افق ِ علوم کا درخشاں ستارہ — رئیس امروہوی/عدیل رضا عابدی

برصغیر پاک وہند کی ریاست یوپی کے شہر امروہہ کا نام آتے ہی ذہن علم وادب،اعلیٰ تہذیب وتمدن کی جانب توجہ دلائے بغیر نہیں رہتا۔نثر ہو یا شاعری،مصوری ہو یا فلم، فنونِ لطیفہ کے ہر میدان میںمردم خیزسرزمین ِامروہہ نے ایسے ایسے عظیم سپوت پیدا کیے، جنھوں نے بین الاقوامی سطح پر اپنے شہر امروہہ کا نام روشن کیا۔ رئیس ؔامروہوی، جون ؔایلیا، کمال امروہوی اور عظیم امروہوی جیسے عظیم شاعر، ادیب، نقاد اور فن کار امروہہ کی سرزمین نے ہی پیدا کیے۔آج برصغیر ِ پاک و ہند میں افق ِ علوم پر دمکنے والے اس ” درخشاں ستارے ” کا یوم ولادت ہے جسے دنیا ” رئیس امروہوی ” کے نام سے جانتی ہے۔ سید محمد مہدی المعروف رئیس امروہوی نے علاقہ سید شفیق الحسن نقوی کے گھر آنکھ کھولی۔ آپ کا گھرانہ متحدہ ہندوستان کے شہر امروہہ میں ایک علمی گھرنے کے طور شہرت رکھتا تھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد علامہ سید شفیق حسن سے حاصل کی ۔1936ء میں صحافت میں قدم رکھا اورامروہہ کے اخبارات’’قرطاس‘‘ اور’’ مخبرِ عالم‘‘ میں ادارت کی خدمات انجام دیں۔اُنھوں نے کالم نویسی بھی کی۔ زبان میں فصاحت بیان میں سلاست نظر میں وسعت کی بدولت ،جس موضوع پر بھی لکھا خوب لکھا۔ رئیس ؔامرہوی کو شاعری ورثے میں ملی اور اس میں اُنھیں کمال حاصل تھا۔ اس کے علاوہ نثر میں بھی وہ اپنا ایک منفرداُسلوب رکھتے تھے۔ صحافتی شاعری یا قطعہ نگاری کو ادبی صنف کے طور پر منوانے والے رئیس امروہوی حیرت انگیز تخلیقی ذہن کے مالک تھے۔

تقسیم ہند کے بعد 19 اکتوبر 1947ء کو ہجرت کر کے کراچی آگئے اور روزنامہ جنگ سے منسلک ہونے کے بعد یہاں مستقل سکونت اختیار کی۔ آپ کی ادارت میں جنگ پاکستان کاسب سے کثیرالاشاعت روزنامہ بن گیا۔ صحافتی کالم کے علاوہ آپ کے قصائد، نوحے اور مثنویاں اردو ادب کا بیش بہا خزانہ ہیں۔ نثر میں آپ نے نفسیات و فلسفۂ روحانیت کو موضوع بنایا ۔ آنے والے وقتوں میں رئیس امروہوی نہ صرف ایک شاعر و ادیب بلکہ ایک ماہر ِ نفسیات کے طور پر بھی ابھر کے سامنے آئے ۔ آپ نے تحلیل ِ نفسی کے تحت ہپناٹزم، ٹیلی پیتھی، مستقبل بینی، علم ِ نجوم و جفر ، حاضرات  ِ ارواح اور جنات میں ملکہ حاصل کیا۔ رئیس امروہوی نے نفسیات و فلسفۂ روحانیت کی تعلیمات کی ترویج کیلئے ایک ادارہ ” من عرفہ نفسہ ” کی بھی بنیاد ڈالی جہاں سے موجودہ دور کے کئی نامور ماہرین علوم ِ روحانیات نے باقاعدہ تربیت حاصل کی۔ علم ِ النفس ( سانس کا علم ) میں آپ کا کوئی ثانی نہیں۔ خبط، نشہ ور اشیاء کے استعمال کی عادات ِ بد ترک کرنے سے لے کر آپ نے تسخیر ِ روحانی تک میں علم النفس کا استعمال اپنے شاگردوں کو تعلیم کیا۔

رئیس امروہوی تمام اصناف سخن میں قادر الکلام، پُر گو ہیں، حاضر طبع، زدو گو شمار ہوئے۔ غزل ہو یا نظم قطعات ہوں یا رباعیاں، ادب ہو یا فلسفہ، رندی و مستی ہو یا فقر و تصوف ، سنجیدہ مضامین ہوں یا طنز و مزاح ، وہ ہر میدان کے ”مرد میدان“ نظرآئے۔ اُن کی ایک غزل کے اشعار ملاحظہ ہو:
ڈھل گئی ہستئ دل یوں تری رعنائی میں
مادہ جیسے نکھر جائے توانائی میں
پہلے منزل پس منزل پس منزل اور پھر
راستے ڈوب گئے عالم تنہائی میں
گاہے گاہے کوئی جگنو سا چمک اٹھتا ہے
میرے ظلمت کدۂ انجمن آرائی میں
ڈھونڈھتا پھرتا ہوں خود اپنی بصارت کی حدود
کھو گئی ہیں مری نظریں مری بینائی میں
ان سے محفل میں ملاقات بھی کم تھی نہ مگر
اف وہ آداب جو برتے گئے تنہائی میں
یوں لگا جیسے کہ بل کھا کے دھنک ٹوٹ گئی
اس نے وقفہ جو لیا ناز سے انگڑائی میں
کس نے دیکھے ہیں تری روح کے رِستے ہوئے زخم
کون اترا ہے ترے قلب کی گہرائی میں

رئیسؔ امروہوی کے قصائد، نوحے اور مثنویاں اُردو ادب کا بیش بہا سرمایہ ہیں۔ نثر میں اُنھوں نے نفسیات، فلسفہ اور روحانیت کو موضوع بنایا۔ اُن کے شعری مجموعوں میں مثنوی لالۂ صحرا، پس ِغبار، قطعات، حکایت، بحضرت یزداں، انا من الحسین ، ملبوس لباس بہاراور آثار کو  شہرتِ دوام حاصل ہوئی جبکہ نثری تصانیف میں نفسیات و مابعد النفسیات ( 3 جلدیں)، عجائب ِنفس ( 4 جلدیں)، لے سانس بھی آہستہ (2جلدیں)، جنسیات ( 2 جلدیں)، عالمِ برزخ ( 2 جلدیں)، ٹیلی پیتھی کا حصول ، حاضراتِ ارواح کی بے حد مقبول ہیں۔

ہندوستان سے ہجرت اور پھر پاکستان پہنچ کر واقع ہونے والے خاندانی اختلافات کے سبب رئیس امروہوی تہنائی کا شکار ہوئے۔ وہ اپنے ارد گرد کی چلتی پھرتی دنیا کو ایک ہجوم شمارکرتے، امروہہ میں رہ جانے والوں کی یاد انہیں ہر پل ستاتی۔ ایک مرتبہ ایک خط کے زریعے رئیس امروہوی نے اپنے دوست کمال امرہوی کو اپنی تنہائی کی شکایت کی انہوں نے لکھا کہ تمہیں دیکھے ہوئے اک زمانہ گزرگیا اور واقعی اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زمانہ گزر جائے گا اور ہم ایک دوسرے کو نہیں دیکھ پائیں گے۔ کم از کم میری ہی خاطر پاکستان چلے آؤ ۔ یہاں بے حد تنہائی ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم اس ہجوم کا حصہ ہیں جو بے ہنگم دوڑا جارہا ہے، جانا کہاں ہے معلوم نہیں۔

رئیس امروہوی بنیادی طور پرلوگوں میں گھلنے ملنے اور بلاوجہ ملاقاتوں سے گریز کرنے والے انسان تھے۔ وہ ذیادہ تر اپنے رفقاء سے خطوط کے ذریعے رابطے میں رہتے۔ رئیس امرہوی کی جن افراد کے ساتھ باقاعدہ خط و کتابت جاری رہتی ان میں امیر حمزہ شنواری ، احمر رفاعی ، ابن انشاء ، احسان دانش ، ایم اسلم ، پطرس بخاری ، تحسین سروری ، جلیل قدوائی ، جوش ملیح آبادی ، حفیظ جالندھری ، حامد حسن قادری ، حضور احمد سلیم ، رشید احمد صدیقی ، راغب مراد آبادی ، زیڈ اے بخاری ، زیب عثمانیہ لدھیانوی ، سید ہاشم رضا ، سر رضا علی ، سید احتشام حسین ، عبدالحمید عدم ، ضمیر جعفری ، الطاف علی بریلوی ، شورش کاشمیری ، عبدالسلام خورشید ، عبادت بریلوی ، عبیداللہ علیم ، غلام رسول مہر ، کمال امروہوی ، گل بادشاہ ، مشتاق احمد خان ، مصطفےٰ زیدی ، مینا کماری ، ممتاز حسن احسن ، ممتاز احمد عباسی ، ماہر القادری ، محمد صلاح الدین ، ماجد الباقری ، محمد مسلم عظیم آبادی ، نیاز فتح پوری ، نظیر صدیقی ، نثار احمد صدیقی ، نیر واسطی ، وارث سرہندی اور ڈاکٹر وزیر آغا جیسے صاحبان علم شامل ہیں۔

1983 کے شیعہ سنی فسادات کے دوران رئیس امروہوی ایک سماجی رہنما کے طور پر سامنے آئے۔ آپ نے کراچی شہر میں بھڑکتی مسلکی فسادات کی آگ کو بجھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس حوالے سے دونوں طرف کے علماء سے ملاقات کرنا اور انہیں معاملات کو سنبھالنے کیلئے راضی کرنا آپ کا وطیرہ تھا۔ رئیس امروہوی ایک علم پرست ، انسان دوست آدمی تھے۔ مظلوموں کی داد رسی آپ کا خاصہ تھی۔ 18 مارچ 1984 کو مہاجر قومی موومنٹ کے وجود میں آنے کے بعد رئیس امروہوی سیاسی طور پر اس کے ساتھ منسلک ہوئے ہوگئے۔ آپ نے اس جماعت کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے شہر کراچی میں قیام امن کے لئے اہم کردار ادا کیا اور اپنی صاحبان علم کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اپنے اپنے حلقوں میں مذہبی و مسلکی منافرت کی حتی القدر مخالف کریں گے۔ جس طرح سے رئیس امروہوی انسانی ہمدردی اور مظلوموں کی دادرسی کے جذبے سے سرشار ہوکر پسے ہوئے طبقے کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے خواہاں تھے شاید وہ انسان دشمن عناصر کو نہیں بھایا اور یوں 22 ستمبر 1988 کو کراچی میں علم کا یہ درخشاں ستارہ خون میں نہلا دیا گیا۔ آپ کو زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں آپ نے 72 سال کی عمر میں جام ِ شہادت نوش کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اخبارات سے ملنے والی معلومات کے مطابق سال 1991 میں 3 ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا جن کا تعلق ایک کالعدم مذہبی فرقہ وارانہ جماعت سے تھا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ یہ تینوں ملزمان ایم کیو ایم رہنما رئیس امروہوی کے قتل میں ملوث ہیں۔ بعدِ گرفتاری ان ملزمان کا کیا بنا یہ آج تک کسی کو معلوم نہ ہوسکا لیکن علم کے افق پر دمکتا ستارہ رئیس امروہوی آج تک صاحبان علم افراد کے دلوں میں روشن ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply