تبدیلی یا معاشی دہشت پسندی ۔۔۔۔ناصر منصور

حکومت نے اب تک جو کیا ہے وہ ان دعوؤں کو تقویت پہنچا رہا ہے کہ کچھ بدلنے والا نہیں ہے۔یہ کوئی خوشی کی خبر نہیں ہے لیکن زہر کو قند کہنا بھی تو دھوکہ دہی کے زمرہ میں ہی آتا ہے۔ باتوں، نعروں اور بلندآہنگ وعدوں سے سماجی تبدیلی کے وسیع مقاصد کا حصول ناممکن ہے۔ وعدوں کی شعبدہ بازی پہلے بھی ٹریڈ مارک تھی اور اب بھی اسی کو عوام کے ذہنوں میں ٹھونسنے کی کوشش جاری ہے۔

یہ سب کچھ ہم کہنے پر اس لیے بھی مجبور ہیں کہ سماج کو درپیش گھمبیر سیاسی اور معاشی بحران کا یا تو موجودہ حکومتی کل پرزوں کو ادراک ہی نہیں یا پھر انھوں نے عوام کو مسلسل بے وقوف بنانے کی ٹھان رکھی ہے، دونوں صورتیں حالات کو مزید بحرانی کیفیت سے دوچار کریں گی۔مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے کو درپیش سوال کچھ اور ہے جبکہ جواب کچھ اور ہی دیا جارہا ہے۔ملک دھاندلی زدہ الیکشن کے نتیجے میں نہ ٹلنے والے سیاسی بحران کی زد میں ہے جو کسی بھی وقت طوفان کی صورت اختیار کر سکتا ہے لیکن اس سے نبردآزما ہونے کے لیے عدالتی ہتھوڑی اور خاکی اسٹیک کا نہ صرف سہارہ لیا جارہا ہے بلکہ اس کے ذریعے مخالفین  کو مسلسل خوف  زدہ بھی کیا جارہاہے۔اس سے ان کی نام نہاد غیر جانب داری کا پردہ بھی چاک ہو گیا ہے۔

نئی وفاقی اور پنجاب کابینہ کی تشکیل نے ایک بات تو واضح کردی ہے کہ ماضی اور حال میں کوئی خاص فرق تلاش کرنا خاصا تحقیق طلب کام ہے۔سماجی تبدیلی کے کٹھن سفر کے لیے جن گھوڑوں کا انتخاب کیا گیا ہے سفر کے آغاز میں ہی ان کے پاؤں پھولے ہوئے اور جواب دیے بیٹھے ہیں۔اس حکومت کے ترجمانوں کے لیے سفر کے سلسلے میں ہیلی کاپٹروں کو کار سے سستا ثابت کرنا اور نرگس کو حاجی بنانا تبدیلی جیسے مسائل اولین ترجیحات ٹھہرے ہیں۔جب کہ سفارتی محاذ کو جلسہ عام میں کی جانے والی عمومی دروغ گوئی کے غلاف میں لپیٹ کر ہی نمٹانے کے فارمولہ نے جگ ہنسائی کا خوب موقع فراہم کیا ہے۔ اسی پر اکتفا نہیں پورے مالیاتی اور معاشی امور کو اینگرو کمپنی کے مالکان اور ملازمین کے حوالے کردیا ہے جس کے نتائج بہت جلد عوام خصوصاً محنت کشوں پر بجلی بن کر گرنے والے ہیں۔ یہ الٹا ہاتھ دکھا کر سیدھے ہاتھ کا زناٹے دار تھپڑ مارنے کے لیے تیاری کیے بیٹھے ہیں اور کینسر سے پھیلتے مرض کا علاج سر درد کی گولی سے کرتے ہوئے چمتکار کی امید رکھی جارہی ہے۔ اجلاسوں میں چائے اور بسکٹ سے تواضع، سادگی، وزیراعظم اور گورنر ہاؤسز کے چھوٹے سے حصے کا استعمال ، پروٹوکول کے بغیر سفر، پرائم منسٹر ہاؤس کی گاڑیوں کا نیلام عام جیسے مصنوعی اقدامات مرض کی شدت کو کم نہیں کرسکتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سادگی کے اظہار کی آڑ میں عوام پر ایک بڑی قربانی زبردستی تھونپے جانے کا انتظام ہو چکا ہے اور اس کا اعلان ہوا چاہتا ہے۔

تلخ حقیت تو یہی ہے کہ اندرونی اور بیرونی قرضوں میں بری طرح جکڑی مفلوج معیشت اور اس پر کھڑا لڑکھڑاتا سماجی ڈھانچہ بہت ہی بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کا متقاضی ہے۔ فواد چوہدری، فیاض الحسن،بابر اعوان، گجراتی چوہدری، شیخ رشید، اینگرو مافیا، بزدار، شاہ محمود قریشی اور’’ باپ‘‘ جیسے آزمائے مٹی کے مادھو اس مادہ سے بنے ہوئے ہی نہیں جو تبدیلی کے عمل کو تقویت پہنچا سکیں۔حقیقت میں یہ تبدیلی کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کی نمائندہ علامتیں ہیں یہ خود بیماری کی بہت سی علامات میں سے چند ایک ہیں۔

ملک کو درپیش معاشی مسائل کے حل کے لیے اینگرو گروپ کی آمد پر ہی   کیا کچھ کم سراسمیگی پھیلائی تھی کہ اب 18 رکنی اقتصادی مشاورتی کونسل کے اعلان سے بچی کچی خوش فہمی کوبھی ختم کر دیا۔ اس کونسل کے تمام ممبران خصوصاً نجی شعبہ سے وہ ہیں جو بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کو ایمان کی حد تک ہماری ساری بیماریوں کا حل سمجھتے ہیں۔ ان میں سے ایک بھی ایسا نام نہیں ہے جسے عوام کے مفاد میں کم از کم غیر جانب دار کہا جا سکے۔ان میں سے اکثر تو کسی نہ کسی شکل میں ماضی کی حکومتوں یا پھر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے منصوبوں کا حصہ رہے ہیں اور موجودہ شدید معاشی و مالیاتی بحران کا براہ راست یا بالواسطہ ذمہ دار ہیں۔ بدقسمتی سے بعض تو پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی جانب سے ہونے والی مالیاتی دہشت گردی میں ملوث رہے ہیں۔

پاکستان ملک پر قابض حکمرانوں کی پالیسیوں کے منطقی نتیجے کے طور پر مسلسل بحرانوں میں گھرتا ہی چلا جائے گا اگر اس نے اندرونی اور بیرونی محاذ پر بنیادی نوعیت کی معاشی ،سیاسی اور خارجہ امور پر تبدیلیوں کا فیصلہ نہ کیا ۔آج سب سے بڑا بحران اقتصادیات ہے جس کے تانے بانے خارجہ امور اور اندرونی سیاست سے جڑے ہوئے ہیں ۔اندرونی سیاست اور جمہوری عمل کے راستے میں رکاوٹ مقتدرہ قوتیں جب تک اپنے آئینی دائرے میں کام نہیں کریں گی سویلین بالا دستی کا تصور ادھورا اور ناکام رہے گا ۔یہی مقتدرہ قوت جب جمہوری قوتوں کو دباتی ہے اور اپنے دائرہ اختیار کو غیر آئینی طور پر وسعت دیتی ہیں تو لامحالہ وہ پھر خارجہ پالیسی کا رخ تعین کرنے پر بھی قادر ہو جاتی ہے ۔اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اندرونی محاذ پر زبردست خلفشار ہے لیکن خوف کی بنا پر اس کا رد عمل نظر آنے میں وقت لگ رہا ہے۔ لیکن خارجہ محاذ پر جو کچھ کیا گیا ہے اس کے نتائج آپ کے سامنے ہیں ۔

ہندوستان  کھلے عام ہمارے خلاف ہے ، افغانستان مسلسل چلا رہا ہے کہ ہم وہاں کی خانہ جنگی کی بنیادی وجہ ہیں،ایران میں یہ خیال راسخ ہو چکا ہے کہ ہم خطے میں ہونے والی پراکسی وار میں اس کے متحارف فریق کے ساتھ ہیں ،یورپ اور امریکا میں سمجھا جا رہا ہے کہ دنیا میں دہشت گردی کے سوتے ہمارے ہاں ہی سے پھوٹتے ہیں اور ہم یہ تاثر زائل کرنے کوئی بھی کوشش سنجیدگی سے نہیں کرتے اور یوں بین الاقوامی محاذ پر ہم مسلسل تنہائی کا شکار ہیں ۔یوں ہماری عالم آشکار کوتاہیوں اور کج رویوں کی حمایت میں ہمارے دوست بھی ہمارے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار نہیں۔اس کے براہِ راست اثرات ملکی معیشت پر پڑ رہے ہیں ۔ایک بڑا معاشی بحران آن کھڑا ہوا ہے جس سے نبرد آزما ہونا موجودہ سیاسی سیٹ اپ اور اس کی پشت پر موجود مقتدرہ قوتوں کے بس کی بات نہیں ۔کیوں کہ یہ کسی ایسی دور رس تبدیلی کی سکت ہی نہیں رکھتے جو بحران کو ٹال سکے۔اس لیے مسلسل مصنوعی طریقے سے اسے ٹالنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے ۔

اب معاشی بحران کاخوف دلا کر سادگی اپنانے اور اخراجات میں کمی کی بات تو کی جا رہی ہے لیکن غیر پیداواری اخراجات خصوصاََ دفاعی اخراجات میں کمی کا کوئی عندیہ نہیں دیا جا رہا ۔ یہ ایک ایسا عنوان ہے جس پر بات کرنا آج بھی مشکل ہے ۔دفاعی اخراجات میں کمی کے لیے ضروری ہے کہ مقتدرہ قوتیں تمام سیاسی قوتوں کی منشاء کے عین مطابق ہندوستان سے مخاصمت کے خاتمے کے لیے حقیقی اقدامات کریں ۔ملک میں موجود ان دہشت گرد مذہبی گروہوں ،چاہے ان کا دائرہ عمل ملک کے اندر ہو یا کہ بیرون ملک، ان کی حقیقی معنوں میں پشت پناہی بند کرنی چاہیے ایران اور سعودی عرب میں جاری بلاواسطہ جنگ میں طرفدار رہنے سے مکمل طور پر براء ت کا اعلان کرنا چاہیے ۔اس عمل کے نتیجے میں خطے میں ہمارے بارے میں پھیلے نفرت انگیز تصور کی گرمی میں تیزی سے کمی واقع ہو گی ۔جس کے نتائج یہ ہوں گے کہ ہمیں اپنے دفاعی اخراجات میں کمی کا حقیقی موقع فراہم ہو گااور معیشت میں مثبت رحجان بڑھیں گے ۔

وقت کا تقاضا ہے کہ سیاسی قیادت کو اپنی تمام تر کوتاہیوں اور کمزوریوں کے آزادانہ طور پر پالیسیاں بنانے اور ان پر عمل درآمد کے اختیار سے ہی سیاسی حالات میں بہتری کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں اور وہ عوام کے مینڈیٹ کے ساتھ بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرضوں کو مخصوص مدت کے لیے مؤخر(Moratorium) کرنے پر بات کرسکتی ہے۔ملکی معشیت کو کسی حد تک ترقی کی راہ پر لانے کے لیے ضروری ہے کہ لازمی اور ضروری امپورٹ کے علاوہ دیگرتمام غیر ضروری اشیاء پر پابندی عائد کی جائے۔ملکی صنعت خصوصاََ ٹیکسٹائل ، گارمنٹس کی ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے ’’لانگ ٹرم‘‘ منصوبہ بندی کی جائے ۔یہ ایسا شعبہ ہے جو ملکی ایکسپورٹ کو دوگنا کرنے کی صلاحیت کے علاوہ کروڑوں نہیں تو لاکھوں ملازمتوں کے مواقع پیدا کر سکتا ہے۔ملک کے اندر پیداواری عمل اور دولت کی تقسیم کو منصفانہ بنانے کے لیے زرعی اصلاحات وہ موضوع ہے جسے نصف صدی ہوئی اٹھا کر طاق پر رکھ دیا گیا ہے۔اس پر دوبارہ سنجیدگی سے بات کرنے کی ضرورت ہے ۔ملک میں انعام واکرام میں دی گئی زرعی اراضی کو بحق سرکار ضبط اور لاکھوں ایکڑ قابلِ کاشت سرکاری زمین کو بے زمین کسانوں ،بزگروں اور ہاریوں میں مفت تقسیم کیا جا سکتا ہے جس سے ملک کے اندر پیداوار ی سرکل تیزی سے چل پڑے گا ۔کروڑوں نفوس پر مشتمل آبادی اس قابل ہو سکے گی کہ وہ معیشت میں اپنا کردار ادا کر سکے ۔

لیکن حقیقت میں سب اس کے برعکس ہو رہا ہے ۔حکومت کا طرز عمل ثابت کر رہا ہے کہ وہ عوام دشمن اقدامات کو ہی بحران کو ٹالنے کا واحد حل تصور کرتی ہے ۔ ابھی حکومتوں کی تشکیل کا عمل مکمل بھی نہیں ہوا کہ صارفین کے لیے گیس کی قیمتوں میں 50فی صد کا اضافہ کر دیا گیا ہے جب کہ بجلی کی قیمت میں 2روپے فی یونٹ بڑھا دیے گئے ہیں اور کہا جا رہا ہے بجلی کا فی یونٹ 18روپے تک کر دیا جائے گا ،اسی طرح کھاد کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے. اس کا براہِ راست اثر محنت کشوں اور پیداواری لاگت میں اضافے کی شکل میں نمودار ہو گا ۔یعنی ایک طرف اجرتوں میں سے مزید رقم گیس اور بجلی کی مد میں منہا ہو گی اور دوسری جانب اشیاء کو مہنگے داموں خریدنا پڑے گا ۔بجلی کے ایسے میٹر متعارف کرائے جا رہے ہیں جو پہلے سے ادا شدہ رقم کی بنیاد پر حاصل شدہ کارڈ کے ذریعے بجلی فراہم کریں گے ۔یعنی کہ جس کے پاس پیسے نہیں وہ بجلی جیسی بنیادی سہولت کو استعمال نہیں کر سکتا ۔یعنی ننگی معاشی دہشت گردی پر مبنی سرمایہ داری مسلط کر دی گئی ہے۔اس کے بعد تعلیمی اداروں اور صحت کے مراکز بھی مکمل طور پر نجی ہاتھوں میں دے دیے جائیں گے ۔یعنی جس کے پاس پیسے ہیں وہ تعلیم حاصل کرے اور علاج کرائے ۔جنگل کا ایک حیوانی قانون ہے جو نافذ ہو رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

’’تبدیلی ‘‘کی داعی حکومت نے پہلے مہینے میں ہی ہزاروں ایسے ڈیلی ویجز ملازمین کو بغیر کسی قانونی طریقہ کار کے جبری طور پر برطرف کر دیا ہے جو پچھلے دس برس سے مستقل اسامیوں پر کام کر رہے تھے ۔اب شنید یہ ہے کہ اداروں کی نجکاری اور مزدوروں کوبرطرف کیا جائے گا اور یہ سب کچھ حکومت شروع کے مہینوں میں کرنا چاہتی ہے تاکہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرض کی ادائیگی کے لیے مزید قرض حاصل کر سکے۔ اس صورتحال کے نتائج مزید معاشی افراتفری اور سماجی خلفشار کی شکل میں نمودار ہوں گے ۔بدقسمتی سے یہ وہ تمام دائرے ہیں جہاں تمام سیاسی جماعتیں عوام مخالف کیمپ میں کھڑی نظر آتی ہیں ۔ اس لیے موجودہ حکومت کی مالیاتی دہشت پسندی سے نبرد آزما ہونے کے لیے محنت کش عوام کو نئے راستے تلاش کرنے ہوں گے اور کسی مسیحا کے انتظار کی بجائے خود کو متبادل بنانے کی جانب جانا ہو گا ۔

Facebook Comments

ناصر منصور
محنت کی نجات کے کوشاں ناصر منصور طالبعلمی کے زمانے سے بائیں بازو کی تحریک میں متحرک ایک آدرش وادی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply