مکالمہ کا کتھارسس ۔۔۔۔۔۔جاویدخان

کہتے ہیں زمانوں پہلے یونان کی دانش گاہوں میں ایک سر پھرے دانش وَر نے یہ نسخہ دِیا کہ  اِنسانی جذبات جو اَندر ہی اَندر گھُٹ کر ہمارا ستیاناس کرتے رہتے ہیں۔اَگر اُنھیں زبان و بیان کاموقع دِیا جائے تو وہ دھواں بن کر ہمارے اَندر سے خارج ہو جائیں گے۔یوں اَندر کا اِنتشار،فساد مر جائے گا۔اور صلاحتیں بے نقاب ہوں گی۔یونانی دانش وَر کے اِس نسخے کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ڈرامہ،تھیٹر،فن بیان اور فن اداکاری کے سہارے ناآسودہ و آسودہ جذبات کے دھویں خارج  ہونے لگے۔تو ان بادلوں کی گھٹاؤں میں جہاں گھن گھرج ہو تی وہاں رھم جھم کی پھواریں،ساون رت کی بہاریں اور پپہوں،بلبلوں اور کوئلوں کی کوک،نالے اور نغمے بھی ہوتے۔
سُچے اور سچے جذبات کالوبان بھرادھواں باہر آنے کے لیے لفظوں کا سہارا لیتا ہے۔مقدس وید،پران،گیتائیں،رامائن،بائبل اور قرآن سُچے لفظوں کانام ہے۔صحت مندسماج کے لیے ضروری ہے کہ وہ صحت مند الفاط کاانتخاب کرے۔صحت مند سماج اصل میں صحت مند لفظوں کو ہی اظہار کا ذریعہ بناتا ہے۔بیمار سماج سے ہمیشہ صحت مند الفاظ دور رہے ہیں۔
ہمارے ہاں لفظی پہلوانی کے بعد میدان سرد پڑ جاتا تو جوش کے ٹھنڈے ہوتے ہی ہوش ،ہوش کے ناخن لیتا ۔پھر محبتیں،قہقہے گونج اُٹھتے اور چوپالیں،برآمدے بیٹھکیں،چائے خانے،گلی کوچے مُسکانیں بھرنے لگتے۔ماضی قریب ہی کی بات ہے جب کھیت کھلیانوں یا گلی کوچوں میں کوئی طبعی یا روحانی دھینگا مُشتی ہو جاتی تو ہلکی پھلکی چوٹوں کے ساتھ منہ  سے جھاگ بھی باہر نکلتا اور ذرا شام تک روح اور جسم پر سکون ہو جاتے۔
ہمارے یونانی دانش ور کی ایجاد ”کتھارسس“ مختلف شکلوں میں ہمارے ہاں رائج رہا۔نہ صرف ہمارے ہاں بلکہ ہر دیس، تہذیب اور سماج اپنے اپنے انداز سے کتھارسس کرتارہا۔پھر کہیں جاکر یونان والوں نے تھیٹر،سینمااور ان میں ڈرامے رواج دیے۔
ہمارے دوست مشتاق علی شان نے ایک مرتبہ کہا”یار تُم رانا کے اخبار میں کیوں نہیں لکھتے“ پتہ چلا انعام رانا ”سگے لاہورئیے“ہیں اب دور کے دیس میں بستے ہیں۔مگر اندر سے ہیں ”چوپالی“ قہقے لگانا،مستیاں کرنا،ہنسناا ور ہنسانااِن کا یہی کام ہے۔ایک ”پراسی کیوٹر“ کا دفتر کبھی کبھار چوپال بن جاتاہے۔
مکالمہ اپنی دو سالہ مدت میں انتہائی تیز رو ثابت ہُوا۔اس برقی اخبار کی رفتار پر برقی دنیا بھی انگلیاں دانتوں میں دابے حیران کھڑی ہے۔’شعلہ سالپک جائے ہے رفتار تو دیکھو‘یہ رفتار کتھارسس کی رفتار ہے۔جہاں طرح طرح کی بھاپ شستہ لفظوں میں بدل جاتی ہے۔
ماضی کے مقابلے میں انسان زیادہ پریشان ہے۔اس کی یہ پریشانی اب اجتماعی پریشانی ہے۔ایک فرد کا دُکھ ساری انسانیت کا دُکھ ہے۔ایسے میں ’کِسی مجادلے‘ کی جگہ ’مکالمے‘ کی ہی ضرورت ہے  زمین کاپانی،آب و ہوا،چاند اس کی چاندنی،سبزہ زار،وسائل سانجھا ورثہ ہیں۔آنے والی نسلیں انسانیت کی سانجھی اولادیں ہیں۔زمین اب ایک بڑی چوپال بن گیا ہے۔دن بدن اس ’چوپال‘ میں وسعت آئے گی۔حقے کے دھویں ہوے یا نہ ہوئے سینوں کے ابال بھی باہر آئیں گے۔تو ایسے میں یہ ’سانجھی چوپال‘جتنا جلدی ’مجادلوں‘ کو چھوڑ کر ’مکالموں‘ کاروپ دھارے گی اتنی جلدی ہی اس سیارے کا’کتھارسس‘ ہو گا۔
’مکالمہ‘ کی چوپال میں صرف ایک ’لاہوریا‘ ہی نہیں بیٹھا بلکہ اس چوپال میں گنگا جمنی لوگ،پورب،پچھم،گرونانک،شنگر اچاریہ،گوتم،بلھے شاہ،شاہ ہمدان اور حبہ خاتون کے دیس سے  لو گ آ آکر بیٹھتے ہیں اور اپنا دُکھ سکھ باٹنتے ہیں۔
’مکالمہ‘ کے سارے سلسلے اور سارے لوگ ہی پیارے ہیں۔معاشی،سماجی،سیاسی اور ادبی۔ہر ایک معیار قابل تحسین ہے۔جناب ستیہ پال آنند صاحب کا قسط وار سلسلہ ’کتھاچار جنموں کی‘ ایک بہترین اور دلکش سلسلہ ہے۔یہ ایک ادبی سفرنامہ ہے،خود نوشت ہے، تحقیق ہے اور تنقید بھی۔ہماری پرارتھنا ہے کہ مکالمے کی مختلف رنگوں اور آوازوں سے سجی یہ چوپال خوب پھیلے اور پھولے۔مکالمہ ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔ہاں انعام رانا کو اپنی اس چوپال کو پھر سے سنبھالنا ہوگا۔یہ چوپال جو ہم سب کی ہے۔”صبح کا بھولا شام کو گھر آجاے تو اُسے بھولا نہیں کہتے“۔ انعام رانا کو مکالمہ میں پھر سے خوش آمدید۔امید ہے کہ یہ ’چوپالی‘ اپنی چوپال اور اپنے خاندان (مکالمہ) سے پھر کبھی بغاوت نہیں کرے گا۔مکالمہ کی پوری ٹیم،لکھنے والوں اور قارئین کو مکالمہ کی دوسری سالگرہ مبارک۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply