• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مولانا موددودیؒ داعی اتحاد امت۔۔۔۔ طاہر یاسین طاہر

مولانا موددودیؒ داعی اتحاد امت۔۔۔۔ طاہر یاسین طاہر

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اکابرین ملت اسلامیہ کی تحقیق و جستجو کو  پڑھتے نہیں بلکہ چند اقتباسات پر ان کے حق یا مخالفت میں رائے قائم کر لیتے ہیں،ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہم میں سے بیشتر سخت تقلیدی رویوں کے حامل ہیں اور از خود ان معاملات میں بھی تحقیق و جستجو کی زحمت نہیں کرتے جن میں کہ کر سکتے ہیں۔ مثلاً کتب تاریخ کا تقابلی مطالعہ،اسلام کے معاشرتی و اخلاقی پہلو اور عباداتی مسائل کا ادراک نیز ان سے جنم لینے والے سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی مشق یا لگن۔دین و سیاست کا گہرا تعلق اور معاشرتی زندگی میں دین کاعملی کردار،اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو۔اس آیتِ مبارکہ کا ورد کرنے والے اپنی تحریر و تقریر میں ہمیشہ فرقہ وارنہ گفتگو کر کے محفل کو گرماتے ہیں لیکن کیوں؟ اس لیے کہ ایسا کیےبغیر ان کا کاروبار نہیں چلتا،وہ تحقیق و جستجو نہیں کرتے، وہ اسلامی تعلیمات کے گہرے مطالب پر غور و فکر نہیں کرتےنہ ہی وہ دین کی جدید تعبیر  کے اجتہادی رویے کےقائل ہیں۔ جمود،فکری و عملی جمود ہی انھیں اختلافِ رائے سے  فرقہ واریت کی گلی میں لاتا ہے جہاں سے وہ بڑی آسانی کے ساتھ تکفیری رویوں کے امام بنتے ہیں اور امت واحدہ کو تقسیم در تقسیم کرنے کے مکروہ عمل کا حصہ بن جاتے ہیں۔ہمار المیہ ایک اور بھی ہے۔ہم یا تو کسی مفکر اسلام کو پڑھتے ہی نہیں یا پھر اسے کسی ایک خاص مکتب ِ فکر تک محدود کر دیتے ہیں  ،  اس ستم ظریفی میں وہ’’ بیدار‘‘ مغز بھی شامل ہوتےہیں جو اپنی طرف سے اس بات پر پورا زور لگاتے ہیں کہ مولانا مودودی ؒ ہمارے مکتب کے امام ہیں،آیت اللہ امام خمینیؒ،آیت اللہ شہید مطہری،آیت اللہ شہید باقر الصدرؒ،آیت اللہ ناصر مکارم شیزاری،ہمارے مسلک کے  مفکر و مفسر اور مجتہد ہیں،جامعتہ الازہر کے سابق  سربراہ شیخ شلتوتؒ و اسی شہرت یافتہ علمی ادارے کے موجودہ سربراہ شیخ احمد طیب ،ہمارے فرقے کا سرمایہ ہیں،حالانکہ ایسانہیں،مذکورہ شخصیات نیز ڈاکٹر علامہ محمد اقبال و شہید عارف الحسینی جیسے افراد کسی ایک مسلک کی جاگیر نہیں ہوتے بلکہ ایسے نابغہ افراد عالم اسلام کا فخر ہوا کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اتحاد امت کے لیے عملی کوششیں بھی کیں اور فکری جمود کے روایتی رویوں سے ہٹ کر تحقیق و جستجو کے میدان میں بھی کارہائے نمایاں سر انجام دیے۔ہم جب اتحاد امت کی بات کرتے ہیں یا اس موضوع پر دستیاب کتب سے استفادہ کرتے ہیں تو ایک بات سامنے ضرور آتی ہے کہ امت ِ واحدہ کہلانے والی امت میں صدر ِ اسلام سے ہی اختلافات چلے آرہے ہیں۔بے شک ان اختلافات کی نوعیت علمی ہے اور اس علمی اختلاف کی بنا فقہی ہے۔حقائق یہی ہیں کہ ان علمی اختلافات میں بھی گاہے شدت پسندانہ رحجانات دیکھنے میں آئے اور قتل و کفر کے فتوے بھی لگے۔لیکن ایسی درد ِ دل رکھنے والی علمی شخصیات بھی اسلام کے دامن میں پرورش پاتی رہی ہیں جنھوں نے ان اختلافات ،اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شدت کو کم کرنے کی بھی کوششیں کی ہیں اور یہ کام ہنوز جاری ہے۔جہاں اب بھی کفر و قتل کے فتوے آتے ہیں وہاں آج بھی اسلامی بھائی چارے اور رواداری و برداشت اور تحمل کی بات کی جاتی ہے۔
مولانا مودودیؒ کی تمام کتب کا مطالعہ تو نہ کر پایا مگر ان کی لکھی تفسیر کے ایک حصے کا مطالعہ کرنے کا شرف حاصل ہوا۔خلافت و ملوکیت بھی پڑھی۔ان کی فکر جدید مسائل کو کا گہرا ادراک رکھتی تھی اور وہ ان مسائل کا حل بھی پیش کرتے تھے۔مجھے ان کی فکر اور ان کے سکول آف تھاٹ سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر مجھے ان کے علمی مرتبے پر کوئی کلام نہیں۔وہ بے شک مسلمانوں کو ایک امت ِ واحدہ ہی کی شکل میں دیکھنے کے آرزو مند تھے اورفرقہ واریت و تکفیریت کو کسی بھی طور روا نہیں جانتے تھے۔
آغا سید نثار علی ترمذی قابلِ صد احترام بھائی اور محقق و مصنف ہیں۔وہ اپنی ہر تصنیف کے ساتھ انصاف کرتے ہیں۔مارچ کے ایام میں ایک ذاتی کام سے لاہور جانا ہوا،روانگی سے پہلے نثار علی ترمذی صاحب کو فون کیا کہ بہر حال مجھے کام بھی سول سیکرٹریٹ لاہور میں ہی تھا۔ ترمذی صاحب کو دیدہ و دل فرشِ راہ پایا۔جہاں انھوں نے مجھے انار کلیکے مزار کی سیر کرائی وہیں مجھے اپنی تازہ تصنیف’’مولانا مودودیؒ داعی وحدت امت‘‘ بھی عنایت کی۔معروف علمی و تحقیقی ادارے البصیرہ اسلام آباد کی شائع کردہ یہ کتاب اپنے اندر مولانا مودودیؒ کی اتحاد ِ امت کےحولے سے کی جانے والی کاوشوں اور تقریر و تحریرکا نادر مواد رکھتی ہے۔نثار علی ترمذی نے مواد کی جمع آوری میں شبانہ روز محنت کی اور مولانامودودیؒ کی زندگی کے ان گوشوں کو بھی ہمارے سامنے لائے جنھیں ہم سے اکثر نہیں جانتے۔میں حیران ہوں کہ عالم ِ اسلام کی اس گراں قدر شخصیت پر جماعت اسلامی نے اپنا قبضہ کیوں جمایا ہوا ہے؟ان کے وہ افکار سامنے کیوں نہیں لائے جاتے جو اتحاد و محبت کا درس دیتے ہیں۔مولانا مودودیؒ نے2دسمبر1972کو منصورہ میں عید الاضحی کے موقع پر جو تقریر کی اس کے اقتباسات اس امر کے شاہد ہیں کہ مولاناؒ اتحاد کے داعی اور افتراق و انتشار کی ایک وجہ شرک کو قرار دیتے ہیں۔’’شرک کا لازمی خاصہ یہ ہے کہ وہ انسانیت کو بانٹتا ہے اور انسانوں کو انسانوں سے پھاڑتا ہے۔پوری انسانی تاریخ میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی جو یہ شہادت دیتی ہو کہ تمام دنیا کے مشرکین کسی ایک معبود پر یا چند معبودوں پر کبھی جمع ہوئے ہوں۔ساری دنیا تو درکنار،زمین کے ایک خطے میں بسنے والے مشرک بھی کبھی کسی معبود یا معبودوں کے کسی گروہ پر متفق نہیں پائے گئے۔قبیلوں کے معبود الگ الگ بھی رہے اور جدا جدا بھی،اور یہ معبود ہمیشہ ایک نہ رہے بلکہ زمانے کی ہر گردش کے ساتھ بدلتے چلے گئے۔اس طرح شرک کبھی کسی دور میں بھی انسانیت کو جمع کرنے والی طاقت نہیں رہا بلکہ تفرقہ پرداز طاقت رہا ہے اور صرف عقیدے ہی کے اعتبار سے انسانوں کو ایک دوسرے سے نہیں پھاڑتا،بلکہ اس کی فطرت چونکہ متحد کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے اس لیے جو تفرقے اس کی بدولت برپا ہوتے ہیں وہ رفتہ رفتہ انسانوں میں،قوموں اور قبیلوں اور نسلوں اور زبانوں اور رنگوں اور وطنوں کے اختلافات کو ابھار دیتے ہیں۔پھر یہی اختلافات آگے بڑھ کر لوگوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت و عداوت کے جذبات پیدا کرتے ہیں۔ایک دوسرے کو ذلیل و حقیر اور ناپاک اور اچھوت سمجھنے کا محرک بنتے ہیں۔‘‘
شرک کے بد اثرات اور نقصانات کا ذکر کرنے کے بعد مولانا اپنے اس خطبے میں توحید  کے اثرات و ثمرات بیان کرتے ہیں اور توحید کو وحدت کا پیغام قرار دیتے ہیں۔اگر توحید پرست آپس میں دست و گریبان ہو جائیں تو مولانا مودودیؒ اس حوالے سے اپنی رائے کا یوں اظہار کرتے ہیں۔’’ اگر کبھی کسی جگہ آپ دیکھیں کہ توحید پر ایمان کا دعویٰ تو موجود ہے،لیکن اس کا دعویٰ کرنے والی امت میں وحدت موجود نہیں ہے،بلکہ الٹے تفرقے اور تعصبات اور باہمی نفرت و مخالفت کے فتنے برپا ہیں،تو چشم ِ بصیرت سے ان کا جائزہ لے کر آپ آسانی سے معلوم کر لیں گے کہ اس امت میں شرک گھس آیا ہے اور اس کے بے شمار شاخسانوں میں سے کوئی نہ کوئی شاخسانہ اس کے افراد اور گروہوں کو ایک دوسرے سے پھاڑ رہا ہے۔یہ بات نہ ہو تو جس طرح دو اور دو پانچ نہیں ہو سکتے،اسی طرح شرک کی آمیزش کے بغیر ایک خدا کو ماننے والے دس متحارب گروہوں میں نہیں بٹ سکتے۔‘‘
مولانا مودودیؒ کو اگرچہ ایک سخت گیر عالم ِ دین اور مفکر اسلام کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ،کہ وہ صرف اپنی رائے کو ہی معتبر اور عین الاسلام جانتے تھے۔ مولانا مودودی ؒ  ایک مجلس ِ عز ا میںمقصد ِ شہادت امام حسین ؑ پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ۔’’ہر سال کروڑوں مسلمان شیعہ بھی اور سنی بھی،امام حسین ؑ کی شہادت پر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ ان غم گساروں میں بہت ہی کم لوگ اس مقصد کی طرف توجہ کرتے ہیں جس کے لیے امام نے نہ صرف اپنی جان ِ عزیز قربان کی،بلکہ اپنے کنبے کے بچوں تک کو کٹوا دیا،کسی شخصیت کی مظلومانہ شہادت پر اس کے اہلِ خاندان کا اور اس خاندان سے محبت و عقیدت یا ہمدردی رکھنے والوں کا اظہار غم کرنا ایک فطری بات ہے،ایسا رنج و غم ہر خاندان اور اس سے تعلق رکھنے والوں کی طرف سے ظاہر ہوتا ہے۔اس کی کوئی اخلاقی قدروقیمت اس سے زیادہ نہیں ہے کہ اس شخص کی ذات کے ساتھ اس کے رشتہ داروں کی اور خاندان کے ہمدردوں کی محبت کا ایک فطری نتیجہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ امام حسین ؑ کی وہ کیا خصوصیت ہے جس کی وجہ سے 1320برس گذر جانے پر بھی ہر سال ان کا غم تازہ ہے؟اگر یہ شہادت کسی عظیم مقصد کے لیے نہ تھی تو محض ذاتی محبت و تعلق کی بنا پر صدیوں اس غم کا جاری رہنے کا کوئی معنی نہیں ہے اور خود امام ؑ کی اپنی نگاہ میں اس محض ذاتی و شخصی محبت کی کیا قدروقیمت ہو سکتی ہے؟انھیں اگر اپنی ذات اس مقصد سے زیادہ عزیز ہوتی تو وہ اسے قربان ہی کیوں کرتے؟ان کی یہ قربانی تو خود اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اس مقصد کو جان سے بڑھ کر عزیز رکھتے تھے۔لہٰذا اگر ہم اس مقصد کے لیے کچھ نہ کریں بلکہ اس کے خلاف کام کرتے رہیں تو محض ان کی ذات کے لیے گریہ و زاری کر کے اور ان کے قاتلوں پر لعن طعن کر کے قیامت کے روز ہم امامؑ ہی سے کسی داد کی امید رکھ سکتے ہیں اور نہ یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ ان کا خدا اس کی کوئی قدر کرے گا۔‘‘
مجلس ِ عزا سے مولانا مودودی ؒ کا یہ خطاب جہاں فلسفہ شہادت ِ امام حسین ؑ کو بیان کرتا ہے وہیں انھوں نے مجلس عزا سے خطاب کر کے یہ بھی ثابت کیا کہ وہ تکفیری رویوں اور تکفیر کو درست نہیں مانتے بلکہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے ہوئے  ہیں اور ہر مسلمان کے عقیدہ کا احترام کرتے ہیں۔مولانا مودودی ؒ آزادی فکر کے حامی تھے اور اسی فکری آزادی کو  اتحاد کی علامت بھی سمجھتے تھے۔کیونکہ جب تک علمی و فقہی مسائل پر آزادانہ تحقیق وجستجو نہیں ہو گی فکری جمود نہیں ٹوٹے گا،اور یہی جمود آگے چل کر انتہا پسندانہ رحجاتات کا سبب بنتا ہے۔مولانا مودودی کہتے ہیں کہ’’ افسوس  یہ ہے کہ اب ہمارے ہی ملک میں نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں ایک مدت سے شرعی مسائل کی آزادانہ تحقیق کا سلسلہ بند ہے اور ہر گروہ کسی ایک مذہب فقہی کی پابندی میں اس قدر جامد ہو گیا ہے کہ اپنے مذہب خاص کو اصل شریعت سمجھنے لگا ہے۔اس لیے جب لوگوں کے سامنے ان کے مانوس مسلک سے ہٹ کر کوئی تحقیق آتی ہے تو وہ اس پر اس طرح ناک بھوں چڑھاتے ہیں کہ گویا دین میں کوئی تحریف ہو گئی ہے۔حالانکہ سلف میں،جبکہ آزادانہ تحقیق کا دروازہ کھلا ہوا تھا علما کے درمیان حلال و حرام اور فرض و غیر فرض تک کے اختلافات ہو جاتے تھےاور ان کو نہ صرف برداشت کیا جاتا تھا بلکہ ہر گروہ اپنے نزدیک جو حکم شرعی سمجھتا تھا اس پر خود عمل کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی یہ حق دیتا تھا کہ ان کے نزدیک جو حکم شرعی ہو اس پر وہ عمل کریں‘‘۔مولانا کی یہ باتیں اس مر کی شاہد ہیں کہ آزادی اظہار کو قبول کرنے کی جرات پیدا کیے بغیر علمی ترقی ممکن نہیں ہے۔مولانا ؒ ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ۔
’’آج مسلمانوں کی تمام خرابیوں کا سر چشمہ علما کی غفلت اور ان کا باہمی تفرقہ ہے۔اسی تفرقہ کا مٹ جانا اور ان کا اپنی متحدہ قوت کے ساتھ احیائے امت کی سعی شروع کر دینا ایک ایسا زبردست کام ہو گا کہ اس سے مسلمانوں کے موجودہ مصائب کا نصف خود بخود ختم ہا جائے گا۔ہم تنظیم کے محتاج ہیں۔ہمیں اپنی معاشرتی اور تمدنی اصلاح کی ضرورت ہے۔ہمیں اپنی دینی بے حسی اور مذہبی ناواقفیت کو دور کرنا ہے،ہمیں جہالت اور بے علمی کو ختم کرنا ہے۔ہمیں اعدائے دین کے حملوں سے اسلام کی حفاظت کرنا ہے،مگر ان کاموں میں سے کوئی ایک کام بھی ایسا نہیں ہے جو علما کے بغیر انجام پا سکتا ہو،بلکہ سچ یوںہے کہ یہ سب کام دراصل علما اور صرف علما کے ہیں۔ پس اگر علما اپنے تفرقوں کو مٹا کران اہم دینی فرائض کی طرف متوجہ ہو جائیں تو کسی تنظیم،کسی اصلاح اور کسی دفاعی تحریک کے لیے چیلنج و پکار کی ضرورت نہیں،بلکہ تمام کام خود بخود انجام پا جائیں گےاور دنیا کے دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کی حالت کچھ سے کچھ ہو جائے گی‘‘۔مولانا مودودیؒ  اپنی ایک اور تحریر میں اپنا دردِ دل یوں بیان کرتے ہیں کہ’’ جو لوگ تمام مسلمانوں کو ایک مرکز پر جمع کرنا چاہتے ہیں اور اس اختلاف و انتشار سے بیزار ہیں جو اللہ تعالیٰ،ایک رسولؐ اور ایک کتاب پر ایمان رکھنے والی قوم میں برپا ہے،ان کے تخیل کی خوبی اور ارادہ کی بہتری کا ہمیں دل سے اعتراف ہے۔آج ایک اسلام کو بہت سے اسلاموں میں منقسم دیکھ کر کون مسلمان ہے جس کے دل کو صدمہ نہ ہوتا ہوگا؟جس قوم کو اللہ نے وحدانیت اور توحید کی مکمل تعلیم دی تھی،اس میں کثرت کے یہ جلوے دیکھنے سے کس مسلمان کا دل خوش ہو سکتا ہے؟جس دین نے چند سادہ عقائد اور چند سادہ اعمال کو پیش کر کے نجات کی سیدھی راہ دکھائی تھی،اس میں فلسفیانہ موشگافیوں اور جاہلانہ بدعات و خرافات کے یہ مظاہرے دیکھ کر کس مسلمان کو تکلیف نہ ہوتی ہو گی؟تم لوگ امت کی اصلاح کادعویٰ لے کر کھڑے ہوئے ہو،مگر حال یہ ہے کہ تمھاری زبان میں بچھو کا سا زہر ہے،تمھاری طبیعت میں مقناطیسی کشش کے بجائے آتشیں شرارے بھرے ہوئے ہیں اورتمھارے ہاتھ جوڑنے کے بجائے توڑنے کے لیے مستعد ہیں،تم جن کی اصلاح کرنا چاہتے ہو انھیں تم کافر،مشرک،پیر پرست،قبہ پرست،قبر پرست اور بدعتی جیسے خطابوں سے یاد کرتے ہو اور پھر امید کرتے ہو کہ وہ تمھاری پیغام کو سن لیں گے۔‘‘طوالت کے سبب ساری عبارت یہاں نقل نہیں کی گئی،صرف یہی عبارت نہیں بلکہ مولانا مودودی ؒ کی بیسوں ایسی تحریریں ہیں جو ان کے درد ِ دل کا اظہار کرتی ہیں۔وہ تبلیغ میں علمی رویے کا قائل تھے اور دوسروں کے مذہبی جذبات اور احساسات کا انھیں بہت خیال تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ دوسرے مسلمانوں کے مسلکی و فقہی معاملات پر لفظوں کے تیشے چلا کر اتحاد کی گم گشتہ راہوں کو کبھی بھی دریافت نہیں کیا جا سکے گا بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے تفہیم دین کو دوسروں پر بزورِ تلوار تھونپنے کے بجائے دوسروں کے تفہیم دین کا بھی احترام کیا جائے اور محض معمولی فقہی مسائل کی بنا پر ایک دوسرے سے نفرت اور قطع تعلق نہ کیا جائے۔ بے شک آغا نثار علی ترمذی کی تصنیف میں مجھ ایسے طالبعلم کے لیے سیکھنے کو بہت کچھ ہے،نیز وہ سارے اہل ِ اسلام جو مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی گم گشتہ راہوں کے متلاشی ہیں انھیں بھی اس کتاب’’مولانا مودودی داعی وحدت امت ‘‘کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے کہ مولاناؒ کی تحریر و تقریر کے مطالعہ سے جہاں مطالعاتی رحجان مہمیز ہوتا ہے وہیں ایک دوسرے کے مذہبی رحجانات کو برداشت کرنے کا جذبہ بھی مستحکم ہوتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply