میرا پیغام محبت ہے،جہاں تک پہنچے۔۔بلال شوکت آزاد

مسلمان کا ایمان کبھی پہاڑ ہوا کرتا تھا جس کی ہیبت سے طاغوت کا ایمان بجز دیکھ کر ہی ریزہ ریزہ ہوجاتا تھا لیکن آج مسلمان کا ایمان شیشے سے بھی نازک ہوچکا کہ طاغوت کے ایمانی کنکر بھی اس کو ریزہ ریزہ کرنے کو کافی ہیں۔

مطلب ساری انسانیت کے مذاہب کو ماننے والوں کے ایمان کو گھنٹہ فرق نہیں پڑتا ایک دوسرے کے تہواروں پر خوشی کا اظہار کرنے, میل ملاپ کرنے, مبارکباد دینے اور دسترخوان شیئر کرنے سے لیکن دوسری طرف مسلمان کے لیے دیگر مذاہب کے تہواروں اور دنوں پر قیامت صغریٰ  کا منظر بن جاتا ہے, ایک مسلمان کے دوشیزہ کی عزت سے بھی نازک ایمان پر بن جاتی ہے۔

ہمیں زعم ہے کہ ہمارا دین افضل اور کامل دین ہے لیکن واللہ یقین نہیں ہے اسی لیے وہ اوچھی حرکات کرتے پائے جاتے ہیں جن کا دین اور امت کو ٹکے کا فائدہ نہیں ہوتا بلکہ الٹا نقصان ہی ہورہا ہوتا ہے کہ عامی غیر مسلم بھی ہماری ایسی نخوت اور تکبر سے بدظن ہوکر نفسیاتی طور پر حربی و ضربی بن جاتا ہے اور مسلمان سے نہیں بلکہ اسلام سے نفرت دل میں پال لیتا ہے حالانکہ اس کا مذہبی استحصال اسلام نے نہیں نام نہاد اور نخوتی و متکبر مسلمان نے کیا ہوتا ہے۔

مان کیا لیا بلکہ یہ میرے اور سب امت مسلمہ کا صیقل ایمان ہے کہ اللہ واحد و احد ہے جس کا کوئی باپ اور بیٹا نہیں الغرض اللہ واحدہ لاشریک ہے لیکن اسی اللہ اور اسکے رسول صل اللہ علیہ والہ وسلم کے توسط سے ہمیں اجازت اور علم ہے کہ ہم اہل کتاب سے دسترخوان بانٹ سکتے ہیں, لین دین کرسکتے ہیں, ان کی بیٹیوں سے برضا و رغبت نکاح کرسکتے ہیں, ان سے تجارت کرسکتے ہیں, ان کے ہاں ملازمت کرسکتے ہیں, ان کو ملازم رکھ سکتے ہیں, ان سے جنگی معاہدے کرسکتے ہیں اور مشترکہ دشمن کے خلاف مل کر لڑسکتے ہیں جیسا کہ اوائل اسلام سے لیکر آج تک ہوا اور ہورہا ہے اور آگے بھی بڑی جنگ کے وقت ہوگا۔

کیا اوپر مذکورہ اجازتوں میں اللہ اور اس کے رسول صلی  اللہ علیہ والہ وسلم معاذ اللہ معاذ اللہ معاذ اللہ یہ نکتہ فراموش تو نہیں کرگئے کہ دونوں اہل کتاب امتیں درحقیقت بدترین مشرک ہیں جنہوں نے اپنے اپنے محبوب نبیوں کو استغفراللہ معاذ اللہ, اللہ کا بیٹا مانا ہوا ہے اور ایمان کی حد تک یقین رکھا ہوا ہے؟

لیکن آج کا مسلمان اس نکتے کے کھونٹے سے بندھ کر ناصرف اللہ اور اس کے رسول صلی  اللہ علیہ والہ وسلم کی جانب سے ملی نرمیوں کو خود پر حرام کرچکا بلکہ دیگر باشعور اور داعی فطرت مسلمانوں کو بھی روکنے کی جستجو کر رہا ہے۔

آپ کے دماغ میں اب یہ بات کلبلا رہی ہوگی کہ ان نرمیوں اور اجازتوں میں ان کے تہواروں میں شمولیت کا تو ذکر ہی نہیں؟

