کراچی سرکلر ریلوے اور سی پیک۔۔۔قمر نقیب خان

ایک زمانہ تھا کہ جب کراچی شہر میں لوکل ٹرین چلتی تھی، اسے کراچی سرکلر کہتے تھے. 1969 میں پاکستان ریلوے کی جانب سے شروع کیا جانے والا یہ منصوبہ ستر اور اسی کی دہائی میں کامیاب ترین منصوبہ تھا جس میں لانڈھی، ملیر کینٹ، ڈرگ روڈ، سٹی سٹیشن تک ایک سو چار ٹرینیں چلائیں گئیں. 1969-70 کے پہلے ہی سال میں کراچی سرکلر کو پانچ لاکھ روپے کا فائدہ ہوا تھا ایک سو چار ٹرینوں کا پرافٹ خود ہی اندازہ لگا لیں لیکن حکومتی بےتوجہی، ریلوے حکام کی خرد برد اور پرائیویٹ ٹرانسپورٹ مافیا کراچی سرکلر کو بھی کھا گئی. اور اب یہ حالت ہے کہ وہ ریل کی پٹریاں ڈھونڈنا بھی مشکل ہے جہاں کبھی روزانہ دس ٹرینیں چلتی تھیں. گلشن اقبال، 13 ڈی، بھنگوریا گوٹھ سے لے کر پاپوش نگر تک ریلوے ٹریک مٹی میں دب چکا ہے. قبضہ مافیا نے یہاں مکان، دکانیں اور پلازے بنا لیے. پچھلے تیس سال میں سرکلر ریلوے کی سو ایکڑ سے زیادہ اراضی پر قبضہ ہو چکا ہے.

مجموعی طور پر یہ اربوں کھربوں روپے کی زمین ہے. پہلے اس ریلوے ٹریک پر کچرا پھینکا جاتا رہا، جب ٹریک معدوم ہو گیا تو یہاں کچی آبادیاں بن گئیں، جمعہ بازار اور اتوار بازار یہیں لگتے رہے، کچی آبادیاں پکی ہو گئیں، لوگوں نے دو منزلہ مکانات اور مارکیٹیں بنا لیں. کراچی سرکلر کی ستر ایکڑ زمین پر قبضہ ہے جس پر چار ہزار مکانات اور تین ہزار مارکیٹیں موجود ہیں. ریلوے اسٹیشنز کی عمارتوں میں چرسیوں پوڈریوں کا بسیرا ہو گیا، یہ ریلوے اسٹیشن ناجائز فروشی اور جرائم کے اڈے بن گئے.نوے کی دہائی میں حکومت نے کینیڈا کی ایک کمپنی کے ساتھ سرکلر ریلوے کے لیے ایک معاہدہ کیا تھا، لیکن پاکستان حکومت اور محکمہ ریلوے نے اس پر کام ہی نہیں کیا۔

مشرف دور میں جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی (JICA-جائیکا) نے بھی کراچی سرکلر کی بحالی کے لیے حکومت پاکستان سے معاہدے کیے، جائیکا نے تقریباً ڈھائی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آسان قرضوں کی صورت میں کرنی تھی مگر مشرف دور ختم ہوا اور پیپلز پارٹی حکومت آ گئی. جمہوریت کے ثمرات ملنے شروع ہوئے، دو سال تک سروے ہی ہوتے رہے لیکن حکومت پاکستان ٹریک پر موجود قبضہ مافیا اور ناجائز تجاوزات کو ہٹانے میں ناکام رہی، جائیکا نے متوقع کرپشن سے بچنے کے لیے منصوبہ اپنی نگرانی میں مکمل کرنے کی شرط رکھی تھی ساتھ ساتھ جائیکا نے کچی آبادی کے متاثرین کو ملیر کے علاقے جمعہ گوٹھ میں متبادل گھر کے ساتھ 50 ہزار روپے دینے کا بھی مطالبہ کیا تھا، لیکن پیپلز پارٹی حکومت نے 2010 میں سیلاب متاثرین کو بھی اسی ریلوے کی زمین پر آباد کر دیا، سرکلر ریلوے کے خلاف ٹرانسپورٹ مافیا اور قبضہ مافیا تو متحرک تھا ہی دوسری طرف حکومت نے بھی کوئی پالیسی نہ بنائی۔

اب صورتحال یہ ہے کہ دو کروڑ آبادی والے پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں کوئی پبلک ٹرانسپورٹ میسر نہیں۔ آنے والی ہر نئی حکومت اس شہر کے لیے نئے وعدے اور لارے لے کر آتی ہے، بلند و بانگ دعوے اور اعلانات کیے جاتے ہیں اور پھر منہ کان لپیٹ کر سو جاتے ہیں. ن لیگ حکومت نے بھی کراچی کے شہریوں سے کئی وعدے اور اعلانات کیے جن میں گرین لائن بس اور میٹرو بس سروس وغیرہ شامل تھے لیکن کسی بھی اعلان کردہ منصوبے پر عملدرآمد نہیں کیا گیا یا پھر اگر کسی پر کچھ کام ہوا بھی تو تھوڑے ہی عرصے میں ختم کر دیا گیا.

Advertisements
julia rana solicitors

پیپلزپارٹی پچھلے چالیس سال سے صوبہ سندھ پر حکومت کر رہی ہے جس میں پچھلے دس سال بلا شرکت غیرے بھی شامل ہیں، اگلے پانچ سال بھی پیپلز پارٹی کی ہی حکومت رہے گی. شنید ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے کو بھی سی پیک میں شامل کیا جا رہا ہے، ظاہر ہے اگر لاہور کی میٹرو بس اور اورنج لائن ٹرین سی پیک منصوبے کے تحت بن سکتی ہے تو پھر کراچی سرکلر کیوں نہیں بن سکتی. جبکہ دھابیجی اکنامک زون اور کیٹی بندر کے منصوبے بھی سی پیک کا حصہ ہیں. اگر تحریک انصاف حکومت پیپلزپارٹی اور چین کے ساتھ مل کر کراچی سرکلر بحال کر لیتی ہے تو یہ ایک بڑی کامیابی ہو گی. یہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کا بھی امتحان ہے۔

Facebook Comments

قمر نقیب خان
واجبی تعلیم کے بعد بقدر زیست رزق حلال کی تلاش میں نگری نگری پھرا مسافر..!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply