شور اٹھا

شور اٹھا کہ ایک خاتون نے، جو شعبہ رزق کی نگران ہیں، دارالخلافہ کے بڑے بڑے ریسٹورنٹ بند کرا دیے ہیں اس لیے کہ ان میں تیار ہونے والا کھانا صحت و صفائی کے عالمی معیار پر پورا نہیں اترتا تھا۔
چاروں طرف تعریف و تحسین کے کلمات میں حیرانی نے ڈیرے ڈال لیے کہ۔۔
ایک عورت،
ایک خاتون،
ایک حوازادی۔۔۔
ارے ہم نے تو اس دیس میں عورت کو بھائیوں کی چٹی میں قربان ہوتے دیکھا ہے.
ہم نے تو تحفوں میں بانٹا ہے مستورات کو۔۔۔
شاہ سے لے کر جرنیل تک نے ایک دوسرے کو گھوڑوں کے ساتھ ساتھ حسین چہرے بھی تو غنیم کے مال کی صورت میں بانٹے ہیں۔
برادری کے جھگڑوں میں بھی اسی آدم زادی نے کفارے ادا کیے ہیں.
تو پھر کیا ہے یہ۔۔۔

تو چلیے اسی افسر خاتون کو بتاتے چلیں کہ بی بی۔۔۔
روجھان مزاری کی”بہشتی پٹی” میں رحیمن جت مکھیاں ملے دودھ میں رنگ زدہ پتی ڈال کے جو چائے بنا رہا ہے۔۔ اسے بھی تو بند کرادے نا۔
کوئٹہ کے ہزار گنجی اڈے پہ حمل بگٹی اپنے معذور ہاتھوں سے پالش کرتے اپنے گندے ہاتھوں سے چھولے بھی بنا رہا ہے۔۔۔
یہ کھوکھا بھی تو کسی صورت نہیں چلنا چاہیے۔۔
سیف الملوک جھیل کنارے ایک بچی جو پاپڑ فروخت کرتی ہے اسے تو ٹراؤٹ بھی نہیں کھاتی چہ جائیکہ اسے سیاح کھائیں۔
اس کو کسی داروغہ زنداں کے حوالے کریں ۔
آپ کے باداموں کے باغ میں پھیکا پتہ نہیں کس کے سر اور پیر پکا رہا ہے ۔ایک چھاپا ادھر بھی ہو جائے میری بھولی ممتاز.
درجنوں گاڑیاِں ،سینکڑوں مسافر،
قافلے رکنے لگے تو ہم بھی ٹھہر گئے
پوچھا۔۔۔۔۔کیا کسی مذہبی فریضے کی ادائیگی میں خاک نشینی اختیار کیے ہوئے ہیں اشرف انسان،
زمین پہ پڑی مجبور و مقہور کتابوں کی حد تک افضل مخلوق!!
جیسے وقت تھم سا گیا ہو۔۔۔
ساکن فضا میں سانس لیتے وردی ٹھیک کرتے ہوئے بولا۔۔۔

صاب!
سبی ٹول پلازے پر دو گھنٹے بعد صبح کا اجالا ہو جائے گا پھر قافلہ چل پڑے گا۔
ہم سوچنے لگے بلوچستان میں اتنی جلد سویر ہونے والی ہے کیا؟
اس نے کہا سامنے جاؤ چائے بوتل پیو۔۔
وہیں، جس کو وہ بوتل کہہ رہا تھا اسے رنگ ملا پانی ہی کہہ سکتے ہیں
ایک لاہوری بس رکی، ۔۔۔
ہم نے پوچھا ،سنا ہے آپ کے دارالسلطنت کے ہوٹلوں میں اب تو معیاری اشیاء ملتی ہیں
جواب ملا۔۔۔۔
بکتا ہے حرامی سالا!
اپنے طبقے کے کھانے ٹھیک کرارہا ہے.

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ کی درس گاہوں کے نصاب نے محمود
غوری،قاسم،زیاد،پیدا کرنے ہیں۔
آپ کو پتہ ہے کہ آپ کے مستقبل کے غازیوں اور غوریوں کو تفریح کے وقت،
بریک ٹائم میں درس گاہوں کے گیٹ پر فروٹ چاٹ سے لےکر سموسوں تک اور پکوڑوں سے لے کر چھولوں تک کیا کھلایا جا رہا ہے۔
آپ کے مجاہدوں اور شہیدوں کو جنہوں نے “اندھیروں” میں آپ کی عظمت کے گھوڑے دوڑانے ہیں ،جس خوراک پر پالا جا رہا ہے وہ آپ کے کتے بھی نہیں کھاتے۔جانوروں سے بھی بد تر خوراک کھلا کر آپ دنیا کو تسخیر کرنے چلے ہیں۔

Facebook Comments

رزاق شاہد
رزاق شاہد کی تحاریر انکا بہترین تعارف ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply