ہیرو، ہیرو پرستی اور ہمارے معیار

کچھ سال گزرے ایک دوست کے گھر پر ان کی صاحبزادی سے روائتی بڈھوں والے گھسے پٹے سوال سے گفتگو شروع کرتے ہوئے پوچھا بیٹا آج کل آپ کیا کررہی ہیں ۔ بچی نے بتایا وہ اس سال سیکنڈری سکول کے آخری سال کا امتحان دے گی۔ اگلا عقل سے عاری سوال پوچھا۔ تیاری کیسی ہے۔ بچی بولی۔ سب اچھا ہے صرف ریاضی میں کچھ مسائل تھے جو اس نے اپنے والد کی مدد سے حل کرلیے ہیں ۔ بچی نے اپنی بات میں زور پیدا کرتے ہوئے کہا You know, my Dad is a genius in maths. اس بچی کے والد نے میٹرک کے بعد تعلیم چھوڑ دی تھی اب انہیں آئرلینڈ میں مختلف کام کرتے ہوئے ایک عشرہ گزر گیا ہے۔ ہمت ہی نہیں ہوئی کہ بچی کو جینئس کا مطلب بتاتا۔ یہ بھی سمجھ نہ آیا کہ بچی پر باپ کے اس تاثر کے قائم رہنے کی دعا کی جائے یا زائل ہونے کی۔ بچی سمجھ کر چپ رہا۔ اس نے اپنے والد کو اپنا ہیرو مانا تھا ہر بچہ کرتا ہے۔ فرائڈ نے اس جانب اشارہ بھی کیا ہے۔ بچے کی نشونما میں یہ بھی ایک مرحلہ آتا ہے اور گزر جاتا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا نو ستمبر 2001 کے واقعہ کے بعد معروف عالم برنارڈ لوئس نے دو کتابیں لکھی تھیں ۔ ان میں اس نے مسلم دنیا کے ایک مسئلے کی جانب متوجہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ گذشتہ تین سو برسوں میں مسلمان دنیا نے علم کے کسی بھی شعبے میں نمایاں خدمات انجام دینے والی ایک بھی شخصیت پیدا نہیں کی۔ انتہائی تکلیف دہ بات تھی مگر بات تھی سچی۔ ایک محفل میں برنارڈ لوئس کا ذکر ہوا اور اس کی کہی ہوئی بات کا ذکر ہوا۔ ایک صاحب بہت سیخ پا ہوئے۔ فرمایا کہ اگر اس گورے نے مولانا غلام مرتضی ملک کو سنا اور پڑھا ہوتا تو کبھی ایسی بکواس نہ کرتا۔ ایک ڈاکٹر صاحب کے سامنے یہ بات رکھی تو انہوں نے کہا۔ بالکل غلط۔ میں نے پوچھا کیسے۔ کہنے لگے لگتا ہے آپ استاد نعمان علی خان سے واقف نہیں ہیں وگرنہ کبھی ایسی بات نہ کرتے۔
اسی کتاب کے ذیل میں آیے آپ کو ایک سکہ بند دانشور کی بات بتاتا ہوں ۔ لوئس کی کتابوں کی اشاعت کے بعد انہوں نے برطانوی اخبار گارڈین میں لوئس کی بات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس بات کا جواب برصغیر کے مسلمانوں نے تین ہستیاں پیدا کرکے دیا ہے۔ یہ تین شخصیات ہیں ۔ سر سید احمد خان ۔ ڈاکٹر محمد اقبال اور نصرت فتح علی خان ۔
برنارڈ لوئس کی بات کے ردعمل میں دیے گئے تین جوابات میں نے آپ کے سامنے رکھے۔ سوال اور دیے گئے جوابات کے بارے فیصلہ کرنے میں خود کو آزاد سمجھیے لیکن اس بات پر ضرور غور کیجیے کہ ڈارون، آئن سٹائن، نیوٹن، نطشے اور سٹیون ہاکنگ جیسی شخصیات کے مقابل ہم نے کن لوگوں کو رکھا ہے۔ آپ کو میرے دوست کی صاحبزادی اور دیگر حضرات میں کچھ مماثلت محسوس ہوئی؟ ان تمام نے بشمول اس بچی کے اپنے ہیروز اور ممدوحین کو ان اوصاف سے متصف کیا جو ان میں نہیں تھے۔
اب آیے ایک تازہ مثال دیکھتے ہیں ۔ فیس بک پر ایک ویڈیو گردش کررہی ہے ہوسکتا ہے آپ نے بھی دیکھی ہو۔ اس میں ماضی کے ایک معروف ٹی وی میزبان ایک سیاسی لیڈر کے بارے میں اظہار خیال فرمارہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ان کے لیڈر Larger than life ہیں کیونکہ وہ Incorruptible ہیں ۔ یہ صاحب وکیل ہیں اور حال ہی میں قومی اہمیت کا حامل ایک مقدمہ بھی جیتے ہیں ۔ اردو، انگریزی اور پنجابی کو یکساں مہارت سے استعمال کرتے ہیں ۔ آپ یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ میرے دوست کی صاحبزادی کی طرح ان کو Larger than life اور Incorruptible کے معنی معلوم نہیں ہوں گے۔ اپنے تیسرے جملے میں انہوں نے ہمیں پاکستان کی ماضی اور مستقبل کی ماوں کے ایک متفقہ فیصلہ سے بھی آگاہ فرمایا۔ کہ ماوں نے وکیل صاحب کے ہیرو جیسے بچے پیدا کرنے بند کردیے ہیں اور متفقہ فیصلہ کے مطابق وہ آیندہ بھی ایسی کوشیش نہیں کریں گی ۔ ماوں نے اسی نوعیت کے ایک اور فیصلے سے کراچی کے معروف مزاح نگار، مصور اور ٹی وی میزبان جناب انور مقصود کو بھی آگاہ کیا۔ انکی ویڈیو بھی فیس بک پر موجود ہے ۔ انہوں نے وکیل صاحب کے ہیرو کو انٹرویو کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ سے اتنے بڑے بڑے کارنامے کیسے سرزد ہوگئے کہ ماوں نے اپنے بچوں کے نام آپ کے نام پر رکھنے شروع کردیے ہیں ۔ ایک عاجزانہ مسکراہٹ کے ساتھ اس خراج تحسین کو قبول کرنے کے بعد اس سیاسی لیڈر نے اپنے کار ہاے نمایاں کے علل و اسباب سے بنی نوع انسان کو آگاہ کرنا شروع کردیا۔
مجھے اس سیاسی لیڈر کے کارناموں پر بات نہیں کرنا۔ مجھے ہیروز اور لیڈرز کو اس مقام بلند پر فائز کرنے والے افراد کی ذہنی حالت پر گفتگو کرنا ہے جو انہیںLarger than life اور Incorruptible جیسے القابات سے نوازتی ہے۔ اور یہ بری خبر سناتی ہے کہ مایں آئندہ ایسے بچے پیدا نہیں کریں گی ۔
ہمارا اپنے ہیروز کی جانب ایسا رویہ کیوں ہے۔ اسکا سیدھا سا جواب تو یہ ہے کہ ہیرو ہوتے ہی اس لیے ہیں کہ انہیں Larger than life اور Incorruptible سمجھا جائے ۔ انہیں ناقابل شکست اور غلطی اور خطا سے ماورا سمجھا جائے۔ آپ نے اس طرح کی کئی فلمیں دیکھی ہوں گی جن میں ہیرو Larger than life ہوتا ہے۔ ناقابل شکست ہوتا ہے۔ ہمیشہ حق پر ہوتا ہے۔ نہ کوئی اسے ورغلا سکتا ہے۔ نہ خرید سکتا ہے اور نہ جھکا سکتا ہے ۔ بدی کی تمام طاقتیں شیطانی ہتھاروں سے لیس ہوکر ہیرو کو شکست دینے کے لئے اکھٹا ہوجاتی ہیں ۔ ہیرو حق اور اسکے مخالفین باطل کی طاقتوں کے نمائندہ ہوتے ہیں۔ بالفاظ دیگر سارا حق ہیرو کے ساتھ اور تمام برایاں ہیرو کے مخالفین میں اکھٹا ہوجاتی ہیں ۔
آپ جانتے ہیں کہ ہر محفل میں ہونے والی ہر سیاسی گفتگو کا اختتام اس بات پر ہوتا ہے کہ اگر ہمیں قائداعظم جیسا ایک اور لیڈر مل جاتا تو آج ہماری حالت مختلف ہوتی۔ ایسے دور میں جب دنیا امریکہ کے جارج بش جونیر اور ڈونلڈ ٹرمپ، برطانیہ کے گورڈن براؤن، ڈیوڈ کیمرون اور تھریسا مے، اٹلی کے برلسکونی اور آئرلینڈ کے برٹی اہرن، برائن کاون اور ان جیسے کئی اوسط درجے یا اس سے بھی پست صلاحیت رکھنے والے لیڈروں کے ساتھ ترقی کررہی ہے ایسے میں ہمیںLarger than life لیڈروں اور مافوق الفطرت صلاحیت کے حامل ہیروز کی ضرورت کیوں ہے؟
اپنے زمانہ طالب علمی میں کسی جگہ کسی کا ایک قول پڑھا تھا ۔ اب نہ یہ یاد ہے کہ کہاں پڑھا تھا اور نہ یہ یاد ہے کہ کس کا قول تھا۔ صرف قول ذہن پر نقش ہے۔ “ہیروز ہمیشہ بنجر زمینوں میں پیدا ہوتے ہیں ” یہ قول وکیل صاحب اور کراچی کے دانشور کی ویڈیوز دیکھ کر برسوں بعد یاد اور سمجھ میں آیا ہے۔
ہیرو پرستی کا یہ جنون آمیز رویہ چند نتائج بہرطور مرتب کرتا ہے۔
ہیرو پرستی کا یہ جنون فرد کے حقیقت سے رابطے کو کمزور کرتا ہے ۔ جب آپ مولانا غلام مرتضی ملک مرحوم کو آئن سٹائن، نطشے اور سٹیون ہاکنگ جیسی شخصیات کے مقابل کھڑا کریں گے تو آپ کو حقیقت Reality کے ساتھ کھلواڑ تو کرنا پڑے گی۔ یا آپ مولانا کو ان کے قد سے بڑھایں گے یا پھر آئن سٹائن اور ڈارون کو مولانا جتنا کرنا پڑے گا۔ حقیقت سے فرار کس طرح کی ذہنی حالت پیدا کرتی ہے آپ ذہنی امراض کے کسی بھی معالج سے پوچھ سکتے ہیں ۔اگر خود دیکھنا چاہتے ہیں تو وکیل صاحب کی ویڈیو کو دوبارہ دیکھیں ۔ ایک سانس میں وہ ہیرو کو Larger than life اور Incorruptible قرار دینے کے بعد اگلی ہی سانس میں وہ اپنے پینسٹھ سالہ لیڈر کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں انکے ہیرو ابھی جوان ہیں اور پختگی Maturity کے مراحل طے کررہے ہیں ۔ریٹائرمنٹ کی عمر گزارنے کے پانچ برس بعد بھی وکیل صاحب کے ہیرو نہ صرف ابھی جوان ہیں بلکہ نشو و نما کے مراحل طے کرتے ہوئے انشاءاللہ پختگی بھی حاصل کرہی لیں گے۔ غور فرمائیں جو ہیرو ناپختگی میں Larger than life ہو وہ پختہ ہو کر کیا ہو گا۔
ہیرو پرستی کا دوسرا نتیجہ وہ صورت حال ہے جس کا اجمالی تذکرہ اوپر ہوچکا ہے۔ ہیرو پرستی کی اس روش کے نتیجے کائنات میں صرف ایک شخص معیار حق قرار پاتا ہے اور وہ ہے ہیرو۔ ہیرو سے اختلاف کے لیے ضلالت، گمراہی اور کرپشن کے علاوہ کوئی اور لفظ استعمال نہیں ہوتا۔ اس لیے ہیرو پرست معاشرے کے لیے انتہا پسند ہونا لازمی ہوتا ہے۔ جو اپنے ہیرو کی کوئی کمزوری نہ دیکھ سکے وہ ہیروز کے مخالفین کی کوئی خوبی کیسے دیکھے گا۔ لہذا ایسے معاشرے کا دو انتہاوں یعنی مکمل سچ اور مکمل جھوٹ میں تقسیم ہوجانا مقدر ہوجاتا ہے ۔
ہیرو پرستی کی تیسری جہت وہ معاندانہ رویہ ہے جو ہیرو پرست اپنے ہیرو کے مخالفین کی جانب روا رکھتے ہیں۔ مخالفین چونکہ کلی ضلالت کے درجے پر فائز ہوتے ہیں اس لیے ان کے لیے ہر طرح کا دشنام، ہر طرح کے رکیک حملے اور اخلاق باختہ تبصرے نہ صرف جائز بلکہ ضروری خیال کیے جاتے ہیں ۔
عرض کرچکا ہوں کہ ہیرو پرستی کی اس روش میں حقائق کے بازو مروڑنے پڑتے ہیں ۔ تصورات کی نئی تعریف کرنا پڑتی ہے۔ وکیل صاحب نے جب لفظ Incorruptible اپنے لیڈر کے لیے استعمال کیا ہے تو حقیقت میں انہوں نے کرپشن کی تعریف جدید فرمائی ہے۔ جس کے زمرے میں صرف مالی کرپشن آتی ہے۔
ہیرو کوLarger than life کہنے کا مقصد ایک تو خود کو اطمینان دلانا ہوتا ہے کہ مجھے درست لیڈر کے سایہ عاطفت میں جگہ ملی ہے دوسرے اسے لازوال بھی ثابت کرنا ہوتا ہے۔ ہیرو زندہ رہے یا مرجائے ہیرو پرست معاشرے (سعادت حسن منٹو کے الفاظ میں) اس کے کردار کو لانڈری سے دھلواکر رحمتہ اللہ علیہ کی کھونٹی پر تادیر ٹانگے رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
ہیرو پرستی پر مائل ذہن اپنے ہیروز سے ایسی توقعات وابستہ کرنے پر مجبور ہوتا ہے جن کو پورا کرنا خود ہیرو کے لیے انسانی طور پر ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے ہیرو پرست معاشروں کو مایوسی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ہیروز کی ناکامیوں اور کمزوریوں کو ایک خاص حد تک ایک خاص وقت تک نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ یہ ناکامیاں اور کمزوریاں ایک دن ایک بھیانک خواب کی طرح سامنے آتی ہیں ۔ ایسے میں مایوس ہیرو پرست پرانے ہیرو کو ماضی کی لانڈری میں دفن کرکے نئے ہیروز کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں ۔
بشکریہ “ہم سب”

Facebook Comments

اختر علی سید
اپ معروف سائکالوجسٹ اور دانشور ہیں۔ آج کل آئر لینڈ میں مقیم اور معروف ماہرِ نفسیات ہیں ۔آپ ذہنو ں کی مسیحائی مسکان، کلام اور قلم سے کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”ہیرو، ہیرو پرستی اور ہمارے معیار

Leave a Reply