جی بالکل نہیں ہے اور مجھے اس پر اعتراض بھی نہیں بلکہ ہوبھی نہیں سکتا کہ یہ منجانب اللہ ہے لیکن ان نرمیوں اور اجازتوں میں کہیں اس نرمی اور اجازت کا بھی ذکر نہیں کہ امت مسلمہ کو اہل کتاب کے تہواروں اور خوشیوں کو اپنی بے وقت کی راگنی الاپ کر خراب کرنے کی اور رنگ میں بھنگ ڈالنے کی اجازت ہے۔

اہل کتاب کو دین حق کی دعوت دینی ہے, ان کو توحید کے رموز و اوقاف سمجھانے ہیں تو ان کے قریب جانے کا جو بھی سدباب بنے وہ اختیار کرنے پر میرے ناقص علم کے مطابق ممانعت نہیں کیونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے جبکہ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی مسلمان غیر معیوب الفاظ میں کسی اہل کتاب کو ظاہراً مبارکباد دیکر اس کے دل میں جگہ بناسکتا ہے تو اس کا ایمان غارت ہوگا یا وہ مفسد الایمان ہوگا کیونکہ اسکی نیت ایسا کرنے میں بھی اگر یہی ہوئی کہ میں اس طرز عمل سے اس اہل کتاب کے قریب ہوجاؤں اور اسلام کا پرامن چہرہ پیش کرکے اپنے کردار کی دعوت دیکر باقی معاملات اللہ پر چھوڑ دوں تو یقیناً اللہ اس پر صرف خوش ہی نہیں مطمئن بھی ہوگا کہ میرے مواحد بندے نے حجت اتمام کردی اب یہ اہل کتاب مشرک اگر اسکی دعوت قبول کرتا ہے تو میں اسے ہدایت سے سرفراز کروں گا ورنہ روز محشر یہ میرا سامنا یہ کہہ کر تو نہیں کرسکتا کہ مجھے تو کسی نے بتایا ہی نہیں بلکہ الٹا مجھ سے دوری بنا کر رکھی گئی اور مجھ سے دور بیٹھ کر نفرت کی گئی تو میں کس سے اور کب پوچھتا سیکھتا یا دیکھتا کہ توحید دراصل ہے کیا؟

میرے بھائیو اللہ کے لیے یہ کراہت اور نفرت ان حربی و ضربی کافروں کے لیے رکھو جو جان بوجھ کر کفر پر چل رہے باوجود اس بات سے واقفیت کے کہ اسلام کیا ہے اور کفر کیا ہے, اور اسلام سے جنگی حالت میں ہیں۔

عامی اہل کتاب یا کافر کو تو وہی منظر دکھنا ہے جو ان کے حربی و ضربی کافروں نے دکھانا اور بتانا ہے لیکن ہم اس کا رد کیسے کرسکتے ہیں؟

نفرت, کراہت, دوری اختیار کرکے اور ان کے مخصوص دنوں پر آپے سے باہر ہوکر؟

میرے پاس میرے پیارے آقا حضرت محمد صلی  اللہ علیہ والہ وسلم کا ایک مبارک عمل ہے جو میری ناقص رائے کو دلیل بناتا ہے کہ مشکل دور میں اللہ سے عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور خالد رضی اللہ تعالی عنہ کی خواہش (ان تک دعوت پہنچانے کے بعد) کا اظہار کیا تو اس وقت وہ مسلمان نہ تھے بلکہ مشرک و دشمن تھے وہ بھی شدید لیکن اللہ نے ان کی فطرت جوکہ انسانیت پر تھی اور بیشک انسانیت اسلام کا ہی دوسرا نام ہے تو اللہ نے نبی ص کی خواہش اور دعا قبول فرمائی۔

ہمیں بھی ارد گرد بہت سے عمر اور خالد ملتے ہونگے لیکن ہم ان کو دعوت کے بجائے نفرت پہنچا کر انہیں خوامخواہ اپنا اور اللہ کا دشمن بنا کر سانس لیتے ہیں۔

دعوت دو, اللہ سے ہدایت کی دعا کرو جیسے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کی اور پھر اللہ پر چھوڑ دو لیکن خواہش دل میں شدت سے رکھو کہ وہ مواحد ہوجائیں اور امت مسلمہ کی طاقت بنیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

عمر اور خالد اب بھی پیدا نہیں ہوتے بلکہ ڈھونڈنے اور اللہ سے مانگنے پڑتے ہیں۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply