انتہا پسندی اور رد عمل کی نفسیات (3)

(مضامین کا یہ سلسلہ مغرب کے ساتھ ہمارے پیچیدہ تعلق کے نفسیاتی پہلوؤں کی یافت کی ایک کوشش ہے۔ استعمار کا جبر اور اسکے نتیجے میں تشکیل پاتی ردعمل کی نفسیات کا جائزہ مسلم دنیا بالعموم اور پاکستان کے مخصوص سیاسی اور سماجی حالات کے تناظر میں لینے کی ایک درسی کاوش ہے۔ کل تیرہ اقساط میں یہ سلسلہ مکمل ہو گا۔” مصنف)
امریکہ میں دہشت گرد حملوں کے بعد جہاں بہت سی باتیں کی گئیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ دہشت گرد مغربی اقدار (جن میں جمہوریت کو بھی شامل کیا گیا تھا ) کو پسند نہیں کرتے، اس لیے انہوں نے امریکہ کو نشانہ بنایا۔ جواب میں بھی بہت سی باتیں کی گئیں۔ ان میں سے ایک یہ تھی اگر ایسا ہوتا تو مغرب کے وہ ممالک بھی حملوں کا نشانہ بنتے جو عراق پر حملوں اور مشرق وسطیٰ جیسے معاملات پر غیر جانبدار رہے تھے۔ اس لیے دہشت گرد حملوں کا کوئی تعلق مغربی اقدار کی دشمنی سے نہیں بلکہ یہ حملے خالصتاً سیاسی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ برسسلز حملوں کے بارے میں کیا سوچا اور فرمایا جاتا ہے۔ کیا ان حملوں کو بھی ردعمل کہا جاتا ہے یا کچھ اور۔۔۔ تاحال ہونے والی گفتگو اور لکھی جانے تحریریں ان حملوں کو ردعمل کے علاوہ کچھ اور دکھانے میں ناکام رہی ہیں۔ (پچھلے سال ہوے برسلز حملے سے تازہ ترین لندن حملوں تک یہ سب حملے ردعمل ہی قرار پائے ہیں۔ عرض ایڈیٹر)
یہ طالب علم چونکہ کسی مقبول عام بحث کا حصہ نہیں ہے اس لئے اپنی تحریر پر ہونے والے عالمانہ تبصروں پر اظہار خیال سے گریز کرتا ہے۔ تاہم مناسب محسوس ہوتا ہے کہ ایک بات کی وضاحت کی جائے۔ نفسیات کے ایک طالب علم کی حیثیت سے مجھے مسلم دنیا کا اپنے “غیر” the other کے ساتھ تعلق بہت معنی خیز لگتا ہے۔ غور فرمایے کہ برسلز میں گرفتار ہونے والا صلاح عبدالسلام ایک شراب خانے میں ملازمت کرتا تھا، منشیات کا سمگلر تھا، پیرس میں ہونے والے حملوں کی منصوبہ بندی میں شریک تھا۔ ہر لحاظ سے مغرب کے انداز زندگی کو اختیار کر چکا تھا۔ مگر چند مہینوں کے عرصے میں داعش جیسی تنظیم میں شمولیت کے بعد اس نے پیرس حملوں کی منصوبہ بندی بھی کی۔ ذرا برسلز حملوں پر غور فرمائیں۔ جن اصحاب کو یورپ اور امریکہ کے ہوائی اڈوں کے حفاظتی انتظامات دیکھنے کا تجربہ ہے وہ جانتے ہیں ان مقامات پر حملوں کے لیے کتنی ہمت، صلاحیت اور مہارت درکار ہوگی۔ دوسری بات قابل غور یہ ہے کہ مغرب کا انداز زندگی جینے کی امنگ اور ہر لمحہ زندگی کو زیادہ سے زیادہ پر مسرت بنانے کی خواہش اور کوشش سے عبارت ہے۔ یہاں لوگ گھٹ گھٹ کر نہیں جیتے۔ اپنی ذات کے لیے تو ممکن ہے کہ وہ بہت اعلیٰ مقاصد رکھتے ہوں مگر سماج کے لئے اعلیٰ مقاصد رکھنا یا اپنے عقائد و نظریات کے پھیلاؤ کے لئے جانیں قربان کرنا اب ایک عام انسان کے نصب العین کا حصہ نہیں ہوتا۔ عقائد، نظریات، اور رائے کے اختلاف کو ہر ایک کا حق مان کر اب ان موضوعات پر بحث سے بھی گریز کیا جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں پیدا ہونے اور پرورش پانے والے بظاہر غیر مذہبی نوجوانوں کا خود کش حملوں میں ملوث ہونا قابل غور ہے۔ برسلز حملوں نے ہماری اس سلسلہ وار گفتگو میں ہماری مدد کی ہے۔
اب آئیے واپس اس نکتے کی جانب کہ کیا ”غیر” کی تراش خراش اور تلاش صرف مسلم معاشروں کا وصف ہے یا دیگر معاشرے بھی اس خصوصیت کے حامل ہیں؟ مشکل یہ آن پڑی ہے کہ یہ ”غیر” میری شناخت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ میں کون ہوں کیا ہوں۔۔۔ اس کا اندازہ دوسروں یا ”غیر” سے موازنے کے بعد لگایا جاتا ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ یہ ایک انتہائی وسیع اور گہری بات کا نہایت ہی عامیانہ بیان ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مجھ ایسے طالب علم سے آپ اس سے زیادہ اور توقع بھی نہیں رکھتے ہوں گے۔ اس لیے اس بات کو فی الوقت ایسے ہی دیکھیے۔ دوسرے یا ”غیر” یا the other کا وجود موازنے اور مقابلے کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ موازنہ مجھے وہ معلومات اور بصیرت فراہم کرتا ہے جس کے ذریعے میں اپنی شناخت کی تکمیل کرتا ہوں۔ اب اجازت دیں کہ اس ضمن دو بنیادی سوال اٹھائے جائیں جو میری شناخت کے حوالے سے اہم ہیں۔
میں اپنے آپ کو اپنے ”غیر” کے مقابلے میں کیسا محسوس کرتا ہوں؟
”غیر” مجھے کیسے دیکھتا ہے؟ میرے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے؟
یہ بات یاد رکھنا از حد ضروری ہے کہ شناخت کے لیے تقابل، نشو و نما کے ایک خاص درجے میں سب ہی کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم مسلمان معاشرے اس مرحلے سے جس طرح گزر رہے ہیں وہ مسلمانوں کی تخصیص ہے۔ اس لیے اس کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ شناخت کی تشکیل میں کارفرما عوامل اور ان کے بارے میں موجود تصورات کی پیچیدگیوں سے بچتے ہوے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ”غیر” کی ضرورت ایک مرحلے پر زیادہ ہوتی ہے لیکن اس مرحلے سے کامیابی کے ساتھ گزرنے کے بعد شناخت کے زیادہ تر حوالے اندرون سے فراہم ہوتے ہیں گو بیرونی حوالوں کی ضرورت پھر بھی باقی رہتی ہے۔ شناخت کی تشکیل کے اس نظریے کی اپنی کوتاہیاں ہیں جن پر آگے چل کر گفتگو کریں گے۔ فی الوقت یہاں رک کر مسلم معاشروں میں شناخت کی تشکیل میں ”غیر” کے کردار پر غور کرلیں۔
اس سلسلے کی گزشتہ گزارشات میں یہ عرض کیا جا چکا کہ مسلم معاشروں میں غیر محفوظ ہونے کا ایک شدید احساس ہر ایک کے علم اور مشاہدے میں ہے۔ یہ عرض کیا جا چکا کہ خوف اور خطرے کا منبع اور مرکز وہ ”غیر” ہے جس کا کچھ تذکرہ ہم کر چکے ہیں۔ جو نفسیاتی مسئلہ مسلم معاشروں کو درپیش ہے وہ خوف اور خطرے کے اس منبع سے نا قابل فرار لگاؤ ہے۔ ہمیں اس بات کا پورا احساس ہے کہ ہمارے مستقبل اور حفاظت کا انحصار اس منہاج Episteme میں پوشیدہ ہے جو ہمارے ”غیر” کا وضع کردہ ہے۔ ہم اپنے ”غیر” کا مقابلہ اس ہی کے بنائے ہوئے ہتھیاروں سے کرکے کامیاب ہونا چاہتے ہیں۔ یہ کامیابی ہماری اس شناخت کو تشکیل دینے میں مدد فراہم کر سکتی ہے جو گزشتہ تین صدیوں سے اضمحلال اور انہدام کا شکار ہے۔ لیکن ایک ایسے مقابلہ میں جس میں استعمال ہونے والے ہتھیار جانب مخالف نے بنائے ہوں کامیابی کے امکانات کیا ہوں گے۔ کاش امام اعظم حیات ہوتے اور ایسے جہاد پر کوئی فتویٰ دیتے جس میں کامیابی کے امکانات صفر سے بھی کم ہوں۔
ایسا قطعاً نہیں ہے کہ اس جنگ کے دستوں کو اپنی کامیابی کے بارے میں کوئی خوش فہمی ہے۔ ان کو اپنی ناکامی کا یقین ہے۔ ان کو اس بات کی خبر ہے کہ ان کی تمام کوششوں کا ماحصل انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ ”غیر” کے استحکام کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ گزشتہ پندرہ برس کی کار گزاریوں کا نتیجہ یہ دکھانے کے لئے کافی ہے۔ سوال یہ ہے کہ دیوار پر لکھی ناکامی پڑھنے کے باوجود مارنے اور مرجانے پر آمادہ اور مصر لوگ کون ہیں؟ یہ لوگ کون ہیں جو اپنی اور دوسروں کی موت کے لاحاصل ہونے کا یقین رکھنے کے باوجود مرنے اور مارنے سے باز نہیں آتے؟ کیا یہ ذہنی طور پر متوازن لوگ ہیں؟ ان سب کا تعلق ایک ہی مذہب اور مسلک سے کیوں ہے؟ کیا یہ مذہبی لوگ ہیں؟ ابتدا میں صلاح عبدالسلام کا مختصر تعارف اسی غلط فہمی کے ازالے کے لیے درج کیا گیا تھا۔ یہ لوگ اپنے روزمرہ کے معمولات اور خیالات میں مذہب کی لچکدار ترین تعبیر میں بھی مذہبی قرار نہیں دیے جاسکتے۔ صلاح عبدالسلام اور اس قبیل کے دیگر لوگ اسی لیے کسی مذہبی تعلیم یا بیانیے کے نہ تو مخاطب ہو سکتے ہیں اور نہ ان کے ذریعے تبدیل۔۔۔ مجھے معلوم ہے اس گزارش کے ذیل میں سیاسی اور صحافتی حوالے دےکر اغیار کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کی طرف اشارہ کیا جائے گا۔ مجھے یاد دلانے دیجئے کہ جان سے گزرنے والے روپے پیسے کی خاطر جان نہیں دیتے تا وقتیکہ انھیں اس زندگی سے اعلیٰ زندگی کی ضانت یا موجودہ زندگی اور اس کی الجھنوں سے نجات کی امید نہ ہو
(جاری ہے)
نوٹ: یہ سیریز اس سے قبل ہم سب پر بھی شائع ہو چکی ہے

Facebook Comments

اختر علی سید
اپ معروف سائکالوجسٹ اور دانشور ہیں۔ آج کل آئر لینڈ میں مقیم اور معروف ماہرِ نفسیات ہیں ۔آپ ذہنو ں کی مسیحائی مسکان، کلام اور قلم سے کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”انتہا پسندی اور رد عمل کی نفسیات (3)

  1. کاش امام اعظم حیات ہوتے اور ایسے جہاد پر کوئی فتویٰ دیتے جس میں کامیابی کے امکانات صفر سے بھی کم ہوں۔

Leave a Reply