ایک عظیم اور مثالی شخصیت کی یاد میں۔۔۔عبدالرزا ق کھوہارا

موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ اس دنیا میں موجود ہر انسان، ہر ذی روح نے ایک نا ایک دن موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس فانی دنیا میں ہر چیز کی بنیاد ہے ماسوائے انسان کے۔۔۔ انسان جہاں تمام مخلوقات میں سے اشرف ہے وہیں زندگی کے معاملے میں سب سے بڑھ کر عدم یقینی کا بھی شکار ہے۔ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں کب کہاں کس حالت میں ساتھ چھوڑ جائے۔ ایک سانس کے بعد اگلا سانس لینا نصیب میں ہے یا نہیں اس کی کوئی گارنٹی نہیں، کوئی ضمانت نہیں۔

قدم قدم پر موت کو ساتھ لیے چلنے والا انسان بڑی دور رس پالیسیاں بناتا ہے۔ اپنے مستقبل کو سنوارنے کے جتن کرتا ہے۔ لیکن کون جانے یہ مستقبل دیکھنے کا موقع بھی ملے گا یا نہیں۔۔۔
سامان سو برس کا پل بھر کی خبر نہیں۔۔۔

دیکھا جائے تو انسان کی زندگی چند پل کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس کے بعد مادی وجود خاک میں مل جانا ہے۔ پیچھے رہ جاتی ہے تو صرف گزاری ہوئی زندگی یعنی طرز حیات۔۔۔ یہی وہ طرز حیات ہے جو طے کرتا ہے کہ آپ کے بعد لوگ آپ کو کن الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔ اگر آپ نے اچھے اخلاق اور اعلی میعار کے ساتھ ایک بہترین طرز حیات پر مبنی زندگی گزار لی تو یقین کیجیے اس دنیا سے جا کر بھی زندہ رہیں گے۔ کیونکہ وہ تمام اشخاص جن سے آپ کا کبھی نا کبھی واسطہ رہا ہو گا وہ آپ کو اچھے الفاظ میں یاد کریں گے۔ اور یہی الفاظ آپ کا سرمایہ حیات ہیں۔

جانا تو ایک نا ایک دن ہے ہی۔۔۔ تو کیوں نا ایسی زندگی گزاری جائے جو دوسروں کے لیے مثال بن جائے۔

دنیا میں بہت کم شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو کامل طرز حیات رکھتی ہیں۔ جن کا رہن سہن، ملنا جلنا، اٹھنا بیٹھنا، بات چیت، لب و لہجہ، اخلاق و تمیز۔۔۔ الغرض شخصیت کا ہر زاویہ کامل اور بے مثال ہوتا ہے۔

راقم الحروف کے والد صاحب جناب عبدالرزاق کھوہارا شہید بھی ایسی ہی چنیدہ شخصیات میں سے ایک تھے۔انہوں نے چمنستانِ حیات کو اپنی دیدہ وری سے منور کیے رکھا۔ ان کی شخصیت میں کوئی خام پہلو نہیں تھا۔ آپ کہہ  سکتے ہیں کہ شاید میں یہ الفاظ ایک بیٹا ہونے کے ناطے بیان کر رہا ہوں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہر وہ شخص جس نے کچھ وقت، خواہ چند لمحے ہی والد صاحب کی معیت میں گزارے ہوں ان کی تعریف میں رطب اللسان نظر آتا ہے۔

15 اگست 2018 کو دوران ڈیوٹی پیش آنے والے حادثے کے نتیجے میں والد صاحب تو ہمیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلے گئے اور داغ مفارقت دے گئے۔ لیکن اپنے پیچھے ایک ایسی زندگی چھوڑ گئے جو قدم قدم پر بحیثیت اولاد ہمارا سرفخرسے بلند کر دیتی ہے۔ صرف ہم ہی نہیں زمانہ بھی ان کی مثال دیتا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ اگر تمہارے والد صاحب نہ  ہوتے تو آج میں اس مقام پر نہ  ہوتا۔۔۔ تو کوئی کہتا ہے کہ یہ تمہارے والد صاحب کی ذات ہی تھی جنہوں نے زندگی کے ہر موقع پر بلا غرض و غایت مدد کی۔

غریب کیا امیر کیا، اپنے کیا پرائے کیا۔۔۔ہر شخص ان کی تعریف کرتا نظر آتا ہے۔ وہ تھے بھی ایسے۔۔۔ اخلاص ان کی شخصیت میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ تحمل، بردباری اور برداشت ان کا خاصہ تھے۔ نرم و شفیق لہجہ، صلح جو طبیعت، حسن اخلاق، زندہ دلی اور دور اندیشی و دانائی۔۔۔۔ ان سب خوبیوں سے مرقع تھے۔ رعب اتنا تھا کہ گاؤں میں بچے تو کیا بڑے بھی ان کی عزت کرتے تھے۔ ایک بار حکم دیتے تو چوں چراں کرنے کی کسی کو مجال نہ  ہوتی۔ شفیق اتنے کہ کبھی کبھار ہمیں بھی لگتا کہ وہ ہمارے باپ نہیں بلکہ دوست یا بڑے بھائی ہیں۔

والد صاحب کی زندہ دلی اور بذلہ سنجی کے سب ہی معترف تھے۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ اگر فوتگی پر بھی چلے جائیں تو “تعزیت” پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو بھی ہنسا دیا کرتے ہیں۔ وہ جس محفل میں بیٹھتے وہی کشت زعفران بن جایا کرتی۔ جب اٹھ کر جاتے تو دیر تک ان کا تذکرہ ہوتا رہتا۔ بابا فرید رح نے ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا تھا۔۔۔

دنیا اتے رکھ فریدا اینج دا بیہن کھلون
کول ہوویں تے لوکی ہسن دور جاویں تے رون

( دنیا پر اپنا اٹھنا بیٹھنا اس طرح رکھو کہ جب لوگوں کے پاس ہو تو وہ ہنستے رہیں۔ جب دورجاؤ تو تمہیں یاد کر کے روئیں)

والد محترم عبدالرزاق کھوہارا شہید بھی ایسی ہی شخصیات میں سے ایک تھے۔ جن کی صحبت ہر کسی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتی تھی۔ اور جدائی آنکھوں میں آنسو لے آتی تھی۔ انہیں ہم سے بچھڑے کئی ہفتے بیت گئے لیکن آج بھی انہیں یاد کر کے ہر آنکھ نم ہو جاتی ہے۔ پورے گاؤں، اردگرد کے علاقے حتی کہ دوردراز سے بھی جب کسی کو پتہ چلتا ہے تو تعزیت کے لیے فون آتے ہیں۔ اور یقین کیجیے لوگ والد صاحب کے حسن اخلاق اور دیگر خصائل بیان کرتے فون پر ہی رونے لگتے ہیں۔ شخصیت ہو تو ایسی ہو۔۔۔ جینا ہو تو ایسا ہو۔

مرنا ہم سب نے ہے لیکن ایک مثالی زندگی گزار کر جانا کسی کسی کی قسمت میں ہی لکھا ہے۔ والد صاحب ایسی ہی مثالی اور عظیم شخصیات میں سے ایک تھے۔ ہمیں ایک عظیم مثالی شخص کی اولاد ہونے پر فخر اور ناز ہے۔

واضح رہے کہ یہ سطور لکھنے کا مقصد صرف اپنے والد محترم کی تعریف کرنا یا ان کی یاد میں اپنا غم بیان کرنا نہیں بلکہ یہ باور کرانا ہے کہ اگر انسان چاہے تو آج کے دور میں بھی ایک مثالی زندگی گزار کر بعد میں آنے والوں کے لیے ہمیشہ ایک زندہ و جاوید مثال بن سکتا ہے۔

والد صاحب کی ذات میں موجود خوبیوں کا احاطہ کسی ایک مضمون میں نہیں کیا جاسکتا۔ میری کوشش ہو گی کہ ان کی شخصیت کے ہر پہلو پر علحیدہ مضامین کے ذریعے روشنی ڈالوں۔ وہ ایک مثالی باپ ہی نہیں مثالی بیٹے، مثالی خاوند، مثالی بھائی۔۔۔۔ حتی کہ ہر خونی رشتے میں اپنی مثال آپ تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ معاشرتی رشتوں میں بھی ان کا ثانی کوئی نہیں تھا۔ایک سچے عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ایک محب وطن مجاہد تھے۔ انہوں نے تمام زندگی اسلامی اصول و ضوابط کے مطابق گزاری۔

وہ لوگوں کے درمیان صلح کروانے والے اور انصاف میں توازن رکھنے والے ایک بہترین منصف اور پنجایتی تھے۔ لکھنے پر آئے تو اس روانی اور خوبصورتی سے لکھا کہ آج بھی ان کے الفاظ پڑھ کر دل عش عش کر اٹھتا ہے۔ بولنے پر آئے تو طالبعلمی سے لے کر پاک فوج میں ملازمت تک “بہترین مقرر” کے تمغات سے نوازے گئے۔

رحم دلی اتنی تھی کہ انسان تو کیا جانور کو بھی تکلیف میں نہ دیکھ سکتے تھے۔ تحمل اور بردباری ایسی کہ بڑے سے بڑے سانحات، پریشانیوں اور مسائل کا انتہائی خندہ پیشانی اور حوصلے سے سامنا کیا۔ مخیر اتنے کہ یتیم بچیوں کی پرورش، اور غریب طالب علموں کے اخراجات اس طرح اٹھائے کہ کسی کو کانوں کان بھی خبر نہ  ہوئی۔

اولاد کی تربیت کے دوران ہم نے انہیں ایک بہترین استاد کے روپ میں دیکھا۔ ایک بہترین شاگرد کیا ہوتا ہے۔۔۔ یہ ہمیں ان کے اساتذہ سے علم ہوا۔ ان کی قوت برداشت کا یہ عالم تھا کہ شدید ترین غصے میں بھی اپنے آپ پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتے۔ نفرت، کینہ بغض، حسد، عداوت اور منفیت جیسی بری عادات تو ان کے پاس سے بھی نہ گزری تھیں۔ ان کی طبیعت میں درشتگی کا شائبہ تک نہ تھا۔ وہ فطرتاً نرم دلی، سادگی اور سفید پوشی کا بھرم رکھنے والے انسان تھے۔

عبدالرزاق کھوہارا شہید مکمل طور پر سیلف میڈ انسان تھے۔ جس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ انہوں نے شعوری زندگی کی ابتداء ننگے پاؤں کئی کئی کلومیٹر پیدل چل کر تعلیم حاصل کرنے سے کی اور جب انہوں نے آخری سانسیں لیں تو ان کی تمام اولاد اعلی تعلیم یافتہ۔۔۔۔ اور گھر میں ضرورت سے بڑھ کر زندگی کی ہر آسائش دستیاب تھی۔

لگ بھگ ساٹھ سال کی مختصر زندگی میں اس مقام کو پانے کے لیے انہوں نے کون کون سے جتن کیے، بغیر کسی ریاکاری اور دھوکے و فریب کے، مکمل ایمانداری اور جہد مسلسل کے ساتھ کس طرح ناکام زندگی کو کامیابی میں بدلا یہ ایک الگ اور لمبی داستان ہے۔

میں نے والد محترم کے جتنے اوصاف اور خصائل بیان کیے ہیں ان شاءاللہ ان سب پر جیتے جاگتے کرداروں کے حوالوں پر مبنی مستند واقعات کے ساتھ علحیدہ سے مضامین تحریر کروں گا۔ تا کہ یہ بیان کیا جا سکے کہ جملہ خوبیوں کے ساتھ عملی طور پر زندگی کس طرح گزاری جا سکتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

والد محترم عبدالرزاق کھوہارا شہید کی ذات یقیناً ہم سب بہن بھائیوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہر اس شخص کے لیے قابل تقلید ہے جو ایک کامیاب اور بھرپور مثالی زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ ان شاءاللہ آئندہ آنے والی تحاریر میں ان کی شخصیت کے ہر نہاں و عیاں پہلو پر روشنی ڈالوں گا۔ دعا ہے کہ اللہ پاک ان کے درجات بلند فرمائے۔ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

Facebook Comments

ندیم رزاق کھوہارا
اردو زبان، سائنس، فطرت، احساس، کہانی بس یہی میری دنیا ہے۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply