی تکلیف محسوس کرتی ہے اور بارہا بس یہی سوچتی ہے کہ
“اُس کا گھر کونسا ہے”؟۔۔۔۔۔

کبھی کبھی ماں کو ترس آتا ہے لیکن وہ بھی اس معاشرے کے ہاتھوں مجبور  ہے۔ جس نے اس کے دل کو بھی پتھر بنا دیا ہے۔ غرض کہ تیسری بیٹی کا رشتہ کر دیا جاتا ہے۔ تیسری، دوسری سے سبق سیکھتی ہے اور اپنے مجازی خدا کو چند دنوں  ہی میں سمجھ کر اسی کے رنگ میں ڈھل جاتی ہے بلکہ پیا کے من کی رانی بن جاتی ہے۔ پیا کی رانیاں ہی سسرال میں عیش کرتی ہیں کیونکہ ان کا مقام اور حیثیت ان کا پیا ہی بناتا ہے۔ کچھ شکل اچھی اور کچھ نصیب ساتھ دیں تو بیٹیوں کے گھر آباد ہو ہی جاتے ہیں۔ اب وہ اٹھتے بیٹھتے صرف ایک  ہی دعا کرتی ہے۔
” یا اللہ  مجھے بیٹی مٹ دیجئو۔”
میں ساری عمر تیری عبادت اور شکر گزاری میں گزار دوں گی۔ اس کی دعا پوری  ہوتی ہے. اللہ اسے بیٹوں سے  ہی نوازتا ہے۔

دوسری کی بھی دوبارہ شادی ہو جاتی ہے لیکن نصیبوں کے آگے کسی کی نہیں چلتی ۔ اس بار آباد تو ہو جاتی ہے لیکن اپنے سے جُڑے سبھی رشتوں کو گھسیٹنا ہی اس کی مجبوری ہے۔۔
پھر چوتھی کی شادی کی باری آتی ہے۔ اسے بھی جس کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے وہ ایک ذہنی مریض ہے۔ دوسری سے بھی بُرا حال اس کے ساتھ  ہوتا ہے۔

ایک دن اس کا پاگل مجازی خدا اسے طلاق دے دیتا ہے۔ اس طرح دوسری بار ایک بھاری پتھر جسے اس ماں نے خدا خدا کرکے رخصت کیا تھا۔ پھر سے سینے پر مونگ دلنے آجاتا ہے۔۔ یہ پتھر اپنی کوکھ میں ایک بچہ لے کر آتا   ہے۔ ماں جس کا کلیجہ بہت سخت تھا اب برداشت نہیں کر پاتا اور پہلی کاری ضرب اس کے جگر پر لگتی ہے۔ اس کے نرم دل کو اسی معاشرے کی بیہودہ روایات نے پتھر بنایا تھا۔اس میں کریک آجاتا ہے۔

پھر پانچویں کی شادی ہوتی ہے وہ بڑی بہنوں کی حالت دیکھ کر خود کو اپنے  پاؤں پر کھڑا کرتی  ہے تاکہ مشکل حالات کا مقابلہ کر سکے۔ ایم بی اے کرتی ہے اور جاب کرنا شروع کر دیتی  ہے لیکن ماں ساری عمر گھر میں نہیں بٹھا سکتی نا اس کے بھی ہاتھ پیلے کر دیے  جاتے ہیں۔
سچ ہی کہتے ہیں بیٹیوں سے نہیں ان کے نصیبوں سے ڈر لگتا ہے۔ اس کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح  ہوتا  ہے بس حالات تھوڑے مختلف  ہوتے ہیں۔ اسے بھی طلاق دے کر گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ اس کی اولاد نہیں  ہوتی کیونکہ نامرد اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں تھا لیکن زور زبردستی،طاقت،ظلم و جبر سب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اف وہ ماں ایک بار پھر اسی تکلیف سے گزرتی ہے۔
ماں باپ کے کلیجے پر کیا گزرتی ہے؟

یہ تو وہی جان سکتے ہیں جن پر گزر رہی ہوتی ہے۔ دل پر لگے بار بار کے وار ماں کو موت کے منہ تک پہنچا دیتے ہیں۔ اور وہی بظاہر سخت نظر آنے والی  ماں اس بار ٹوٹ جاتی ہے۔
وہ تو ماں تھی سخت کیسے ہو سکتی تھی؟
اسے تو اس معاشرے نے سخت بنایا تھا۔ ان طعنوں نے سخت بنایا تھا۔
جو پانچ بیٹیوں کی پیدائش پر اسے کتنی بار سننے پڑے تھے؟
آخر ایک ماں ہار جاتی ہے اور یہ معاشرہ اور اس کی فرسودہ روایات ہمیشہ کی طرح پھر سے جیت جاتی ہیں۔
اس بار میں سوچتی ہوں میں بھی واپس آ گئی ہوں اگر وہ میرا گھر تھا تو میں اس کی مالکن کیوں نہیں تھی؟
اگر یہ میرا گھر ہے تو مجھے یہاں سے کیوں بھیجا گیا تھا؟

آخر میرا گھر کونسا ہے؟
ہے کسی کے پاس میرے اس سوال کا جواب ہے ۔
نہیں نا کیونکہ عورت کا کہنے کو تو تین تین گھر ہوتے ہیں باپ کا، شوہر کا اور بیٹے کا لیکن حقیقت میں اس کا کوئی گھر نہیں ہوتا۔
وہ پیدا کہاں ہوتی ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

بچپن اور جوانی کے چند دن گزارتی ہے اور پھر اسے کسی میراث بنا کر دے دیا جاتا ہے۔ وہ صرف اپنی زمہ داریاں نبھاتی ہے۔ قربانیاں دیتی ہے کبھی والدین کے لئے کبھی سسرال کے لئے تو کبھی بچوں کے لئے اور ایک دن وہ انہیں چند گھروں میں سے کسی ایک گھر میں مر جاتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply