ادب انسانوں کی کہانی۔۔سلمان امین

میں جب دسویں جماعت میں تھا تو میں نے انگلش کی ایک کہانی (A World without books ) جس میں ایک جملہ تھا ” ادب انسانوں کی کہانی ہے” (Literature is the story of  human )۔ میں نے جب یہ جملہ پڑھا تو مجھے   بہت پسند آیا۔ مگر مجھے اس جملے کی صحیح طریقے سے سمجھ نہ آسکی۔ یہ جملہ میرے ذہن میں بیٹھ گیا۔ میرے چھوٹے بھائی کو کتے رکھنے کا بہت شوق ہے۔ کچھ دنوں کے بعد میں اپنے بھائی کے ساتھ کتے کو باہر لے کے چلا گیا۔ میرا بھائی تو ہر روز جاتا تھا مگر اُس دن میں بھی اس کے ساتھ چلا گیا۔ جب اپنے گاؤں سے باہر نکلے تو دوسری جانب سے ایک اور کتا آرہا تھا دونوں نے جیسے ہی  ایک دوسرے کو دیکھا تو بھونکنا شروع کردیا اور دونوں ایک دوسرے کو مارنے کے لئے زور لگانا شروع  ہو گئے۔ اُس دن مجھے اس جملے کی سمجھ آئی، جیسا کہ یہ دونوں کتے دیکھتے ہی ایک دوسرے کو مارنے کے لئے لپک پڑے ہیں اسی طرح آپ نے مُرغوں کو جھگڑتے دیکھا ہوگا اور بھی تمام جانور ایسے ہی ایک دوسرے کو دیکھتے ہی لڑائی کے لئے تیار ہوجاتے ہیں مگر انسان جب بھی دوسرے انسان کو دیکھتا ہے تو ادب و احترام کے ساتھ سلام کرتا، خیریت دریافت کرتا ہے۔

مگر آج کے انسان کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ انسان اس تعریف (ادب انسانوں کی کہانی ہے) سے ذرا کنارہ کشی کرتا چلا جارہا ہے۔ آج کے انسان کا برداشت کا مادہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ کوئی انسان دوسرے سے بات کرنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کررہا ۔ کوئی دوسرے کی مدد کرنے، دکھ درد میں شریک ہونے کے لئے تیار نہیں۔

مال و دولت کمانے کی اس دوڑ میں ہم سب اتنا آگے نکل چکے ہیں کہ انسانیت کو ہم نے بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ دولت مند ہونا، دولت کمانا کوئی بُری بات نہیں، مگر دولت کا حصول اچھا ہونا چاہیے اس میں انسانیت، حقوقِ انسانی کا قتل نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں دوسرے  انسان کا گناہ گار نہیں ہونا چاہیے، اللہ کے گناہ گنار ہو جائیں تو معافی کے چانس زیادہ ہیں کیو ں کہ اللہ تعالی تو ہر وقت ہمارے پاس ہے مگر انسان کا کیا پتہ کس وقت اُس نے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجانا ہے یا  اُس نے کس وقت اس فانی دنیا سے ہمیشہ کے لیے چلے جانا ہے۔ اللہ تعالی کا بھی ارشاد ہے کہ ” میں اپنے حقوق تو ہوسکتا معاف کردوں مگر حقوقِ انسانی معاف نہیں کروں گا”۔

کچھ عرصہ پہلے ہمارے کالج میں ایک نئے استاد آئے ۔ اس سے پہلے وہ لاہور میں کسی مہنگے نجی سکول میں پڑھایا کرتے تھے کچھ دن گزرنے کے بعد اُن سے جب اُس سکول کو خیرباد کہنے کا سبب دریافت کیا تو اُنہوں نے بتایا کہ ایک دن بریک کے درمیان بچے کھیل رہے تھے ایک بچہ بہت شرارتی تھا اُس نے کوئی غیر اخلاقی حرکت کی تو میں نے اس کے منہ پہ تھپڑ لگا دیا۔ وہ بچہ اگلے دن اپنے والدین کو لے کے سیدھا پرنسپل کے دفتر گیا اور میری شکایت لگائی۔ پرنسپل نے مجھے بلایا تو میں نے سارا واقعہ سنایا کہ اس وجہ سے میں نے اس کو مارا تھا۔ وہ بچہ اور اس کے والدین کا یہ مطالبہ تھا کہ میں اس بچے سے معافی مانگوں۔ پرنسپل بھی مجھے یہی کہنے لگا کہ تم اس بچے سے معافی مانگو۔ میں نے معافی نہ مانگی اور میں استعفی دے کے چلا آیا۔

اس بات سے اندازہ لگائیں کہ صرف ایک تھپڑ وہ بھی استاد ہونے کے ناطے۔ تو اس کا یہ مطلب ہے کہ استاد اپنے شاگرد سے معافی مانگے۔ یہ ادب رہ گیا استاد کا۔ والدین بھی بجائے یہ کہ وہ بچے کو سمجھاتے کہ کوئی بات نہیں بیٹا وہ آپ کا استاد ہے تمہاری بھلائی کے لئے ہی اس نے ایسا کیا ہے۔ جبکہ پہلے کی بات کی جائے تو بچے استاد کو راستے سے گزرتا ہوا دیکھ لیتے تھے تو وہ راستہ بدل لیتے تھے۔ اگر استاد آگے جارہا ہے تو کراس نہیں کرتے تھے ۔ استاد اگر کہیں پاس کھڑا ہے بات نہیں کرتے تھے۔ مگر اب شاگرد کا یہ مطالبہ ہے بلکہ حکم ہے کہ مجھ سے معافی مانگی جائے۔

julia rana solicitors london

میرا محلے کا ایک دوست ہے اگر کبھی اُس کا اپنے والد کے ساتھ مکالمہ آرائی سننے کا شرف نصیب ہو تو باقاعدہ خود سے پوچھنا پڑتا ہے کہ کیا یہ دونوں باپ بیٹا ہی ہیں۔ آج کل کے چھوٹے چھوٹے بچے اپنے والدین کے ساتھ ایسے زبان درازی کر رہے ہوتے ہیں جس کو دیکھ کے بہت افسوس ہوتا ہے۔ آج کے والدین اپنے بچوں کو مہنگی سے مہنگی تعلیم تو دلوا رہے ہیں مگر ساتھ ساتھ اُن کی تربیت اس طرح سے نہیں کر رہے جیسے کہ کرنے کا حق ہے۔ تعلیم دینے والے اداروں سے بھی گزارش ہے کہ وہ بھی بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت دیں۔ ان کے اندر قوتِ برداشت پیدا کریں۔ اُن کو اخلاقیات کا درس دیں۔

Facebook Comments

سلمان امین
اقبال و فیض کا ہمسایہ ہوں،علم و ادب سے شغف ہے۔ باقی ایک طالبعلم کا کیا تعارف ہوسکتاہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply