محبت کی نفسیات(قسط1)۔۔۔عارف انیس

محبت کیمیا ہے یا کیمیا گری ہے؟
آپ کو آخری بار کب محبت ہوئی ہے؟
“محبت بنیادی طور پر کیمیکلز کا کھیل ہے، جو انسانی دماغ میں چھلانگیں مارتے، عقل اور حواس کو پچھاڑتے جاتے ہیں۔”

جب میں نے ایم اے انگلش کےآخری سال میں،  انگریزی کے جہاز سے چھلانگ مار کر شعبہ نفسیات میں داخلہ لیا تو آخری سال خاص طور پر “نیورو سائیکالوجی” کے مضمون کا چناؤ کیا۔ اس مضمون نے چاروں شانے چت کردیا۔ میں تب بھی لکھاری تھا اور شدید رومانٹک بھی سو میں اس وقت یہ جان کر ہکا بکا رہ گیا کہ محبت اور عاشقی دراصل کچھ نیوروٹرانسمٹرز اور کیمیکلز کا کھیل ہیں اور باقی سب شاعروں اور لکھنے والوں کا زور بیان ہے۔

آپ میں سے بہت لوگ تو جانتے ہوں گے، جو نہیں جانتے ان کے لیے یہ ایک نیا طلسم ہوش افزا ہوگا۔ تکنیکی طور پر یہ ایک پیچیدہ بات ہے، اسے آسان بنانے کی کوشش کروں گا۔ انسانی دماغ میں تقریباً 86 ارب نیوران ہیں۔ ہمارا سارا جذباتی، عقلی، جسمانی سرکٹ انہی پر منحصر ہوتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اربوں نیوران آپس میں رابطہ کیسے کرتے ہیں؟ یہ رابطہ کیمیائی ہرکاروں کے ذریعے ہوتا ہے جو بجلی کی سرعت سے ایک نیوران سے دوسرے کی طرف لپکتے، دوڑتے بھاگتے ہیں۔ ابھی تک معلوم رفتار تقریباً 119 میل فی سیکنڈ ہے۔ بیسویں صدی تک سمجھا جاتا تھا کہ دماغ کے اندر کمیونیکیشن برقی ذریعے سے ہوتی ہے، مگر آگے جاکر انکشاف ہوا کہ یہ ترسیل برقی نہیں، کیمیائی ہے۔

نیوروٹرانسمٹرز وہ ہرکارے ہیں جو برق رفتار گھوڑوں پر بھاگ نکلتے ہیں اور دیکھتے ہی دکھتے برین سرکٹ میں اپنا پیغام ڈیلیور کردیتے ہیں۔ ان کی کیمیائی تعریف لمبی چوڑی ہے۔ میں جو ان کی سب سے بہترین تعریف “برین جوس” کے نام سے کرتا ہوں۔ تقریباً  فرض کرلیں آپ کے دماغ میں مختلف قسم کے جوس ہیں اور آپ کے تمام تر جذبات اور احساسات انہی میں بہتے جارہے ہیں۔نیوروٹرانسمٹرز کی مختلف قسمیں ہیں۔ ڈوپامین ، آکسی ٹوسن ، سیروٹونن اور اینڈورفن سبھی “خوشی” کے ہرکارے ہیں اور مسرت کے جذبات کے اتار چڑھاؤ میں ایک انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ڈوپامین ایک ایسا نیوروٹرانسمٹر جو آپ کو متحرک رکھتا ہے اور آپ کو اپنی پسند سے لطف اندوز ہونے دیتا ہے۔ آپ کو اچھا کیوں لگتا ہے… جب آپ لاٹری جیت جاتے ہیں تو ، اپنے سیلز کا ہدف پورا کرتے ہیں ، وقت پر اپنی ٹرین کو پکڑ لیتے ہیں ۔۔ یا اپنی پسندیدہ آئسکریم کھاتے ہیں، یا اپنی پسند کا گانا سنتے ہیں،یا یاروں بیلیوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔ یہ سب ڈوپامائن کو متحرک کرتے ہیں۔ بھنگ یا چرس استعمال کرنے والے کے دماغ کو ڈوپامائن کی قید میں بھی مبتلا کردیتے ہیں اور نشہ آور ادویات کے استعمال سے لوگ ڈوپامین کی حد سے زیادہ مقدار میں لت پت ہوجاتے ہیں۔

اب ایک ظالم قسم کا نیوروٹرانسمٹر ہے جسے آکسی ٹوسین کہتے ہیں۔ یہ ‘بانڈنگ’ ہارمون ہے جو آپ کے آس پاس کے لوگوں کے ساتھ مضبوط بانڈ / اعتماد / تعلقات بنانے میں مدد کرتا ہے۔ جب ماں کی  چھاتی اپنے بچے کو دودھ پلاتی  ہے تو دونوں آکسی ٹوسن کی زیادہ مقدار چھوڑ دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے مابین مضبوط رشتہ ہوتا ہے۔ اب جب دو لوگوں کو آپس میں محبت ہوتی ہے تو اس وقت بھی دماغ میں آکسی ٹوسین نے دھمال ڈالی ہوتی ہے۔ انتہائی قربت کے لمحات میں بھی آکسی ٹوسین کی کافی مقدار خارج ہوتی ہے۔ آکسی ٹوسین ہنسی مذاق کے دوران بھی خارج ہوتا ہے اور اسی وجہ سے جن لوگوں کے ساتھ آپ ہنس کھیل سکیں، وہ آپ کے دل کے قریب ہوتے ہیں۔

سیری ٹونن وہ نیوروٹرانسمٹر ہے جو آپ کو ‘اہم محسوس’ کرنا سکھاتا ہے، سمجھ لیجیے کہ یہ آپ کی سیلف اسٹیم کی جڑ ہے۔ اس کی کمی شدید احساس کمتری اور تنہائی میں مبتلا کردیتی ہے۔ سیری ٹونن کی سطح کو برقرار رکھنے کا ایک بہت آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی ماضی کی کامیابیوں ، خوشی کے لمحات کو یاد رکھیں اور اپنے خدا اور آس پاس کے لوگوں کا شکریہ ادا کریں۔ جن لوگوں میں خود کشی کے رجحانات بہت زیادہ ہیں ، یا لوگ معاشرہ سرگرمیوں میں مبتلا ہیں ان کے خون میں اس نیورو ٹرانسمیٹر کی کمی ہے۔ رات کی اچھی نیند کے لیے بھی یہ بہت ضروری ہے۔

اینڈورفن ایک اور نیوروٹرانسمٹر ہے، میں اسے ‘راک اسٹار’ ہارمون کہوں گا۔ اس سے جسمانی سرگرمیوں کی وجہ سے ہمارے تناؤ اور تکلیف پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔ جب ہم دس میل بھاگنے کا قصد کرتے ہیں یا جم میں دو گھنٹے کی شفٹ لگاتے ہیں تو یہ اینڈورفن ہے جو ہمیں چلاتا رہتا ہے۔ یہ ہمیں چوٹوں سے صحت یاب ہونے میں مدد کرتا ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ ہماری قوت مدافعت کو بھی بہتر بناتا ہے۔ ہنسی مذاق اور خوش رہنے سے بھی اینڈورفن بنتا ہے۔

ذرا سوچیے جب آخری بار آپ کسی کی محبت میں گرفتار ہوئے یا ہوئیں؟ ہوسکتا ہے کہ اس وقت چکر آگئے ہوں ،یا آپ کی ہتھیلیوں میں پسینہ آگیا ہو یا بات کرتے وقت لگا ہو کہ گلے میں کسی نے کپاس رکھ دی ہے، یا اپنے محبوب یا محبوبہ سے بات کرتے وقت سانس چڑھ گیا ہو؟ امکانات ہیں ، آپ کا دل آپ کے سینے میں گرج رہا تھا اور شدید ٹھنڈ میں بھی پسینہ آگیا تھا۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ، صدیوں سے ، لاکھوں شاعروں نے دل سے محبت کو جنم لینے کے حوالے سے دل کے قصیدے لکھے اور اس کے گرد جھومر ڈالے۔ اب معلوم نہیں کہ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی یا غصہ آئے گا کہ پیار کا مرکز دل میں نہیں دماغ میں واقع ہے۔ بے چارہ دل تو دماغ کی بکھیری ہوئی دھنوں پر رقص کررہا ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ماہرین نفسیات کے خیال میں رومانوی محبت تین خانوں میں بانٹی جاسکتی ہے :ہوس، کشش یا بندھن۔اگلی قسط میں سب کے بارے میں، باری باری بات کریں گے۔
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply