• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کشمیریوں کا حقِ خود ارادیت اور پاکستانی سول بیورو کریسی/سہراب نصیر

کشمیریوں کا حقِ خود ارادیت اور پاکستانی سول بیورو کریسی/سہراب نصیر

شیخ رشید اور عمران خان کے بعد دوسرے درجے کے سیاستدانوں اور الیکڑانک میڈیا سے منسلک صحافیوں کی ایک بڑی تعداد کشمیریوں کو بے غیرت اور جاہل کہنے کے ساتھ غداری کا سرٹیفکیٹ بھی دے چکے ہیں. رہی سہی کسر تحریک انصاف کے فیضان الحسن چوہان نے پوری کر دی ہے جنھوں نے باقاعدہ طور پر یہ کہا ہے کہ ان (کشمیریوں) کی اوقات کیا ہے ایسی بات کرنے کی. اس کے ساتھ سوشل میڈیا پر تاریخ سے نابلد اور ہر لکھی ہوئی چیز کو دلیل و حقیقت ماننے والی نوجوان فورس اپنے اپنے دانشوروں کی کہی باتیں تیزی سے شیئر کرتے ہوئے اپنے باشعور ہونے کا ثبوت دی رہی ہے اور کشمیریوں کو ان کی”اصل اوقات” یاد دلانے میں مصروف ہے. میڈیا کے متعلق تو عمومی طور پر یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ وہ کسی نہ کسی ایجنڈے پر کام کر رہا ہوتا ہے اور عوام کی حقیقی نمائندگی نہیں کرتا. اس کے برعکس سوشل میڈیا ایک ایسا فورم میسر آیا ہے جس کے متعلق کسی حد تک کہا جا سکتا ہے کہ یہاں عوام کے حقیقی موقف کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے. کشمیری عوام کا وہ حصہ جو پورے کشمیر کا مستقبل پاکستان کے ساتھ دیکھنے کا خواہش مند رہا ہے ان کی ہمیشہ سے یہ دلیل رہی ہے کہ پاکستانی اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ ہمارے ساتھ کوئی استثنائی سلوک نہیں کر رہے بلکہ وہ جو سلوک اپنی عوام کے ساتھ کرتے ہیں وہی سلوک ہمارے ساتھ کر رہے ہیں.

یہ پاکستانی قوم ہے جو ہمیشہ کشمیریوں کے ساتھ کھڑی رہی ہے اور مالی و جانی تعاون کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہی ہے. یہ پاکستانی قوم ہے جو کشمیر کے دکھ میں دکھی اور خوشی میں خوش ہوتے ہیں. یہی معاملہ کشمیریوں کا بھی ہے کہ جیت پاکستان کی ہوتی ہے اور جشن کشمیر میں منایا جا رہا ہوتا ہے. ایسے تمام کشمیریوں کو اس وقت انتہائی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جب سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے عام عوام جن میں ننانوے فیصد افراد تحریک انصاف سے تعلق رکھتے ہیں پوری کشمیری قوم کو غدار، بےغیرت اور اپنی اوقات میں رہنے کے مشورے دے رہے ہیں. ایسے اینکر اور دانشور آج اس بات کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں کہ اس طرح کے بیانات کشمیری عوام بالخصوص نوجوانوں کے اندر کس سوچ اور نظریہ کو جنم دے رہے ہیں. دنیا میں ایسا کوئی پیمانہ موجود نہیں جو اس بات کا تعین کر سکے گا کہ کسی چھوٹے سے چھوٹے عمل کا نتیجہ کیسا ہو سکتا ہے. دنیا کی تاریخ ہمارے سامنے ہے جہاں ہزاروں لاشیں اور قتل دیکھنے کے بعد بھی کوئی انقلاب نہیں آیا لیکن جب انقلاب کے لیے حالات سازگار ہوئے تو ایک گولی، ایک لاش پورے ملک کو جگانے کے لیے کافی ہوتی ہے.

خود ہمارے اپنے ملک کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کیسے بظاہر چھوٹے چھوٹے فیصلوں کا نتیجہ خون خرابہ اور انتشار کی شکل میں برآمد ہوا. بنگالیوں کو اپنی زبان کے متعلق احساس کمتری کا شکار کرنے کا نتیجہ بنگلہ دیش کی صورت میں برآمد ہوا. عدلیہ کا نظریہ ضرورت کا فیصلہ چار مارشل لاء لگانے کا باعث بنا. اسی کی دہائی میں کی گئی آئینی ترامیم تین وزراء اعظم کی برطرفی کی بنیاد بنی ہیں. آج اس بات کا تعین کرنا ناممکن ہے کہ موجودہ صورتحال میں کشمیریوں کو اوقات یاد دلانے کی تحریک مستقبل میں کیا رنگ لائے گی لیکن احتیاط علاج سے بہتر ہے کے مصداق ہمیں تاریخ سے سبق حاصل کرتے ہوئے ایسے حالات و خیالات پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہیے جہاں کسی علاقے کے لوگ اپنے آپ کو قومی دھارے سے الگ تصور کرنے پر مجبور ہو جائیں. ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر بیٹھے اکثر دانشور کشمیر کی حقیقی اور آئینی حیثیت سے یا تو واقف نہیں یا موجودہ سیاسی تناظر میں اسے بیان کرنا اپنے مفاد کے خلاف سمجھتے ہیں. پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 257 میں درج ہے.

"When the people of the State of Jammu and Kashmir decide to accede to Pakistan, the relationship between Pakistan and the State shall be determined in accordance with the wishes of the people of that State."

اس شق کے مطابق پاکستان کا آئین یہ بات تسلیم کرتا ہے کہ کشمیر بطور ریاست تاحال قانونی طور ریاست پاکستان کا حصہ نہیں ہے. اس کے برعکس آئین کے مطابق جب کشمیری عوام پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کر لیں گے اس کے بعد دونوں علاقوں کے مابین تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی اس کا فیصلہ کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق کیا جائے گا. یہی آئین پاکستان جب ریاست پاکستان کی حدود متعین کرتا ہے تو اس کے الفاظ کچھ یوںہوتے ہیں ۔۔
The territories of Pakistan shall comprise of the Provinces of Balochistan, the Khyber Pakhtunkhwah, the Punjab and Sindh . the Islamabad Capital Territory, hereinafter referred to as the Federal Capital, the Federally Administered Tribal Areas; and such States and territories as are or may be included in Pakistan, whether by accession or otherwise

یہاں کشمیر کو پاکستان کا حصہ ماننے کے لیے آئینی بندوبست میں” others”کی اصطلاح کا سہارا لیا گیا ہے کیونکہ فی الحال نہ تو کشمیریوں نے متفقہ طور پر پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا ہے نہ آج تک ایسا کوئی قانونی مرحلہ پیش آیا ہے جہاں ریاست کشمیر کے تمام باشندوں کو آزادانہ طور پر یہ حق دیا گیا ہو کہ اپنی مرضی سے اپنے مستقبل کا انتخاب کریں. ۔۔مسئلہ کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے لوگ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ گلگت بلتستان 1970 سے قبل ایک ہی بندوبست کے تحت آتے تھے اور 1970 میں گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر سے الگ کرتے ہوئے ایک مختلف انتظامی بندوبست کے تحت چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے. یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ پاکستان بین الاقوامی سطح پر کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ تسلیم کرتا ہے اور اس مسئلہ کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عملدرآمد کا مطالبہ کرتا اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کرتا ہے.

پاکستان اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے تحت کشمیر کو ایک متنازع علاقہ تسلیم کرتے ہوئے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے انتظامی معاملات یعنی دفاع، خارجہ امور، اور کرنسی کا مکمل اور اکیلا ذمہ دار ہے. لیکن داخلی طور پر ان علاقوں کی خودمختاری کو تسلیم کرتا ہے. آزاد کشمیر کے بقیہ معاملات کو چلانے کی خاطر “کشمیر کونسل” کے نام سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو پچاس سے زیادہ معاملات پر فیصلہ سنانے کی مجاز ہے. اس کونسل کے کل 14 ارکان ہوتے ہیں جن میں سے صرف 5 ممبران کا انتخاب کشمیر سے کیا جاتا ہے اور اس کے چیئرمین وزیراعظم پاکستان ہوتے ہیں. ان 5ممبران کے علاوہ کوئی شخص کشمیر کے آئین کے تحت حلف نہیں اٹھاتا لیکن ان کی بنائی گئی تمام پالیسیز آزاد کشمیر کے معاملات پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہیں. 14 ارکان میں سے صرف 5 ارکان کا کشمیر سے تعلق اس بات کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ کشمیر کے نمائندے اقلیت میں ہونے کی وجہ سے اپنے مطالبات منوانے میں یہاں کوئی بھی اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے. اس کونسل کے تمام معاملات بنیادی طور پر اسلام آباد میں بیٹھی سول بیوروکریسی کے ذریعہ چلائے جاتے ہیں. حکومت پاکستان کشمیر کے چیف سیکرٹری، ایڈیشنل چیف سیکرٹری ( ڈیولپمنٹ)، انسپکٹر جنرل پولیس، فنانس سیکرٹری، ہیلتھ سیکرٹری، آڈیٹر جنرل اور اکاؤنٹنٹ جنرل براہ راست خود منتخب کرتی ہے.

حکومت آزاد کشمیر کی طرف سے اپنائی جانے والی تمام پالیسیز سے براہ راست متاثر ہونے کے باوجود آزاد کشمیر کا کوئی بھی نمائندہ قومی اسمبلی یا سینٹ میں موجود نہیں ہوتا. اس کے علاوہ آزاد کشمیر و گلگت بلتستان پاکستان کے مالی اور آبی ذخائر میں خاطر خواہ اضافہ کرنے، بجلی کی پیداوار میں حصہ دار ہونے کے باوجود Council of common interests (CCI)
National Economic Council (NEC)
اور
National Finance commission (NFC)
میں کوئی نمائندگی نہیں رکھتے.

اسے سے بھی بڑھ کر تماشہ ہے کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو Indus River System Authority میں بھی کوئی نمائندگی نہیں دی گئی نہ ہی آزاد کشمیر و گلگت بلتستان اپنے علاقے میں چلنے والی ہائیڈرو الیکٹرک پاورا سٹیشن سے حاصل ہونے والے منافع میں کسی حصے کے حقدار ہیں. اس تمام روداد کے بیان کرنے کا واحد مقصد اس نقطہ کو واضح کرنا تھا کہ زبانی کلامی حد تک پاکستان کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو بھی تسلیم کرتا ہے اور کشمیر کی متنازع حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے انھیں ایک الگ ریاست بھی بین الاقوامی سطح پر باور کرواتا ہے لیکن عملی طور پر آزاد کشمیر کو پاکستان کے تمام صوبوں سے کم حقوق حاصل ہیں. یہاں کا پورا نظام وزارت امور کشمیر کے تحت چلایا جاتا ہے اور اصل طاقت سول بیوروکریسی کے پاس ہے.

ایسے اہل علم بھی موجود ہیں جو اس دلیل کا پرچار بار بار کرتے ہیں کہ چونکہ پاکستان گزشتہ ستر سال سے کشمیریوں کے لیے قربانیاں دیتا آیا ہے اس لیے کشمیریوں کو چاہیے کہ وہ ان قربانیوں کی بدولت پاکستان کی محبت کا دم بھرتے رہیں. ان قربانیوں کا بڑا حصہ ان جنگوں پر مشتمل ہے جو مسئلہ کشمیر کی بنیاد پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ہوئی ہیں. کشمیر میں ڈوگرہ راج کے خلاف تحریک پاکستان بنانے کی تحریک سے پرانی ہے. پاکستان کا خواب دیکھنے سے قبل ہی کشمیری عوام ڈوگرہ راج کے خلاف اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی تھی اور جب علامہ اقبال نے خطبہ اِلہ آباد دیا اس کے ایک سال بعد بائیں کشمیری سرینگر میں اذان دیتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے. ڈوگرہ راج کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کرنے والے بھی کشمیری ہی تھے.

اس بات سے اختلاف ممکن نہیں کہ برصغیر کی تقسیم کے وقت کشمیری عوام جن میں اسی فیصد مسلمان تھے وہ بطور ریاست پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے تھے. اور شاید یہ الحاق ممکن بھی ہو جاتا اگر بھارت اور پاکستان کشمیریوں کی آزادی کی جنگ میں شمولیت اختیار نہ کرتے. قائداعظم کے ذاتی مشیر کے ایچ خورشید صاحب کے مطابق 1952 میں چوہدری محمد علی (جو بعد میں وزیر اعظم بھی بنے) نے ان سے دوران گفتگو یہ انکشاف کیا کہ قائداعظم قبائلیوں کی کشمیر میں مداخلت کے متعلق لاعلم تھے اور انھیں اس بات کا علم اس حملہ کے بعد ہوا. خود کے ایچ خورشید کے مطابق وہ قائداعظم کی ایما پر اس وقت(موجودہ) مقبوضہ کشمیر میں تھے جب یہ جنگ ہوئی اور انھیں وہاں قید کر لیا گیا. اس جنگ کے بعد سیز فائر لائن کی دونوں طرف عوام کو آنے جانے کی سہولت بہ آسانی دستیاب تھی.

کشمیر کے مسئلہ پر دوسری جنگ 1965 میں لڑی گئی اور اس جنگ کا آغاز آپریشن جبرالٹر سے ہوا جس میں ناکامی ہوئی اور ردعمل میں بھارت نے لاہور پر حملہ کر دیا. آپریشن جبرالٹر کی چہ میگوئیاں جب شروع ہوئیں تو کے ایچ خورشید جو اس وقت ایک انتہائی متحرک لیڈر تھے اس آپریشن کی سخت مخالفت کرتے رہے لیکن ان کی بات وقت کے ڈکٹیٹر نے سننے سے انکار کیا. اس جنگ کے بعد سیز فائر لائن کی حقیقت تبدیل ہو گئی اور یہ ایک آگ کا دریا بن گیا جو تاحال پورے جوبن پر ہے. کشمیر کے محاذ پر لڑی جانے والی تیسری جنگ کارگل ہے اس جنگ کا یہ عالم تھا کہ کشمیریوں کو خبر تو دور خود پاکستان ایئر فورس اور نیوی تک اس ایڈونچر سے لاعلم تھیں. 1948 کی جنگ کے علاوہ دونوں جنگیں کشمیر حاصل کرنے کے لیے تو کی گئیں لیکن کشمیریوں کو ان مہمات میں ناکامی کے نتائج سے بچانے کا کوئی بندوبست نہ کیا گیا. آج بھی بارڈر پر ہونے والی فائرنگ کا شکار دونوں طرف کشمیری ہی ہوتے ہیں. بارڈر کی دوسری طرف بسنے والے اپنے پیاروں سے ملنے کی آس لیے منوں مٹی تلے دفن ہونے والے بھی کشمیری ہیں.

پاکستان کی اشرفیہ و اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ عوام کو بھی آج کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ وہ نسل جو الحاق پاکستان کا رومانس لے کر جوان ہوئی تھی آج تقریباً معدوم ہو چکی ہے نئی آنے والی نسل نے نہ تو ڈوگرہ راج دیکھا ہے نہ تقسیم کے وقت کے حالات سے واقف ہیں. یہ کشمیری نسل جن معروضی حالات میں پرورش پا رہی ہے وہاں انھیں یہی دکھائی دیتا ہے کہ ان کے منتخب نمائندوں کی عملی طور پر حیثیت پاکستان کے سترہویں گریڈ کے افسر جتنی بھی نہیں. بیروزگاری اور سہولیات کے فقدان کا سامنا کرتے نوجوانوں سے جب پاکستان سے محبت کا دم بھرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو ان کے پاس اس محبت کی کوئی وجہ موجود نہیں ہوتی. آج کا دور بد قسمتی سے نظریات سے زیادہ معروضی حالات میں جینے کا دور ہے. پاکستان کی عوام کو کشمیریوں نے ہمیشہ اپنے قریب تر پایا ہے. 2005 کے قیامت خیز زلزلے میں پاکستانی ماؤں، بہنوں اور نوجوانوں نے جس انداز میں اپنے آپ کو کشمیریوں کی مدد کے لیے پیش کیا اس کی مثال یقیناً آج کے دور میں ملنا مشکل ہے.

Advertisements
julia rana solicitors london

راقم خود اس بات کا گواہ ہے کہ ہماری پاکستانی ماؤں بہنوں کی طرف سے بھیجے گئے کپڑوں سے سونے کے زیورات تک نکلتے تھے. اس قیامت خیز تباہی کو دیکھ کر ہمارے پاکستان کی عوام سے جو ہو سکا پیش کیا. یہی وہ جذبہ ہے جس کی بدولت آج بھی کشمیری عوام کا دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے. لیکن آج ایک سیاسی مسئلے کو بنیاد بنا کر میڈیا پر بیٹھے نظریہ پاکستان کے خود ساختہ محافظ اور سوشل میڈیا پر سر گرم چند بابے و نوجوان کشمیریوں کو بے غیرتی اور غداری کے طعنے دیں گے تو اس کا نتیجہ کسی بھی صورت مثبت نہیں نکل سکتا. آج جبکہ مقبوضہ کشمیر میں ہمارے بھائی بھارت کے قبضہ کے خلاف تحریک کو ایک نئی زندگی بخش چکے ہیں اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی عوام یک زبان ہو کر اپنے نمائندوں سے اس بات کا مطالبہ کریں کے کشمیر کو اس کے جائز حقوق دیے جائیں اور ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا موقع دیا جائے تاکہ ہم پاکستان عوام کی اخلاقی حمایت کے ساتھ دنیا کے سامنے اپنے مظلوم بھائیوں کا مقدمہ لڑ سکیں. مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے مظالم کے شکار کشمیریوں کے لہو کا حق ادا کرنے کا اس سے بہتر طریقہ اس وقت کوئی نہیں.

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply