سرحد

بچپن سے میں اپنے کچے گھر کی مشرقی دیوار کے ساتھ لگے اک پتھر پہ بیٹھا کرتا تھا۔ سامنے بالکل ایک دم پیالہ نما وادی پر ل سے نظریں اُٹھتی ہیں تو پُشت بہ پُشت پہاڑوں کا یک سلسلہ کھڑا ہے۔ پیر پنجال کی پہاڑیاں اورآخر ی صف میں عظیم ہمالیہ کا سلسلہ اکسائی چن جو آج بھی برف پوش ہے۔پرل کشمیر کے مُنقسم پونچھ کا حصہ ہے اورپُونچھ کشمیر کا سرحدی ضلع 1974 میں کشمیر کے بیٹوں نے حکمرانوں کے جبر کے خلاف بغاوت کی تو پُونچھ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔بھارتی افواج کشمیر میں داخل ہو گئیں۔کشمیر کے سینے پہ بارُود بھری لکیر اُبھرآئی جو بھمبر سے لے کر تاؤ بٹ تک پھیل گئی۔یہ بارُودی لکیر70سالوں سے مسلسل بارُود ہی اُنڈیل رہی ہے۔مشرقی دیوار سے لگے جس پتھر پر میں بیٹھتا تھا،جب سرحد پہ بارُود سُلگتا تو آوازوں سے وہ پتھر بھی دھمکتا۔ایسے بے شمار پتھر کشمیر میں آج بھی دھمکتے ہیں اور در و دیوار لرزتے ہیں۔شب کے کسی بھی پہر بارُود سُلگنے لگے تو لوگ جاگ جاتے ہیں کیوں کہ لرزتی گونجتی دھرتی پکاراُٹھتی ہے کہ وہ پامال ہو رہی ہے۔سرحد نظروں سے اُوجھل ہے دو پہاڑوں کے پیچھے موجود ہے۔اور اس سرحد کے اُس طرف باقی ماندہ ضلع پونچھ تحصیل راجوری،مینڈر آج بھی ادھورے پن پہ سلگتی ہیں۔

آپ نے کرشن چندر کا نام تو ضرور سُنا ہوگا؟اُردو کے مشہور افسانہ نگاروں میں آتے ہیں۔کرشن چندر بھارتی صوبہ راجھستان میں پیداء ہوئے مگر1971 میں صرف تین سال کی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ کشمیر آگئے۔کرشن چندر کا سار ا پچپن اور لڑکپن پونچھ کے راجوری،مینڈر،پلندری،میں گُزرا۔پُونچھ خُوبصُورت اور زیادہ تر پہاڑی خطہ ہے۔کرشن چندر کی تیس کہانیوں،افسانوں اور ناولوں میں پونچھ پوری طرح رَچا بسا ہے۔شفاف ندیاں،گھنے جنگل،چراگاہیں اور اِن میں گھومتے چرواہے،چیڑ و بیاڑ کے لمبے لمبے درخت اور اِن کی سلاخوں سے گُزرتی ہوائیں اور اُن کا ترنم،کرشن اس جنت کو کبھی بھی بھلانہ پائے۔اُن کا ناول ”مٹی کے صنم خانے“بچپن کے احساسات،پیار، رومانس،اٹھکھیلیاں حرف حرف میں پونچھ لپٹا ہے۔ اُن کی تحریروں میں پونچھ کامقامی لہجہ (Dialect) ملتا ہے۔کرشن چندر کے پہلے تین افسانے ”یرقان“ ،”جہلم میں ناؤ“اور ”مصور کی ڈائری“ پونچھ (مینڈر) میں لکھے گئے ہیں۔ کرشن چندر کے والد مہاراجہ کے خاندانی ڈاکٹرتھے۔مگرکرشن چندر پر شاہانہ رنگ کے بجائے کشمیر کے فطری حُسن اور غلام لوگوں کی بے بَسی نے اپنا اثر چھوڑا۔”میری یادوں کے چنار“ شاہوں کی عوام پر ظُلم کی داستانیں سُناتا ہے اور کشمیری قوم کا معاشی استحصال بھی دِکھاتاہے۔ان شاہوں نے انگریزوں سے عوام کا سب کچھ خرید لیا تھا۔اُن کا چُولہا،اُن کی چراگاہیں،پانی زمین اور اَناج اور اُن کی مشقت بھی۔

بارُودی لکیر (سرحد) بھمبر سے شروع ہو کر نیلم تک جاتی ہے۔دریاء نیلم بعض جگہوں پر سرحد کا کام کرتا ہے۔دریا ء نیلم کے پار ٹیٹوال سے آگے کشمیر کی عظیم صُوفی شاعرہ حَبَہ خاتون نے بنوں میں معرفت کے گیت گائے۔مشہور ہے کہ حَبَہ جنگلوں میں جب اپنے سوز بھرے بو ل پڑھتی تو پرندے اردگرد آکر بیٹھ جاتے۔
گھر سے نکلی کھیلن کو،لوٹ کے آنا بھُولا
جب مغرب میں دن ڈوبا۔
میں اَرباب کی پیاری بیٹی۔
برقع پہنے بھیڑ سے نکلی
پھر بھی خلقت دیکھنے آئی
جب جوگ لیا تو بڑے بڑؤں سے جوگ کادھندا چھوٹا
جب مغرب میں د ن ڈوبا۔

اَب ان جنگلوں میں حبہ کے گیت نہیں ہیں۔بَس بارُودی گولوں کا خوف رہتا ہے۔اہل نیلم کی واحد رابطہ سڑک ان بارُود بھرے گولوں کی زَد میں ہے۔کئی مسافر گاڑیوں کو ان گولوں نے موت کے منہ میں دھکیل دیا۔کشمیر میں مکئی کی فصل تیار ہونے کو ہے۔مکئی کے پودوں نے سٹے نکال لیے ہیں۔چھَلیاں اَب دانوں سے بھرنے کو ہیں۔مکئی اور باجرے کی فصلیں لہلہا رہی ہیں۔خواتین و مرد مل جُل کر کام کرتے ہیں۔گھاس کٹائی کے دنوں سارے گاؤں محلے کا مل کر گھاس کاٹنا لیتری کہلاتا ہے۔شہروں میں یہ رواج دَم توڑ چکا ہے۔دیہاتوں میں یہ آج بھی موجود ہے۔سرحد کے دونوں اطراف آبادی ہے۔لوگ دن بھر کام کرتے رہتے ہیں۔مگر اس بار بارُود بھرے گولے کھیتوں میں کام کرتی عورتوں اور گھر کی چھتوں پہ کھڑے بچوں کو اُڑا رہے ہیں۔اپنے کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین،راہگیروں اور بچوں کے پاس سرحد کی طرف موڑنے والا کوئی ہتھیار نہیں ہے۔وہ نہتے ہیں اور بارود کے سائے میں زندگی بسر کرنے پہ مجبور ہیں۔بارُود و آگ کا یہ کھیل ستر سالوں سے جاری ہے۔تعلیم،کھیت،زندگی کی ساری مسکراہٹیں خوف کے پہرے میں ہیں۔اگر کوئی پہرہ نہیں تھا تو وہ دریاء نیلم،جہلم اور پونچھ کے پانیوں پہ نہیں تھا۔اب پانی پہ بھی پہرے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

کرشن چندر نے پونچھ کے جن پنچھیوں کو سُنا تھا اپنے ناول ”برف کے پھول“ میں پیر پنجال کے برف زاروں پر قلانچیں بھرتے ہِرنوں کی جن ڈاروں کی منظرکشی کی تھی۔حَبَہ کے گیت جن پرندوں نے سُنے تھے۔وہ پیاری دُنیا بارُود میں دَب کر رہ گئی ہے۔بارُود کے گولے جب پھٹتے ہیں تو لاشیں گرتی ہیں،لہلہاتی فصلیں اُجڑتی ہیں زمین کالی پڑجاتی ہے۔معصوم پنچھی سہم کر رہ جاتے ہیں اور جیسے پُوچھتے ہیں ”یہ جنت لاشوں اور بارُود کے لیے تو نہ تھی‘‘۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”سرحد

Leave a Reply