الیکشن 2018 اور نیشنل پارٹی کا کوما۔۔۔ عابدمیر

پاکستان میں اعلان کردہ 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات اب محض بیس دن کی دوری پہ ہیں۔ ایسے میں سیاسی پارٹیوں اور افراد کی انتخابی مہم حتمی مرحلے میں داخل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اقتدار میں حصہ داری کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے۔ جلسہ، جلوس، کارنر میٹنگز، وال چاکنگ، پوسٹر بازی، پرچم کشائی، دعاؤں، تعزیتوں اور وعدوں کی ریل پیل ہے۔ سخت گرم موسم کے باوجود بظاہر انتخابات کا ماحول بنتا نظر آ رہا ہے۔

ایسے میں مگر بلوچستان کی ایک اہم اور سابق حکمران جماعت نیشنل پارٹی کی انتخابی مہم کچھ سردمہری کا شکار نظر آتی ہے۔ چند ایک حلقوں کو چھوڑ کر، نیشنل پارٹی انتخابات میں اُس طرح سرگرم دکھائی نہیں دیتی جو ایک سیاسی پارٹی کا وطیرہ ہونا چاہیے، یا کہنا چاہیے کہ جو جوش، ولولہ اور گہماگہمی 2013 کے الیکشن میں تھی، وہ حالیہ الیکشن میں مفقود نظر آتی ہے۔

پارٹی کے اہم ترین رہنما، سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے کسی حلقے سے الیکشن نہ لڑنے کے فیصلے نے ان کے حریف و حلیف دونوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ کیچ کے حلقوں سے بھی بہت زیادہ مضبوط امیدوار سامنے نہیں لائے گئے۔ پارٹی کا گڑھ سمجھے جانے والے مکران میں صرف صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے سے ہی کامیابی کی امید کی جا رہی ہے۔ مجموعی طور پر پورے صوبے سے پارٹی صوبائی اسمبلی کی تین سے چار اور نیشنل اسمبلی کی دو نشستیں ہی جیت پائی تو اسے بھی غنیمت سمجھا جائے گا۔

سیاسی حلقوں کے لیے یہ دلچسپ صورت حال ہے۔ عموماً ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ڈھائی برس بلوچستان پہ حکمرانی کرنے والی جماعت دھڑلے سے عوام میں جاتی اور اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ طلب کرتی۔ مگر اس کے برعکس ہوا یہ کہ پارٹی کے اکثر امیدوار اپنے حلقوں میں جانے سے ہی گریزاں ہیں۔ پوری کمپین اپنی کارکردگی کی بجائے مخالفین پر ڈونگرے برسا کر چلائی جا رہی ہے۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ نیشنل پارٹی نے نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے کھیلے بغیر ہار تسلیم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ہار جیت خیر کھیل کا حصہ ہے۔ نیشنل پارٹی کے لیے شاید اب بہتر آپشن یہی ہے کہ وہ اس بار اپوزیشن میں رہ کر اپنا کردار ادا کرے۔ بشرطیکہ اپوزیشن جیسی پوزیشن بھی اسے حاصل ہو سکے۔ شنید میں یہ ہے کہ ڈاکٹر مالک بلوچ کے الیکشن میں حصہ نہ لینے کا سبب، آنے والے دور میں انہیں گورنر بلوچستان لگائے جانے کا امکان ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے نیشنل پارٹی کی انتخابی ناکامی کے زخم کو شاید کچھ حد تک بھرا جا سکے۔

بہرکیف، ڈھائی سالہ اقتدار کے باوجود پارٹی کا الیکشن میں نمایاں کارکردگی نہ دکھانا کسی المیے سے کم نہیں۔ پارٹی رہنما تو خیر اس پر کیا سوچیں گے کہ انہی کی کارکردگی کے باعث آج ایک متحرک سیاسی پارٹی کوما میں ہے۔ کارکنوں کو البتہ سوچنا چاہیے کہ اگر یہ ایک جمہوری پارٹی ہے تو انہیں رہنماؤں سے پوچھنا چاہیے کہ اقتدار میں خاطرخواہ حصہ داری کے باوجود وہ پارٹی کی عوامی بنیادوں کو مستحکم کیوں نہ کر سکے؟ ایسا کیوں ہے کہ آج پارٹی کے پاس اپنی ڈھائی سالہ کارکردگی گنوانے کو اتنا کچھ بھی نہیں کہ عوام کو ووٹ کے لیے متوجہ کیا جا سکے؟۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر اس کا بروقت تدارک نہ کیا گیا اور یہی روش برقرار رہی تو محض خواب کے سراب پر ووٹ دینے والے ووٹر کی بے رخی کے بعد پارٹی ان خوابوں کی دکان سجانے والے مخلص کارکنوں سے بھی ہاتھ دھو سکتی ہے۔

Facebook Comments

عابد میر
عابد میر بلوچستان سے محبت اور وفا کا نام ہے۔ آپ ایک ترقی پسند سائیٹ حال احوال کے ایڈیٹر ہیں جو بلوچ مسائل کی نشاندھی اور کلچر کی ترویج میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply