آزادی اور اس کی بہاریں

بیگم کی قیدوبندکی صعوبتیں برداشت کر کر کے اب تو آزادی کا لفظ بھی ہم پر گراں گذارتا ہے۔مطلب یہ ہےکہ بیگم پیر میں رسہ ڈال کر رکھتی ہیں۔دوستوں کے ساتھ رات بھر گھومنے کے مزے ہمیشہ کے لیئے اڑن چھو ہوجاتے ہیں۔نہ جانے یہ بیگمات رات کو اپنے شوہروں کو نکلنے کی اجازت کیوں نہیں دیتیں۔بہرحال مرضی ہے بیگمات کی۔کچھ بھی کرسکتی ہیں۔خیر ہم کہنا یہ چاہ رہے تھے کہ اب آزادی بھی ہم پر گراں گزرتی ہے ۔لیکن نہ جانے کیوں اگست والی آزادی سے ہمیں بڑی انسیت اور لگائو ہے۔ایک تو اس کی تاریخ بڑی لذت اور چاشنی والی ہے ۔لگتا ہے ہمارے بزرگ بھی کافی جہاندیدہ اور مزاح کرنے والے لوگ تھے۔اس لیئے تو “چودہ”کا انتخاب خود رکھا اور پندرہ پڑوسیوں کو دیدیا ۔ ہم آزادی کو کم اور اور اس تاریخ پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ویسے یہ لفظ گنتی میں شمار ہوتا ہے میرا مطلب ہے یہ لفظ اعداد وشمار میں آتا ہے ۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اسے گنتی میں نہیں ہونا چاہیے تھا۔کچھ لوگ اسے بڑا ہاٹ اور کچھ لوگ اسے بڑا شاٹ سمجھتے ہیں۔لیکن میرے نزدیک یہ کچھ بھی نہیں ماسوائے گنتی کے دو عدد کے۔ویسے یہ آزادی ایک ایسی نعمت ہے جو سوائے شوہروں کے سب کو اچھی لگتی ہے۔دنیا میں آپ کہیں بھی دیکھ لیں ہر تحریک میں آپ کو آزادی کی بو ضرور آئے گی۔لیکن شوہر ایک ایسا پنچھی ہے جو پر تو رکھتا ہے لیکن اڑان نہیں۔ بات آزادی کی چل نکلی ہے تو اس پر بھی سیر حاصل مزاح ہونا چاہیے۔اگست کا مہینہ ہے ہر طرف ہری جھنڈیوں کی بہار ہے ،کیا بچہ کیا بڑا ہر ایک اپنی مناسبت سے کپڑوں پر، گاڑیوں پر گھروں میں گھروں کی چھتوں پر، حتیٰ کہ ہر طرف جشن کا سا سماں ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پیارے وطن کو نظر بد سے بچائے ۔پہلے ہی ہم بہت ٹوٹ چکے ہیں ۔اب ہم میں اور مزید ہمت طاقت سکت نہیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہےکہ اللہ اس وطن کو اور اس قوم کو ہمیشہ ایک لڑی میں پروئے رکھے ،اور دشمن کے لیئے سیسہ پلائی دیوار ۔آمین
ویسے اس قوم کو دعا اور دوا دونوں کی سخت ضرورت ہے۔اس قوم کا ،کاکا اور بابا دونوں شرارتی ہیں۔مشرقی اقدار اور مشرقی خواتین کا بالکل بھی خیال نہیں رکھتے ۔نہ عمر کا پاس۔نہ عہدے کا پاس۔یہ قوم آزادی تحفظ نسواں کا پرچار بہت کرتی ہے۔لیکن جب اس کی بہاریں سمیٹنے کا وقت آتا ہے تو پھر رونا دھونا شروع ہوجاتا ہے۔ویسے مغرب کے مرد نے آزادی کا پورا پورا فائدہ اٹھایا ہے۔وہاں کے مرد عورتوں کو چھیڑ تے ہیں۔اور ہمارے یہاں عورتیں مردوں کو، جیسے گلالئی عمران خان کو ۔ویسے ہمارے یہاں آزادی کا مطلب ،اچھل کود ہے .مثلاًبیگم کا سسرال جانا بھی مرد کے لیئے کسی آزادی سے کم نہیں، جس وقت بیگم رخت سفر باندھ رہی ہوتی ہے شوہر کا دل بلیوں اچھل رہا ہوتا ہے۔جونہی بیگم بچوں سمیت دروازے سے باہر ہوتی ہے مرد ایسے پھدکتا ہے جیسے مینڈک۔ جن مردوں کی بیویاں محلے میں قریب رہتی ہیں جو میکے جاتے ہی شام کو لوٹ آتی ہیں۔ان کے مرد بھی کچھ لمحوں کی آزادی کو بہت بڑی نعمت سمجھتے ہیں۔مجھ سے ہمیشہ عورتوں کو گلہ رہا کہ میں جب بھی لکھتا ہوں عورتوں کے خلاف لکھتا ہوں، میں نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ میری اتنی ہمت کہ میں عورتوں کے بارے میں لب کشائی کروں، میں تو صرف اتنا لکھتا ہوں کہ عورتیں کتنی بہادر ہوتی ہیں ۔اپنے “میاوں “سے بالکل نہیں ڈرتی ۔
ویسے ہم نے اپنی بیگم کا نام اپنے موبائل میں “بےغم “کے نام سے سیو کررکھا ہے ایک دن دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے موبائل ہمارا سامنے ٹیبل پر پڑا تھا اچانک موبائل پر کال آئی تو میرا دوست موبائل میں نام پڑھ کر ہنسنے لگا ۔جب میں نے موبائل قریب کیا ریسیو کرنے کے لیئے تب مجھے سمجھ آئی کہ محترم کیوں ہنس رہے تھے۔ویسے یہ تاثر غلط ہےکہ عمران خان یہاں مغربی کلچر کو پروان چڑھانا چاھتے ہیں ۔عمران خان تو اب تک خود کسی بھی کلچر کو سمجھ نہیں پائے۔اس کی مثال قوم کے سامنے ہے۔مشرقی اور مغربی دونوں کو دیکھ لیا ۔خان صاحب ہر معاملے میں سرخرو ہوتے ہیں لیکن خواتین کے معاملے میں خان صاحب ۔۔۔۔
آزادی کے چکر میں ہم کہاں سے کہاں نکل گئے ۔واپس لوٹ آتے ہیں اپنی گفتگو کی طرف ۔

Facebook Comments

Khatak
مجھے لوگوں کو اپنی تعلیم سے متاثر نہیں کرنا بلکہ اپنے اخلاق اور اپنے روشن افکار سے لوگوں کے دل میں گھر کرنا ہے ۔یہ ہے سب سے بڑی خدمت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply