کیا اب ہمارے بچوں کو این جی اوز تعلیم دیں گی؟

اٹھارویں صدی کے مغربی مفکر “ژاں ژاک روسو “نے معاہدہ عمرانی نامی کتاب میں ریاست اور فرد کے درمیان ایک سماجی معاہدے کی توضیح پیش کی تھی۔ اس توضیح کا پس منظر کچھ اس طرح تھا کہ آج سے کوئی پانچ ہزار برس قبل جب شکار پر گذارہ کرنے والے لوگوں نے بھوک اور زندگی کی رائیگانی سے تنگ آ کر دریاؤں کے کنارے ایک جگہ بس کر چھوٹا سا گھر بنانے کا خواب دیکھا تو اسے خونخوار جانوروں اور طاقتور انسانوں سے عدم تحفظ کا احساس ہونا شروع ہوا۔تحفظ کے لئے اس نے ریاست کا ادارہ تشکیل دینے کے بارے میں سوچا اور اپنی جسمانی اور ذہنی آزادی ، نقل و حرکت، روزگار اور خاندان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے عوض یہ انسان اپنی چند آزادیوں سے دستبردار ہو کر انہیں ریاست کو سونپنے پر آمادہ ہو گیا۔یوں فرد اور ریاست کے درمیان ایک طرح کا سماجی معاہدہ طے پا گیا۔

یہ ایک الگ قصہ ہے کہ پچھلے پانچ ہزار برس کے دوران معاہدہ عمرانی کے تحت وجود میں آنے والی ریاست نے تحفظ کے وعدے کی جتنی خونی قیمت وصول کی وہ سب کی سب تاریخ کے ہر ہر صفحے پر ترتیب وار موجود ہے اور اگر پاکستان کی مختصر سی 70 سالہ تاریخ کو اس معاہدے کے آئینے میں دیکھیں تو شاید وہ پانچ ہزار سال کی تاریخ کسی زمرے میں ہی نہ آئے۔اسی سماجی معاہدے کی رو سے ایک فرد ریاست کو ٹیکس ادا کرتا ہے اور ریاست بدلے میں فرد کی تعلیم” صحت، تحفظ، روزگار “اور دیگر امور کی ذمہ وار ہوتی ہے۔ دنیاکے سبھی ممالک میں شاید اس معاہدے کا سب سے زیادہ فائدہ ریاست کو ہی ہوتا ہے جو عوام سے ان تمام سہولیات کے عوض ٹیکس نامی رقم مسلسل وصول کرتی ہے۔ تاہم کچھ مغربی ممالک پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک سے اس لحاظ سے بہتر ہیں کہ وہ اس معاہدے کے عوض کم از اکم اپنی عوام کو تعلیم اور صحت کی سہولیات تو بہتر انداز میں فراہم کر رہی ہیں۔

بات چونکہ فرد اور ریاست کے سماجی معاہدے کی ہو رہی ہے تو اسی معاہدے کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستانی ریاست نے تعلیم کے حوالے سے 1973 کے آئین میں آرٹیکل 25 کو شامل کیا جس میں 2010 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے ترمیم کر کے 25A کر دیا۔ اب اس آرٹیکل کے تحت ریاست 5 سے 16 سال تک کے تمام بچوں کولازمی تعلیم کی مفت فراہمی یقینی بنائے گی۔اب ایک طرف ریاست کے بنائے گئے اس قانون کو دیکھا جائے اور دوسری طرف یہ دیکھا جائے کہ اب بھی پاکستان میں اڑھائی کروڑ بچے سکول سے باہر ہیں جبکہ حال ہی میں شائع ہونے والی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا تعلیمی نظام جدید تقاضوں سے 60 سال پیچھے ہے ۔ رپورٹ کے مطابق جہاں دنیا اپنے تعلیمی نظام پر توجہ دیتے ہوئے آگے نکلتی چلی جارہی ہے، وہاں ہم اس میدان میں مسلسل تنزلی کا شکار ہیں۔

خیر بات یہیں تک رہتی تو پھر بھی کہا جا سکتا تھا کہ شاید ریاست تعلیم کی بہتری کے لیے کبھی نہ کبھی کوئی نہ کوئی قدم ضرور اٹھائے گی اور اس میدان میں کوئی نہ کوئی تبدیلی آئے گی مگر ریاست چہ جائیکہ اپنی اس اہم ترین ذمہ واری کا احساس کرتے ہوئے اس شعبے میں جنگی بنیادوں پر تبدیلی لاتی اس نے اس کا آسان سا حل سوچ لیا۔ یعنی تعلیم کی ذمہ واری ریاست نے اپنے سر سے اتار کر پرائیویٹ سکولوں کے سر تھوپ دی اورآج ریاست پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے کہہ رہی ہے کہ وہ اپنا منافع کم رکھتے ہوئے ، ارزاں نرخوں پر،شہریوں کو تعلیمی سہولتیں فراہم کریں۔دوسری طرف ریاست پاکستان کے اہم ترین صوبے نے اس میں چند قدم زیادہ ترقی کرتے ہوئے تعلیم کی تجارت شروع کردی یعنی تعلیم کو مختلف افراد اور این جی اوز کو بیچ کر اس ذمہ واری سےسرے سے ہی سبکدوشی اختیار کرنے کی راہ لی۔ اب ایک طرف تو پنجاب حکومت بیرونی ممالک سے تعلیم کے لیے دھڑا دھڑ فنڈز اکٹھے کر رہی ہے مثلا ایک برطانوی ادارے Department for international development نے پنجاب حکومت کو 700 ملین پاؤنڈز صرف تعلیم کی بہتری کے لیے دیئے جبکہ حکومت پنجاب نے خود بھی حالیہ بجٹ میں 345 بلین روپے صرف تعلیم کے لیے مختص کیے ہیں مگر دوسری جانب دھڑا دھڑا تعلیم کی بولی لگائی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

2016 میں حکومت پنجاب میں 1000 سکول ایک غیر حکومتی این جی او ادارے پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے حوالے کر دیے جبکہ 2017 میں تقریباً دس ہزار سکولوں کو پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے سپرد کرنے کا منصوبہ زیر غور ہے جو ان سکولوں کو مختلف افراد اور دیگر این جی اوز کو بیچ دے گی اور جو افراد یا این جی اوز ان سکولوں کو خریدیںگے ان کو فی کس طالبعلم 700 روپے ادا کیے جائیں گے۔اس پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت اب تک 3500 سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ مختلف افراد اور این جی اوز کو بیچ چکا ہے۔ جس طرح حکومت پنجاب نے تعلیم کی تجارت شروع کر دی ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ تعلیم بھی اب روزگار کی طرح ہر فرد کی ذاتی ذمہ واری ہے اور ریاست اس سے مکمل بر الزمہ ہے کیونکہ عنقریب یہ این جی اوز ان سرکاری سکولوں کی بلاشرکت غیرے مالک بن جائیں گی اور پھر تعلیم بڑی دولت ہے والا سلسلہ شروع ہو جانا ہے۔

Facebook Comments

احمد مغل
میں ایک معلم ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply