افلاطون کی مثالی ریاست اور فارابی کا مثالی شہر

افلاطون نے اپنی شہرۂ آفاق تصنیف “The Republic” میں ایک مثالی ریاست کا نقشہ پیش کیا ہے۔ یہ ایک گراں قدر تصنیف ہے۔ اس ریاست کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کی بنیاد عدل پر قائم ہے اور اس میں امن و امان اور سماجی ترقیاتی حرکیات کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ افلاطون عنان اقتدار تاجروں کو نہیں سونپنا چاہتا بلکہ حق ِحکمرانی فلسفیوں کو دیتا ہے تاکہ وہ فلسفیانہ مناہج کو بروئے کا ر لاتے ہوئے صائب اور دور اندیشی پر مبنی فیصلے کریں جو ریاستی ترقی کا باعث بن سکیں۔ تاہم یہ بہت سی قباحتوں سے مبرا نہیں۔ اس پر برٹرینڈ رسل نے بھی خاصی تنقید کی ہے اور کارل پوپر نے بھی اپنی کتاب “Open Society and Its Enemies” میں اسے جدید تصور ِریاست سے متصادم قرار دیا ہے۔

میرے خیال میں افلاطون نے مثالی ریاست کا جو تصور پیش کیا ہے وہ طبقاتی تفریق کو ہوا دیتا ہے۔اس کی ساری ہمدردیاں جمہور کے ساتھ نہیں بلکہ اشرافیہ کے ساتھ ہیں۔ وہ جمہوریت کی نفی کرتا ہے۔ بعض مترجمین نے “Republic” کا ترجمہ “جمہوریہ” کیا ہے جو غلط ہے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین نے اس کادرست ترجمہ ”ریاست“ کیا ہے۔ اصل میں افلاطون کے سامنے سپارٹا جیسی جنگجو اور استبدادی ریاست تھی جہاں جنگی تربیت ہر شہری پر لازم تھی۔ تعلیمی اداروں میں طلبہ کے ہاتھوں میں کتابوں کے ساتھ ساتھ جنگی ہتھیار بھی تھے۔ چنانچہ افلاطون بھی سپارٹا کے تتبع میں اپنی مثالی ریاست کے شہریوں کے لیے جنگی تربیت کو لازمی قرار دیتا ہے اور ایک طرح کا عسکری معاشرہ ترتیب دینا چاہتا ہے۔ پھر سپارٹا میں اور بھی قباحتیں تھیں۔ مثلاً وہاں ہم جنسیت کا رواج عام تھا اور اسے ناپسندیدگی کی نظروں سے نہیں دیکھا جا تا تھا۔ پھر نیوگ جیسی قبیح رسم بھی تھی یعنی عورت کو یہ اختیار کہ وہ اپنے شوہر سے قوی تر مردوں سے اولاد پیدا کرسکتی ہے۔ ان تمام قباحتوں کو افلاطون نے سراہا ہے۔ دراصل وہ اپنی مثالی ریاست کو سپارٹا سے بھی زیادہ مضبوط دیکھنا چاہتا تھا۔ چنانچہ مثالی ریاست کا تعلق نظریہء ضرورت سے بھی تھا۔ افلاطون نے اقربا پروری سے بچنے کے لیے اشتراکِ نسواں کا بھی تصور پیش کیا تاکہ بچے جب ہوش سنبھالیں تو انھیں یہ تک خبر نہ ہو کہ ان کے والدین کون سے ہیں اور نہ ہی والدین کو پتہ ہو کہ ان کی اولاد کون سی ہے۔یہ تصور اگرچہ حکمران طبقے تک محدود تھا مگر یہ انتہائی غیر فطری اور ناقابل ِعمل تصور تھا۔ افلاطون عورتوں کے متعلق بھی کوئی اچھی رائے نہ رکھتا تھا۔ “طائمیس (Timaeus)” میں وہ یہ رائے دیتا ہے کہ جب کوئی مرد بزدلی کی زندگی گزارتا ہے تو وہ دوسرے جنم میں عورت بنا کر بھیجا جاتا ہے۔ چنانچہ اس نے عورت کو اپنی ریاست میں دوسرے درجے کی مخلوق گردانا ہے۔ وہ فنون لطیفہ کے بارے میں بھی کوئی بہتر رائے نہیں رکھتا۔ اس نے شعرا کو اس ریاست سے بے دخل قرار دے دیا ہے کیوں کہ اس کے خیال میں ا ن کا رابطہ عالم امثال سے نہیں اور یہ دیوتاؤں کو کرپٹ روپ میں پیش کرتے ہیں۔ وہ دیگر ثقافتی مظاہر کو بھی نہیں سراہتا البتہ موسیقی کو قدر کی نگاہ سے ضرور دیکھتا ہے اور اسے طلبہ کے نصاب میں ایک لازمی مضمون کی حیثیت دیتا ہے۔ افلاطون نے فلسفی حکمران کا جو تصور پیش کیا ہے اس کے حوالے سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ضروری ہے کہ ایک اچھا فلسفی ایک اچھا منتظم بھی ثابت ہو؟۔

اب آتے ہیں معلم ثانی (فلسفے کی دنیا میں معلم اول ارسطو کو کہا جاتا ہے) ابو نصر فارابی کی تصنیف ”المدینتہ الفاضلہ“ کی طرف، جس میں اس نے ایک مثالی شہر کا تصور پیش کیا ہے۔ الفارابی یونانی فکر خاص طور پر ارسطو کے فلسفے سے متاثر تھا۔ مگر اس نے یونانی فلسفے کا تتبع اور احیا ہی نہیں کیا بلکہ اپنے اوریجنل خیالات بھی پیش کیے ہیں۔ اس نے افلاطون کی ”ریاست“ کا مطالعہ کررکھا تھا اور اس کے مثالی شہر پر افلاطون کی مثالی ریاست کے اثرات پائے جا تے ہیں، مگر اس نے بعض نادر خیالات بھی پیش کیے ہیں جو افلاطون کے ہاں نہیں پائے جاتے۔ فارابی بھی افلاطون کی طرح حقِ حکمرانی فلسفی ہی کو دیتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ اضافہ بھی کرتا ہے کہ اس حکمران کو بعض صوفیانہ خصائص کا بھی مالک ہونا چاہیے، یعنی پاکیزہ نفس، بدی کا مقابلہ کرنے والا اور عالم لاہوت سے ربط و ضبط رکھنے والا۔ عالم لاہوت سے اس کا یہ رابطہ عقل مستفاد کے ذریعے ہوتا ہے جو اس کا رابطہ عقل ِفعال سے کراتی ہے۔ فارابی کے نزدیک ایک حکمران کو مقدس روح کا حامل ہونا چاہیے۔ مقدس روح سے فارابی کی مراد ایک ایسی روح ہے جو کسی ایسے شخص ہی کو حاصل ہوتی ہے جو گہرے تفکر اور باطنی مشاہدے میں مصروف رہنے والا حکیم یا فلسفی ہے۔ یہ روح وہ ہے جو فارابی کے الفاظ میں ماورائی دنیا کے دھیان میں رہتی ہے اور نیچے کی دنیا کی پروا نہیں کرتی اور اس کی ظاہری حس اس کی باطنی حس پر غالب نہیں آتی۔ اس حوالے سے فارابی کی “عقول ِعشرہ” کا مطالعہ بے حد مفید ہے کیوں کہ یہ وحدت اور کثرت کے باہمی تعلق کی وضاحت کرتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بہرحال اس موضوع پرتفصیلاً پھر کسی وقت بات ہوگی۔جو بات یہاں دیکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ فارابی کی ریاست میں وہ قباحتیں نہیں پائی جاتیں جو افلاطون کے تصور ِریاست میں در آئی ہیں۔ فارابی بھی اپنی ریاست کی بنیاد عدل پر رکھتا ہے مگر وہ اسے افلاطون کی طرح طبقاتی تقسیم کا شکار نہیں کرتا نہ ہی اس کی ہمدردیاں محض طبقہء اشرافیہ سے ہیں۔ وہ ریاست کو ایک “نامیاتی کل(Organic Whole) ” تصور کرتا ہے، جس کے تمام افراد ایک جسد واحد کی طرح باہم مربوط ہیں اور اس کے حکمران کا تعلق اس ریاست سے وہی ہے جیسا ایک دل کا جسم سے ہوتا ہے۔ فارابی کہتا ہے کہ ایک حکمران کا دل عوام کے دل کے ساتھ دھڑکتا ہے اور اس کے مقاصد اور اس کی خواہشات عوام سے الگ نہیں ہوتیں۔ فارابی ہر شہری کی صلاحیتوں کے مدِنظر اس کے فرائض کا تعین کرتا ہے۔ اس کی ریاست ایک فلاحی ریاست ہے۔ وہ خواتین کو ایک قابل ِقدر مقام دیتا ہے۔ فارابی جن خصوصیات کو ایک حکمران میں دیکھنا چاہتا ہے ان میں صداقت،عدالت اور شجاعت ہیں جن کا ذکر افلاطون نے بھی کیا تھا اور اقبال نے بھی کیا ہے۔

Facebook Comments

اعجازالحق اعجاز
PhD Scholar at Punjab University,Writer

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply