• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • رودادِ سفر:زادِ راہ اور قتل گاہ۔۔۔۔۔۔محمد علی جعفری ایڈوکیٹ/قسط نمبر 5

رودادِ سفر:زادِ راہ اور قتل گاہ۔۔۔۔۔۔محمد علی جعفری ایڈوکیٹ/قسط نمبر 5

فرات کا کنارہ،نہرِ علقمہ، شط الفرات، طف،غاضریہ، نینوا، دشتِ الم و بلا، جائے کرب و بلا،

کربلا آگئی!!

“آجاؤ، نیچے۔ منت مراد پوری ہوگئی، کربلا آگئی۔۔۔۔۔”

سامان ڈھونے والے تین ٹین ایجر لڑکے بس کے ساتھ اپنی کاٹھی لے آئے تین پہیوں والی کیونکہ بس اندر نہیں جاتی اور قریباً ایک کلومیٹر کا سفر ہے۔تین میں سے ایک ابھی بھی نیند آنکھ مل رہا ہے کہ رات کے پونے دو بج رہے ہیں ، اس کے دوسرے ساتھی اسے عربی میں مطعون کر رہے، کہ فقط اٹھ مت؛جاگ پیارے!!!!

از خوابِ گران، خواب گران،خواب گران خیز!!!!!

نیچے آئے تو سامان کو دھینگا مشتی سے اٹھا اٹھا کر کاٹھی پر پٹخا جارہا ہے۔

آگے کنوئیر پر سامان اترواکر گزروایا گیا ،اور ایک ایک شے باریک بینی سے پرکھی گئی.

اس کے بعد جیسے ہی گلی آگے آئی، ابو الفضل العباس ابن علی، بنو ہاشم کے چاند کا سنہری قبہ پوری جلالت سے آنے والوں پر نظر رکھے ہوئے ہے،
سانس رک رک گئی، دل تھم تھم گیا،
اور سر خود ہی پرچم والے کے احترام میں جھک گیا!!!
میرے برابر کے ساتھی نےروتے روتے ہچکی لی،

سب نے کہا ،” اسلام علیک ایھا العبد الصالح، المطیع لللہ ولرسوله”

“بھائی یہاں نہیں سیدھے ہاتھ مڑو،شاہراہِ بغداد”, پیچھے سے آواز آئی”

“کوئی اس ریڑھی والی کا ہاتھ بٹا دے،سامان گرائے گا یہ”
اوردھڑام سے اک ٹرالی بمع اپنے متعلقین یعنی بڑے سامان کے زمیں بوس!!!!

“آپ لوگ اس کے ساتھ چلیں سامان آرہا ہے”

“یہ والا ہوٹل تو ٹھیک ہوگا ناں؟؟” ،”ہاں بھئی چلو تو”

ڈھائی بجے تک سب سیٹ ہوا اور کھانا میس میں چن دیا گیا،”واہ واہ نہاری” ،”یار یہ گوشت کس نے پکایا ہے؟کربلا میں گوشت مکروہ ہے اور عشاق پر حرام”

“وائی فائی کا پاسورڈ تو بتادو”،
یہاں نیٹ کنیکٹ کیا وہاں پندار کا صنم کدہ دوبارہ ہرا بھرا ہوا اور واٹس ایپ کی بھرمار،اور جوابِ آں غزل،

“امی میں ٹھیک ہوں،پاپا ہاں ہاں آپ کی والی 2009 کی کربلا بالکل بدل گئی ہے، ہاں خیال رکھ رہا ہوں، فضہ منی تمہاری ساس کے لیے دعا کروں گا کہ انہیں شفا و کاملہ و عاجلہ مستمرہ ملے،
بھائی جان کیسے ہیں؟ ”

“جی فرخ بھائی, نجف سے ساری زیارتیں کر کے آئے ہیں، ہاں سب اچھا ہے، آپ کی یاد ساتھ ہے”

“عدیل بھائی کربلا آگئی، کوئی حکم؟”…..

خیر،ما حضر چکھا اور سوئے حرم بڑھے۔

“واہ، یہاں سے مولا عباس کا حرم بس 80,90میٹر دور ہے”، ہاتھ بڑھایئے اور آسمان چھولیں۔۔۔۔

پروفیسر سبط جعفر شہید کا کلام یاد آگیا،

اے چاند کربلا کے،
تو نے تو دیکھیں ہونگے،
بکھرے تھے اس زمیں پر،
عرشِ بریں کے تارے،

محرم و صفر میں اس جگہ لگے ہرے قمقمے لال ہوجاتے ہیں اور مقتل گاہ میں کلیجہ بھی منہ کو آنے لگتا ہے،
میرے ساتھ مہدی نقوی تھا،میرا روم میٹ تھا، ہم پہلے اندر نہیں گئے بلکہ جائزے کے لئے حرم کے اطراف چکر لگایا،

خواتین،بچے سورہے ہیں، پورے پردے میں، کالی کالی چادریں۔۔۔۔انہیں کوئی فکر نہیں ہے، پردے کا محافظ اندر حرم میں آرام فرما ہے،

کچھ بچے کھیل رہے ہیں،

کچھ ضد کر کے بھیڑ کے گوشت میں پکی نیاز مانگ رہے ہیں۔مرد بھی سیڑھیوں پر بیٹھے سستا رہےہیں اور گاہوہ(قہوہ) کی چسکی بھر بھر کر باتیں بگھار رہے،

یہ کسٹم کا حصہ ہے کہ جب بھی کربلا میں آپ امام حسین کے روضے کا قصد کریں تو پہلے ان کے عملدار بھائی کو سلام کریں اور پرچم والے شیرِ جری کو سیلوٹ کریں تاکہ وہ کمانڈر انچیف سے ملاقات کا بندوست کروائیں!!

“آجا یہاں سے”, مہدی کہتا ہے،
ہم بین الحرمین سے نہیں بلکہ حضرت عباس کے بازو قلم ہونے والی جگہ کے پاس سے اندر گئے،
للنساء،للنساء ۔۔۔۔یہ بھی عورتوں کی انٹرنس ہےیار،

تیسرا دروازہ “للرجال”،آجا بھائی۔
تلاشی دی اور یہ آگئے اندر۔۔۔

کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے،
رن ایک طرف،چرخِ کہن کانپ رہا ہے
رستم کا بدن زیرِ کفن کانپ رہا ہے،
ہر قصرِسلاطینِ زمن کانپ رہاہے

شمشیر بکف دیکھ کر حیدر کے پسر کو،
جبریل لرزتے ہیں سمیٹے ہوئے ،پر کو!!!!

کیسے اندر جائیں سمجھ نہیں آرہا، پلکیں بچھائیں؟خود بچھ جائیں؟ حسین کے بھائی آپ پر سلام،
حاضری قبول کیجے!!

وہاں اک باب ہے، حضرت ام البنین سے منسوب جو حضرت عباس کی ماں ہیں، ان کا بھی نام فاطمہ تھا اور امیر المومنین کے ساتھ کوفہ میں رہتی تھیں، آپ کو خدا نے بیٹے دیے تو لوگوں نے بیٹوں کی ماں یعنی ام البنین پکارنا شروع کردیا۔

میں واپس ہوا تو الٹے قدم گیا، پیٹھ نہ دکھائی، نشیب سے اوپر جاتے ہوئے کہیں صاف ڈھلوان ہے،کہیں سیڑھیاں؛ میں سیڑھیوں والی طرف تھا، یکا یک قدم رپٹے تو گرا،ہاتھ خود بخود آگے آگئے اور عباس کی مظلومیت یاد آئی،
اس مردِ جری کے ہاتھ کٹے، جسم چھدا اور لاشہ پامال ہوا،
ام البنین جب یہاں زیارت کو آئیں تو غش کھا گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“اتنی سی قبر ہے میرے عباس کی؟”

“اب مجھے بیٹوں کی ماں کوئی نہ کہے، میری گود اشقیا نے اجاڑ ڈالی۔۔۔۔۔۔۔۔”

باہر آیئے تو کچھ گلیوں کے فاصلے پر وہ اسپاٹ ہیں جہاں ان کے ہاتھ فوجِ شام نے کاٹے، کف العباس الایمن و ایسر۔

کہتے ہیں کہ انہیں اپنے ہاتھ کٹنے، آنکھ میں تیر اور بدن پر گرز و نیزہ سے کبھی کوئی روک نہ پایا کیونکہ ان کے پہلو میں اپنی بھتیجی کے لیے بھری ہوئی پانی کی مشک تھی جس میں ان کی جان تھی۔۔۔۔۔

جب وہ چھد گئی اور اس کا آخری قطرہ بھی بہ گیا تو عباس نے زیست کو رخصت دیدی اور باب الحوائج کا لقب پایا،

“یہ مقامِ مشک ہے” اسے حرم کی توسیع مین شامل کیا جائے گا اسی لیے یہاں فوارہ منہدم کردیا ہے۔”،دوست بولا۔

عباس کے تایا، جعفر کو “طیار”(اڑنے والا) کہا جاتا ہے ،انہوں نے بھی بازو اور جان لٹائی اور وہ رسول اللہ کی بشارت سے جنت میں پرواز کرتے ہیں، بھتیجا بھی اب تایا کے ساتھ پرواز کرتا ہے!!!
عباس، حسین کی نصرت کو ہمہ وقت تیاربھی ہیں،اور طیار بھی!!!

ایک بازو(کف العباس) کی جگہ تو گلی کے منہ پر ہے اور دوسری؟؟
وہ 4 گلی چھوڑ کر تنگ گلیوں اور دکانوں کے بیچوں بیچ ہے،
یہ عراقی بھی ہر شے بیچیں گے۔

عراقی عرب “ک” کو چبا کر “چ” پڑھتے ہیں، میں نے”کف” کہا تو جملے میں اس نے کہا، “چِفِ العباس؟؟؟”,
“نعم”
“ہنا”
“ثم مستقیم”
“شکرا”
“حبیبی!!!”

شورما، تکہ، کباب، شوربہ،
آئس کریم، جوس، سمودی۔۔۔

کھی کھی کھی ہنس ہنس کر لڑکیاں کھا رہی ہیں، بچے بھاگتے پھر رہے ہیں۔ لیکن کلچرل ڈفرنس شائد اسی چڑیا کا نام ہے۔

شربت /چائے/کافی کی سبیلیں اور کھانے کے اسٹال لگے ہیں، تمیز سے لائن بنایئے اور نیاز سے بہرہ مند ہوجایئے!!

بس سبیل نہیں ہے تو ہماری دودھ والی چائے کی نہیں ہے!!
ہم نے کہا،”کامران بھائی، اگلی دفعہ چائے کی سبیل لگائیں گے”,
“ہاں اچھا آئیڈیا ہے”,ارم باجی بولیں۔

شیرِ نیستانِ حیدر عباس اور ان کے بڑے بھائی،
ابوالاحرار ،سید الشہداء، ابا عبداللہ حسین ابن علی ابن ابی طالب کے روضے کے درمیان فاصلہ” بین الحرمین” کہلاتا ہے اور یہ بالکل صفا و مروہ جتنی ہی دوری ہے، نہ کم نہ زیادہ۔
یزید کے دربار میں جب امام کے فرزندِ ارجمند جناب علی ابن حسین،سیدِ سجاد نے اپنا تعارف کرایا تو فرمایا،

“انا ابن مکہ و منا،
انا ابن زمزم و صفا
انا ابن سدرۃ المنتہی
انا ابن علی و فاطمہ
انا من عباد اللہ الذین اصطفی
والحمد للہ علی ما مضی”

اطراف میں لوگوں کے ٹھہرنے کا انتظام ہے،صفائی و نظافت کا پورا خیال رکھا گیا ہے،زیادہ تر رکنے والے ایرانی ہیں۔۔۔عراق، کچھ کچھ ایرانیوں کی اینیکسی معلوم ہوتا ہے،خیر

دائم پڑے ہوئے تیرے در پر، یہیں ہیں ہم!!!!

یہاں ایک دروازے پر “السلام علیک یا ابن سدرۃ المنتہی” ہے، ایک پر کندہ ہے “اسلام علیک یا ابن زمزم و صفا”

سعی کریں یا مساعی؟
ہم دوڑکے جائیں یا آہستہ قدم؟؟؟
خیر جب پہنچے مظلوم کی تربت پر تو منظر ہی بدل گیا،
ایسا لگتا ہے کہ کسی نے کلیجہ تھام لیا ہے اور دل کو ڈھارس ہوگئی ہے۔۔۔۔۔

یہیں مظلوم کا لاشہ بے گور و کفن رہا تھا،
یہیں اس کے تبرکات لٹے اور جسد اطہر پامال ہوا،

یہ حسین کا مزار ہے،
اس کی حدودِ اربعہ حسین کی ماں اور نانا کے آسنوؤں سے تر ہے۔

اجرک اللہ یا صاحب الزمان بمصاب الحسین علیہ السلام،

امیر المومنین اپنے بیٹے کا پرسہ قبول کیجے!!!

امام حسین کے روضے میں 5 زیارات مجتمع ہیں،
مقبرۂ شہداء (گنجِ شہیداں) جہاں دیگر تمام شہدا آسودہ لحد ہیں, مزارِ حبیب ابنِ مظاہر، مقتلِ امام، مزارِابرہیم مجاب ابن محمد بن امام موسی الکاظم اور ان کے درمیان شہِ مظلوم کی تربت!!!!

4 بج رہے ہیں، لوگ کم ہیں، خدام کی آنکھوں میں نیند ہے لیکن وہ ادب سے زواز کی خدمت میں پیش پیش ہیں۔
کچھ کھڑے ہو کر زیارت پڑھ رہے،
کچھ بیٹھ کر،
کچھ چشمے کی تال ناک پر رکھ کر زیارت کی کتاب اپنے اینگل پر کر کے!!!

پیچھے سے کوئی سرائیکی میں نوحہ خوانی کر رہا یے

کوئی عربی میں حسین کو پکار رہا ہے،

کوئی اردو میں، کوئی گجراتی میں سلام کر رہا ہے۔

ساری دنیا حسین،
حسین کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

ایک بوہری جوان اپنی گود میں غالباً اپنے 3 سالہ بیٹے کو لاتا ہے، اسے ضریح کے سامنے کھڑا کر کےاس کی ٹوپی درست کر کے اوڑھاتاہے،۔۔۔بچہ ابھی کچی نیند میں ہے لیکن ادب سے ہاتھ پیشانی پر آجاتا ہے۔۔۔۔
لوگ کپڑے، تبرک، انگوٹھیاں مس کر رہے ہیں،

کوئی بالکل چپ کھڑا ہے،
کوئی بین کئے جارہا ہے
کوئی ضریح کی جالیاں جھنجوڑ رہا ہے
کوئی چپ چاپ آنسو بہاتا ہے۔۔۔۔۔

عالم میں اک عجیب بے کسی ہے!!!وللہ!!!!

حبیب بوڑھے ساتھی تھے امام کے،کوفے کے عمائدین میں سے تھے،جہاں دیدہ فقیہ، امام کے دوست تھے، بچپن میں کہتے ہیں کہ چھت سے گر کر مر گئے تھے لیکن اعجاز سے زندہ ہوئے اور سب سے آخر میں اپنے امام کے خط کو پاکر دوڑے چلے آئے باوجود اس کے کہ اس وقت کوفہ میں کرفیو تھا سخت ترین اور ہر اک سانس صدا تھی، لیکن فاطمہ کا لال ریگِ تپاں پر کھڑا ہے اور وہ گھر میں رہیں؟؟؟سوال ہی نہیں پیدا ہوتا،

امام نے بھی خوب دوستی نبھائی،اسی لئے آپ کا مقامِ شہادتِ اپنے دوست حبیب کے پاس ہے،
یہی وہ جگہ ہے جہاں پشتِ گردن سے امام کو کند خنجر سے ایذائیں دے کر قتل کیا گیا!!!

عرب جب کوئی کام کرتے ہیں تو تھینک یو یعنی “شکرا” کے جواب میں ویلکم کی جگہ کہتے ہیں “حبیبی”
اور مجھے اس سے ہر بار حبیب ابن مظاہر یاد آجاتے ہیں،
کیسا دوست ہوگا وہ جس کا نام ہی حبیب تھا!!!

آگے ابرہیم ہیں جو امام کے روضے کے مجاور تھے اور چھپ کر آپ کی پناہ میں تھے لیکن عشق اور سادات کی بو کیسے چھپ سکتی ہے،

انہیں قتل کیا گیا اور دمِ رخصت جب انہوں نے اپنے جد حسین کو سلام کیا تو مجاب کو فوراً ہی جواب آیا جسے سب نے سنا اور وہ جانبِ ملاالاعلی پرواز کر گئے۔۔۔۔۔۔!!!!

گلشنِ فاطمہ کےتھے، سارے گلاب،ریت پر!!!

امام حسین کے روضے سے آگے آ کر، بابِ قبلہ پر ان کے اک مداح “فضولی بغدادی” کی قبر ہے جس نے کرد،عربی،فارسی و ترکی میں نوحے و رثا لکھے،
اسے بلاشبہ فارسی کا دبیر اور ترکی کا انیس کہ سکتے ہیں۔
سلام اے فضولی!!!

وہاں سے 30قدم پر “تلہ زینبیہ” ہے جہاں سے سیدہ زینب نے بھائی کا قتل رنج و الم سے دیکھا،یہ جگہ توسیع کے لیے بند ہے اور یہاں صحنِ عقیلہ تعمیر ہورہا ہے،بہت بڑی جگہ ہے۔

آگے آیئے، 400 میٹر دور امام و اصحاب کے خیام/خیمہ گاہ/کیمپ ہے جسے عرب “مخیم” کہتے ہیں.

9 محرم ہے،آج شبیر پہ کیا عالمِ تنہائی ہے،
یہاں امام نے اصحاب کے لئے شمع گُل کردی تھی لیکن سب کا چہرہ دمک رہا ہوگا اور قلوب مشعشع!!!
وہ رہے زہیرِقین، جون، حر، قاسمِ مہرو، عباسِ باصفا،
اصحابِ باوفا،
شمعِ بزمِ رسالت کے گرد دیوانہ وار طواف کرنے والے پروانے!!!!
سب مولا کے ساتھ ورد کر رہے ہیں
“سبوح،قدوس،رب الملائکۃ و الروح”

کربلا کو یونہی تو معلی نہیں کہتے!

سب سے پہلے حضرت عباس کا خیمہ ہے، ،سب سے آخر میں مولا حسین و سید سجاد۔

اس کے پاس ہی وہ پہاڑی ہوگی جہاں امام اپنے پیارے صحابی نافع ابن ہلال کا ہاتھ پکڑ کرلے گئے ہونگے،
نافع خوش خوش آئے اور سمجھے کہ دشمن کی کوئی بات شئیر کرینگے مولا،
امام نے ان سے کہا کہ دور۔۔۔۔۔ایک گھاٹی ہے،وہاں کا پہرہ کمزور ہے، وقت و موقع اچھا ہے، گھوڑا لیجے اور ایڑ لگا کے جان بچالیجے اپنی میرے بھائی،

یہ سن کر نافع مولا کے قدموں میں گر گئے اور روتے روتےتین دن کے بھوکے پیاسے صحابی نے سبطِ پیمبر کے قدم لے کر کہا،
“مولا،آپ پر ہی قربان ہوگا یہ غلام”

جون سے بھی مولا نے ایسا ہی کچھ فرمایا تھا اور انکا جواب بھی یہی تھا۔
پھر کیا تھا، جون اور نافع کے جسم سے بعدِ کربلا ایسی خوشبو آئی کہ دشمن کی فوجِ انہیں مولا کا لاشہ سمجھی،

مقامات تو بہت سارے ہیں،
مقامِ علی اصغر المعروف بہ عبداللہ الرضیع، ششماہے کو یہاں تین منہ کا تیر لگا اور ایک کان سے دوسرا کان چھد گیا،

اصغر تمہارے ہنسنے سے، روتی ہے فوجِ شام
تم تیر کھا کے آئے ہو،یا تیر مار کے؟؟

آگے مقام علی اکبر ہے،

اس بات سے ظاہر ہے،رتبہ علی اکبر کا
ہوتا ہے اذانوں سے،چرچا علی اکبر کا

یہاں مولا کی بینائی چلی گئی بیٹے کے فراق میں،
یہاں ایڑیاں رگڑتے ہوئے شبیہِ پیغمبر نے جان دی اور یہیں نیزے کا پھل جگر میں ٹوٹا۔۔۔۔

صدمے پدر کو اکبرِ ذیشان دیتے ہیں
صبح کو اذان دیتے تھے،اب جان دیتے ہیں!!!

اکبر کا رجز (جنگی نعرہ اور اپنا تعارف) مشہور ہے

انا علی ابنَ حسین ابن علیِ!
نحن و بیت اللہ،اولی بالنبیِ!
فما ترونَ کیفَ احمی عن٘ ابیِ!
ضرب غلام ہاشمیٍ علوی!

“دیکھو کہ میں اپنے باپ کی کیسے نصرت کرتا ہوں،
اب ہاشمی ،علوی جوان کی جنگ دیکھنا ذرا!!!”

حسین فخرِ اسمعیل ہیں، جب ذبیح اللہ نے ایڑیاں رگڑیں تو زمزم جاری ہوا،
اور جب شبیہِ پیمبر نے ایڑیاں رگڑیں۔۔۔۔۔
تو قیامت تک کے لیے دردِ دل رکھنے والوں کی آنکھوں سے پانی جاری ہوگیا ہے ۔۔۔۔۔۔ جو کبھی نا رکے گا،نا ہی تھمے گا!!

لیکن فلاں مقام کہاں ہے؟ ،
اس گلی میں،
وہاں سے مڑ کر،
اس رستے پر۔۔۔۔

اتنی تنگ گلیاں،تس پر بازار،
آج کے دور میں گر کربلا برپا ہوتی تو یزیدی فوج تو بازار میں ہی رستہ کھوجاتی!!

آگے جا کر نہر علقمہ(فرات ہے) جہاں پانی بھرنے حضرت عباس آئے، برابر میں مسجد اور آگے مقام جعفر صادق ہے۔

یہ پوری جگہ امام حسین نے اپنی جیبِ خاص سے خریدی تھی اور وہاں کے قبیلے کے ہر بچے،بوڑھے،جوان،مرد و عورت کو بتایا کہ یہاں ہمارے زائر آیا کریں گے، انہیں (کم از کم) تین دن کھلانا،پلانا،ٹھہرانا، ان کا خیال رکھنا۔۔۔۔

یہ زمین مظلومیت کی گواہ ہے لیکن یہیں ظالم نے ظلم بھی ڈھائے،
اتنی سی بات کہی ہے جناب حسین نے کہ،
نہ کبھی ظلم کرنا،
نہ ظلم سہنا!!!!
آزاد رہو، آزاد جیو اور حریت کی راہ پر مرجاؤ!

کربلا پر 1991 میں صدام نے حملہ کروایا، اس نے اس شہر اور اہالی کی پائمالی میں کوئی کسر نہ چھوڑی،
تعمیرِ نو اور مرمت تو ہوگئی لیکن حرمِ امام حسین میں دیوار پر دو دو فٹ کے پرانے ماربل کے حصے ابھی بھی اس لیے باقی رکھے گئے ہیں، جو فائرنگ اور شیلینگ سے ادھڑے پڑے ہیں، تاکہ دنیا جان لے کہ ظلم کا مقابلہ کرو، جنایت اور جدید مظالم کی یادگاروں سے عبرت حاصل کرو اور اس کے خلاف مدافعت کرو۔

یہاں مختلف ادوار میں ہونے والے مظالم کی صورت میں دیگر شہداء بھی امام کے حرم کے اطراف میں سوتے ہیں۔

اورحال ہی میں جاری داعش کے خلاف جنگ میں شامل ایک عراقی فوجی جو حشد الشعبی کا حصہ تھے، کا لاشہ امام کو سلام کے لیے آیا تو دل سے خوشی ہوئی کہ
ایسے ہوتے ہیں فرزندانِ زمیں!!!

عراق کی ساری مدافعت حسین کے نام پر ہے!!!

یا حسین!!!!!

ہم 5 تا 12 محرم کربلا میں رہے، 22 ستمبر کی صبح 7 بجے کربلا ہم سے چھوٹی، مولا کاشکر کیا، سلام کیا،
آگے اطراف کی زیارتیں باقی تھیں،آخری دن تھا۔

نمدیدہ آئے، بس میں سوار ہوئے،
فرات کا کنارہ ہے، یہ کرب و بلا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے۔

Facebook Comments

محمد علی
علم کو خونِ رگِِِ جاں بنانا چاہتاہوں اور آسمان اوڑھ کے سوتا ہوں ماسٹرز کر رہا ہوں قانون میں اور خونچکاں خامہ فرسا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply