قصہ بادشاہِ جنگل کا

ایک دفعہ کہ دو دفعہ ؟

ہاں ایک دفعہ ایسا ہوا کہ جنگل کا بادشاہ شیر جو اپنی گھر والی کی دہشت کے سامنے بھیگابلا بنا سارا دن پڑااینڈتا رہتاکہ شکار کرنے کی ذمہ داری اس کی گھر والی نے اٹھائی ہوئی تھی ، کبھی کبھار ایک آدھ دھاڑ مار کر خود کو یقین دلا لیتا ہاں میں ہی ہوں بادشاہ یہاں کا ۔ایک دن جنگل میں منگل منا کر گپھا کی اوڑھ واپس آتے ہوئے شکاری کے چنگل میں ایسا پھنساکہ سَنگل پہنا کر پنجرے میں بند کرکے شہر میں ایک ایسی سرکس کو بیچ دیا گیاجس میں نا توکوئی ایرانی تھا نا تورانی بس ایک سرکس کا رِنگ ماسٹرتھا جو اسم بامسمٰی مکرانی تھا ۔شیر اس کے ہتھے چڑھا اور اس نے ہفتو ں کا سبق دنوں میں پڑھا اور سدھائے جانے کے بعد شہروں شہروں لوگوں کا منورنجن کرنے لگا ۔کوئی پوچھتا کہ" شیر کس حال میں ہے؟" توشکوہ کناں دل سے نکلتا "لوہے کے جال میں ہے"۔ پھر اس کو یار لوگوں نے انتخابی نشان چن کر پوسٹروں اور بینرز کی زینت بنا کر کاغذی شیر میں تبدیل کردیا ورنہ وہ بھی کیا دن تھے جب شیر کی آمد ہوتی تھی تو رن کانپتا تھامگر اب ۔۔۔۔۔۔۔شیرخود کانپتا تھا اور کانپنے سے زیادہ ہانپتا تھا شہر کی آلودہ فضا اور ناقص خوراک کھا کھا کر ۔ اتنا ہومیو پیتھک ہو گیا تھا کہ حضرتِ قصائی کے منگل وارگوشت کے ناغے والے دن ویجیٹیرین بننے کی ناکام پریکٹس بھی جاری رکھتا تھا اور سرکس کی مشقت بھی ۔اب کبھی دھاڑ مارتا تو ایک بار تودوسرے جنور سہم سے جاتے مگر پنجرے میں بند دیکھ کر اب اس توجہ دلاؤ نوٹس پر بھی کان نہ دھرتے اور شیر کچیچی اورچِیچی منہ میں لے کر رہ جاتا ۔

ایک بار سرکس ایک ایسے شہر جا لگی جہاں انسان تو بڑی تعداد میں رہتے ہی تھے ساتھ ساتھ چوہے بھی کچھ کم نہیں تھے وہاں اور مقامی انتظامیہ ان سے اتنا تنگ آچکی تھی کہ ایک باقاعدہ چوہا مار مہم کے تحت انعام تک دینے کا اعلان کرچکی تھی اور لوگوں نے جب چوہوں کے کشتوں کے پشتے لگانا شروع کردیے تو انتظامیہ اپنے اس اعلامیہ سے صاف مکر کر رفو چکر ہوگئی۔ خیر اس مہم سے بچتا بچاتا ایک پلا پلایا چوہا کسی کی نظرِ بد میں آئے بغیر سرکس کے ٹینٹوں سے گزرتا شیر کے پنجرے کے پاس جا نکلا ۔چوہا چونکہ شہری تھا اس نے شیر کو ایک نرم گدیلا سمجھا اور اس پر اچھلنے کودنے لگا۔ دوپہر کا وقت تھا اور شیر نرم گرم دھوپ میں اپنا بھوجن کرنے کے بعد محوِ خرام ہوکر اپنے آپ کو مصروفِ حرام دیکھ رہا تھا ،پہلے تو اس اچھل کود کو خواب کا ہی حصہ سمجھا مگر جب تیزی سے کوئی چیز اپنے ممنوعہ علاقہ کی طرف بڑھتی ہوئی محسوس ہوئی تو ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا ۔چوہے کی پہلے تو پیش قدمی رکی پھر سانس جب اس نےاپنے سے بڑے منہ کو کھلتے اور اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا ۔شیر کو چوہے کی حواس باختگی اس کی اخلاق باختگی سے ذرا پیاری لگی اور پیٹ بھی بھرا ہوا تھا اس لئے مسکرا کراسے اپنے پنجوں میں دبوچ کر اس دخل در نامعقولات کا سبب جاننا چاہاوہ بھی اس وقت جب سپنے سہانے لڑکپن کے کا پارٹ ٹو چل رہا تھا ۔چوہا چونکہ کَڑکِی (تنگی ترشی) اور کَڑِ کِی(ماؤس ٹریپ) دونوں دیکھ چکا تھا اس لئے مردہ لب ہولے سے اس گستاخی پر معافی کا طلب گار ہوا۔ شیر" ہنس دیا ،چپ رہا منظور تھا پردہ تیرا" کہہ کر اسے معاف کر دیا ۔چوہا شیر کا اقبال بلند کرکے کسی اوکھے وقت اپنی خدمات ڈیپوٹیشن پر فراہم کرنے کے وعدے کے ساتھ کورنش بجا لا کر الٹے قدموں اور دُم واپس ہوا اور شیر نے آنکھیں موند کر خواب کامواصلاتی اور وصلاتی سلسلہ وہیں سے دوبارہ جوڑنے کی دوبارہ کوشش کی مگر بے سود یہ کون سا پی ٹی وی کا نشریاتی رابطہ تھاکہ سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا وہیں سے دوبارہ جڑ جائے گا۔

چند دنوں کے بعد ایک شام رِنگ ماسٹر اپنے نشے کی پنک میں شیر کا پنجرہ بند کرنا بھول گیا اور رات کو شیر خراماں خراماں شہر کی رونقیں دیکھنے پنجرے سے باہر نکل آیا۔خیموں کی قطاروں سے بچتے بچاتے مزے سے گنگناتے" آج میں آذاد ہوں دنیا کے چمن میں" ابھی تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ راہ چلتے ایک شریف انسان کی نظر اس پر پڑ گئی ،شیر کو اپنی طرف آتا دیکھ مارے خوف کے اس شریف انسان کی آواز بند اور ازار بند ڈھیلا اور رنگ پیلا پڑ گیا اور پاؤں زمین میں گڑ گیا۔جل تو جلال تو کاورد کرنا شروع کیا ہی تھا کہ شیر اس کے پاس سے بڑے آرام سے گذر گیا۔اپنی قسمت پر یقین نہ آتے ہوئے زن سے پیچھے کو بھاگا اور جلدی جلدی ریسکیو کو فون ملا کر شیر کے بھاگنے کی اطلاع دینے لگا ۔ریسکیو والےصاحب پہلے تو اسے بھی معمول کی فضول کال سمجھ کر نظر انداز کرنے کے بارے سوچ ہی رہے تھے کہ بیک گراونڈ میں شیر کی دھاڑ سن کر فون کا چونگا ہاتھ سے اورخود اسٹول سے گرتے گرتے بچے۔جلدی جلدی سب کو نیند سے جگانے اور بھگانے لگے جاؤجاکر شیر پکڑو۔شیر کا نام سن کر سب کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے کہ اسے کیسے پکڑیں گے؟ آخر ایک عاقل نے صلاح دی سرکس لگی ہوئی ہے ہونہ ہو یہ ان کا شیر ہی ہے۔کوئی "جائے ذراڈھونڈ کے لائے "اس رنگ ماسٹر کوجس کے قبضہ میں اس شیر کی رگِ جاں ہے ۔

دوسری طرف شیر اپنی مستی میں چلا جارہا تھا کہ اسی چوہے کی نظر پڑی شیر پر ۔بھاگ کر قدم بوسی کے چکر میں شیر کے پاوں تلے آتا آتا بچا،شیر نے اس کوپہچان لیا اور حال احوال پوچھا اور اپنی مصاحبی میں مٹر گشتی کا نیوتہ دیا جسے چوہے نے اپنے لئے باعث صد افتخار سمجھا اور یوں سینہ پھلا کر چلنے لگا جیسے شیر نے جانشین مقرر کر دیا ہو ۔چوہے کے دماغ میں وہ سارے لطائف چل رہے تھے جو اسے لے کر ایسے ہی گھڑ لئے گئے تھے از قسم "مشکوک افراد میں نام آنے "والے سے لے کر "بارات میں بھنگڑا ڈالنے تک" ۔ابھی یہ شاہی سواری بادِ بہاری تھوڑی دور ہی گئی تھی کہ چیختی دھاڑتی ایمرجنسی کے سائرن کی آواز کان پھاڑنے لگی ۔چوہا تو اس نئی نئی ملی ذمہ داری سے دُم جھاڑ کر فوراََ سے پیشتر نزدیکی جھاڑ یوں میں روپوش ہوگیا ،تیز گھومتی نیلی لال بتیوں اور سائرنوں نے شیر کی مت مار دی پہلے تو سمجھا شائد پروٹوکول والے ہیں مگر جب جی ٹی روڈ تے بریکیاں لگیاں اور پنجرے والی وین سے رِنگ ماسٹر اپنا چابک لہراتا ہوا نکلا تو شیر کا سچ مچ تراہ نکل گیا۔مونچھ اور پونچھ نیچی کرکے چپ چاپ پنجرے میں گھس گیا اور جالی کو پکڑ کر ٹکر ٹکر کبھی آسمان اور کبھی جھاڑیوں کی طرف مایوسی سے دیکھتا کہ ابھی تو آنند ملنا شروع ہی ہوا تھا کھل کر اپنی مرضی چلانے کا اور دھر بھی لیا گیا اور جو مصاحب بنا تھا وہ یوں غائب ہوا جیسے میرے بارے میں مشہور لطیفے والے جانور کے سر سے سینگ غائب ہوگئے تھے ۔گاڑی جب واپس اس نئے گرفتار کو لے کر جا رہی تھی تو شیر کی نظر چوہے پر پڑی جو مسکین شکل بنائے دھیرے دھیرے اپنا سر ہلا رہا تھا اور زیر لب بڑبڑا رہا تھا ۔ہائے ری قسمت وائے ری قسمت۔

Advertisements
julia rana solicitors

نتیجہ: یہ کوئی سالانہ امتحان ہے جس کے نتیجے کا انتظار ہے سب کو ؟ بس اتنی سی بات کہ اپنی اوقات سے بڑھ کر نہ کسی سے توقع باندھو اور دوستی اپنے جیسے لوگوں سے رکھو ۔ختم شد

Facebook Comments

احمد رضوان
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد سرگشتہ خمار رسوم قیود تھا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply