او کچھ تو بولو ۔۔۔ معاذ بن محمود

کوئی خاص بڑی بات نہیں۔ بحیثیت قوم ہمارا خاصہ بن چکا ہے کہ توجہ کے بھوکوں کو چن چن کر توجہ دیتے رہیں۔ ابھی پچھلے دو دنوں میں دو رفقاء نے کچھ اس قسم کی حقیقت ہم پر آشکار کی کہ تمہاری پوسٹ میں جان نہیں کیونکہ اب تک فقط ۱۳ لائیکس آئے ہیں۔ ایک صاحب سے بالمشافہ ملاقات کا شرف حاصل تھا تو ہاتھ ہلکا رکھا، مگر بار بار کے اصرار پر تشفی کروا دی گئی کہ میاں یہ لائیکس شئیر کے دھندے سے ہم آزاد ہیں۔ دوسرے مومن مطلق حضرت کو چند بھائیوں نے گھیر لیا کہ لائیکس سپاہ صحابہ کے سب سے زیادہ ہوتے ہیں پھر ان کے بیانیے کو حق سچ سمجھ لیتے ہیں۔ محترم آئیں بائیں شائیں کرکے ہائے ہائے کر گئے۔ حقیقت بہرحال یہی ہے۔ یہ دونوں حضرات ہمارے معاشرے کی عمومی ذہنیت ضرور واضح کر گئے کہ حق سچ کا مروجہ معیار لائیکس، شئیرز اور ری ٹویٹ ہوا کرتا ہے۔ سوشل میڈیا کی حد تک عوام الناس و عوام الخناس دونوں کی ذہنیت قریب قریب یہی ہے۔ مین سٹریم میڈیا پر ٹی آر پی کی ریٹنگ کا مقابلہ جاری رہتا ہے۔ مقولہ مقبول یہ ہے کہ جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے سو “آپ کہتے ہیں تو ٹھیک ہی کہتے ہوں گے” لکھنے پر مجبور ہوں۔

کچھ غیر ضروری یدھ میں شریک رہنے، میکائیل بن معاذ کی دنیا میں آمد اور پھر عید کے موقع پر اہل خانہ کی ڈرائیوری کی عارضی ملازمت سے فراغت پاتے ہی محسوس ہوا کہ زندگی بڑے دنوں بعد ایسا سکوت اختیار کر رہی ہے کہ ہم واپس میلان کنڈیرا، خالد حسینی، مراکامی اور ارندھتی رائے کی جانب متوجہ ہو پائیں گے۔ ارتکاز کے دشمنوں سے مگر نبرد آزما ہونا آسان کام کہاں؟ ابھی کنڈیرا کا حسین ناول ۴۱% ہی پڑھ پائے تھے کہ سوشل میڈیا پر وینا ملک کے حق میں کچھ شور سنائی دیا۔ گماں ہوا پٹواری بھائیوں نے پھر کوئی شرارت کی ہے۔

مگر پھر خیال آیا کہ سکرین شاٹس کا زمانہ ہے، کیوں ناں وینا جی کی ٹویٹری خطِ زمانہ کو کھنگالا جاوے کہ بی بی کے حق میں حق گوئی آساں ہوجائے۔ تھوڑی سی محنت ہوئی اور معلوم یہ ہوا کہ مسئلہ پٹوار کا نہیں بلکہ اہل زراعت کی جانب سے ایک بار پھر جنگ کی پانچویں نسل ساشے پیک میں مارکیٹ میں لائی گئی ہے۔

معاملہ کچھ یوں ہے کہ وینا جی ہم سب کو امید سے کر کے، ہندوستان پدھارنے کے بعد، زمان و مکاں پر آئی ایس آئی کے نشان چھوڑ کر، اور ایک بھرپور قسم کے فلاپ فلمی کیرئیر کی معراج پا لینے کے بعد گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کر چکی تھیں۔ راقم کے لیے وہ تب بھی قابل احترام ستارہ تھیں جب وہ ہم سب کو امید سے کیا کرتی تھیں، تب بھی جب وہ خٹک صاحب سے شادی کر کے محترم طارق جمیل سے رجوع کرنے کے بعد ایک خاموش زندگی بسر کر رہی تھیں۔ ہمیں اب بھی ان کی نجی زندگی، اداکاری یا ان کے کسی قسم کے اثاثہ جات سے مسئلہ نہیں ناں ہی ہم نے ان تمام قصے کہانیوں پر بات کرنی ہے۔

ہم تو بس اس حقیقت کی جانب توجہ مبذول کروانا چاہ رہے ہیں کہ حال ہی میں بول ٹیلی وژن کی جانب سے ایک نئے پروگرام کا مژدہ سنایا گیا ہے۔ بول ٹیلی وژن کو تو آپ جانتے ہی ہوں گے؟ ارے وہی جس کی وجۂ تسمیہ عسکری کاسہ لیسی ہے، جو پرو اسٹیبلشمنٹ بیانیہ استوار کرنے اور عامر لیاقت کی لچر گفتگو مزید لفنگے طریق سے نشر کرنے میں مشہور ہے۔ جس کا بوساطت چوہدری نثار پچھلی حکومت سے چھتیس کا آکڑہ رہا ہے۔ جی اسی بول چینل نے اپنے اس نئے پروگرام میں وینا جی کو بطور میزبان متعین کیا ہے۔

مطلب؟

مطلب یہ کہ وینا جی واپس ستاروں کی دنیا میں قدم رنجہ ہونے کو ہیں۔ اور ستارے کیسے بنتے ہیں جانتے ہیں آپ؟ دھماکوں سے۔ تو بھیا یہ اٹینشن سیکر چینل کی جانب سے اٹینشن سیکر قوم کے لیے وہ اٹینشن ہے جو سیک کر کر کے قوم کو “چوروں، ڈاکؤوں” پر تبرہ ارسال کرنے میں آسانی فراہم کی جائے گی۔ وینا جی تب بھی قابل احترام خاتون تھیں جب انہی پاکستانیوں کے نزدیک وہ اپنے “اثاثے” ڈیکلئیر کر رہی تھیں اور وینا جی آج بھی قابل احترام خاتون ہیں جب وہ صاف شفاف پارٹی اور ابناء العساکر کا مقدمہ مریم نواز کو نشانہ بنا کر لڑ رہی ہیں۔ ۲۵ مئی ۲۰۱۹ سے پہلے تک وینا بی بی کا اکاؤنٹ سکون کی زندگی جی رہا تھا، اس کے بعد سے پبلسٹی سٹنٹس کی بدترین مثال ہے۔

لیکن اس احترام میں کمی پر محترمہ وینا ملک خود بضد ہیں۔

وینا ملک پر معترضین بولڈ اداکاری کی بنیاد پر اعتراض اٹھاتے ہیں جو عوامی سطح پر “فن” کے زمرے میں آتی ہے۔ میں بحیثیت مداحِ فنون لطیفہ اس اعتراض سے اختلاف کرتا ہوں۔ دو گھڑی نرم ترین گوشہ رکھ کر سوچیں۔ فن تو پھر فن ہے بیشک وینا ملک کا ہو، راحت فتح علی خان کا ہو، طاہر شاہ کا ہو، عامر لیاقت کا ہو، جانی سن کا ہو یا میا خلیفہ کا۔ توجیہ نکالنا آسان ہے۔

نجی زندگی کو زیربحث لانے پر البتہ گنجائش نکالنا مشکل ہے۔ مجھ سے پوچھیں تو میں فن اداکاری کے دوران کسی بولڈ منظر کی عکس بندی پر اعتراض رد کرتا ہوں۔ میں خان صاحب کی نجی زندگی جس کا میں ماضی میں ناقد رہا، اور جس پر میں رجوع کر چکا ہوں، پر پھبتیوں کو بھی رد کرتا ہوں۔ لیکن وینا ملک، ان کے حامیوں اور انصافی برگیڈ سے درخواست کرتا ہوں کہ وینا ملک کی کسی قسم کی مبینہ برہنگی کو فن اداکاری کا لباس پہنا کر، خان صاحب کے ماضی کو ان کی نجی زندگی قرار دے کر مریم نواز پر اڑائی جانے والی کیچڑ کے لیے آپ ہی کوئی جواز بتلا دیجئے کہ میں آپ لوگوں کے لیے احترام برقرار رکھوں؟ کہنے والے کہتے ہیں نجی گفتگو میں انہیں مریم سے لے کر بشری بی بی کے کردار تک ہر گھٹیا افسانے پر گفتگو کرنے کی اجازت ہے۔

حضور، “آپ کہتے ہیں تو ٹھیک ہی کہتے ہوں گے” مگر وینا جی کی جانب سے یہی سب پبلک ٹویٹس کے ذریعے ہوا ہے۔ ہمیں ناں سہی اپنی تالیف قلوب کے لیے کوئی نئی توجیہ لے آئیے مارکیٹ میں؟

Advertisements
julia rana solicitors london

او بولو تو سہی۔۔۔ او کچھ تو بولو!

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply